پاکستان

تھر قحط سالی رپورٹ: اختلافات کھل کر سامنے آگئے

انکوائری رپورٹ سےعندیہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی اورصوبائی حکومت رابطے کے فقدان کے باعث ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

کراچی : صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں حالیہ قحط سالی کے حوالے سے بدانتظامی پر تیار کی گئی انکوائری رپورٹ کے لیک ہونے سے داخلی تنازعات اور پاکستان پیپلزپارٹی اور صوبائی حکومت کے اندر تعاون کی کمی بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

پی پی پی کے سنیئر رہنماﺅں کے مطابق صورتحال اس وقت بدتر ہوگئی جب پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی سندھ کے صدر اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر و صوبے میں جماعت کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری منظور وسان کو تھر کی صورتحال کو ٹھیک طریقے سے کنٹرول نہ کرپانے پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی۔

ایک سنیئر پارٹی عہدیدار نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا"جلد بازی میں جاری کی گئی اس ہدایت نے منظوروسان کی مرتب کردہ رپورٹ کو درست قرار دلوا دیا ہے"۔

صوبائی حکومت کے حکام کا بھی کہنا ہے کہ یہ ایک دھچکے سے کم نہیں تھا جب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے شوکاز نوٹسز جاری کرنے کی خبر ٹی وی چینیلز پر نشر ہوئی اس سے سندھ حکومت کو تکلیف دہ پوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک عہدیدار نے کہا"یہ پارٹی اور حکومت رابطے میں کمی کی وجہ سے ہوا، جبکہ اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ پی پی پی اور حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں"۔

سنیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ سب کچھ وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں نہیں، جو تیکنیکی لحاظ سے صوبائی حکومت کے سربراہ ہیں"وہ ایک دیانتدار شخص ہیں مگر متعدد فیصلے کرنا ان کے اختیار میں نہیں"۔

اس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مثال کے طور پر اہم فیصلے جیسے ایم کیو ایم کو صوبائی سیٹ اپ میں شراکت دار بنانے کا فیصلہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کیا۔

پی پی پی کے ایک رکن اسمبلی نے اس قسم کی مداخلت کی ایک دوسری مثال دی" بلاول بھٹو زرداری نے منظور وسان کو تھر میں حالیہ قحط سالی کی تفتیش کے لیے مقرر کیا تھا، یہ ایک انتظامی فیصلہ تھا جو کہ صوبائی حکومت کے سربراہ کا اختیار تھا"۔

اسی طرح حکام کا کہنا تھا کہ صوبائی چیف ایگزیکٹو اور ان کی کابینہ کے رکن کو جاری کیے گئے شوکاز نوٹسز سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان قیادت اس معاملے کی مناسب تحقیقات کے بغیر ہی اقدامات کررہی ہے۔

یہ نوٹسز اجراءکے کچھ روز بعد ہی واپس لے لیے گئے تھے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں افراد کو باضابطہ طور پر یہ نوٹسز تحریری طور پر نہٰں دیئے گئے تھے۔

اس فیصلے سے مرتب ہونے والے اثرات پر قابو پانے کے حوالے سے ایک پارٹی رہنماءنے بتایا کہ قیادت نے منظور وسان کی تیار کردہ رپورٹ ایک ہفتے یا اس کے اندر عوامی سطح پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے قریب ایک پی پی پی رہنماءکا دعویٰ ہے کہ تھر میں قحط سالی پر میڈیا میں سامنے آنے والی رپورٹ 'من گھڑت اور جھوٹی' ہے اور وہ منظور وسان کی تیار کردہ حقیقی رپورٹ نہیں ہے۔

اس نے بتایا"درحقیقت منظور وسان نے ابھی تک اپنی رپورٹ مکمل ہی نہیں کی اور یہ منظم منصوبہ بندی سے تیار کی گئی ساازش لگتی ہے تاکہ پیپلزپارٹی سندھ کے اندر اختلافات کو دکھایا جاسکے، ہماری حکومت اس معاملے کی تحقیقات کررہی ہے"۔

پارٹی عہدیدار نے تھر کے عوام کو ریت سے بھری گندم کی بوریاں بھیجنے کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا"کون سی حکومت اپنی ساکھ کو ریت سے بھری گندم کی بوریاں بھیج کر خراب کرنا چاہے گی؟ یہ رپورٹس ہماری حکومت اور پارٹی کے خلاف سازش ہیں"۔

صوبائی حکومت کے ایک وزیر نے اعتراف کیا کہ تھر میں متعدد بچے کم خوراکی کے باعث ہلاک ہوئے ہیں، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی وجہ خطے میں صحت کے شعبے کی طویل المعیاد صورتحال ہے۔

انہوں نے مزید کہا"ہم دو سال سے زائد عرصے سے تھر کے عوام کو مفت گندم سپلائی کررہے ہیں، مگر بچوں کی ہلاکتوں کی بنیادی وجہ کمزوری کی شکار مائیں ہیں جو مناسب وقفے کے بغیر زیادہ بچوں کو جنم دے رہی ہیں، جس سے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں اور جلد انتقال کرجاتے ہیں"۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی اور حکومتی عہدیداران سے کہا گیا ہے کہ وہ میڈیا سے گریز کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سب ایک ہی صف میں ہو۔

ایک پی پی پی رہنماءنے بتایا کہ میڈیا کو منظوروسان کی جلد پیش کی جانے والی رپورٹس کے حقائق پر بحث کرنی چاہئے اور اس سے پہلے تھر کی صورتحال پر لیک ہونے والی رپورٹس کے مندرجات سے اس کا موازنہ کرنا چاہئے۔

دوسری جانب کچھ مبصرین نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبائی حکومت 'اصل رپورٹ' کو 'نئی اور کم نقصان دہ' تفصیلات سے تبدیل کررہی ہے۔