اقبال، عمران، اور پاکستان
تنقید کی بارش ہورہی ہے۔
عمران خان پر تنقید کرنے والے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے سیاسی میدان میں کچھ زیادہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عالمی معیار کا ایک ہسپتال قائم کردینا ہی سیاسی لیڈرشپ کے لیے بہت ہے، تو ایس آئی یو ٹی کے بانی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اگر وزیراعظم نہیں تو گورنر کے عہدے کے اہل تو ہیں ہی۔
ہاں، یہ پوائنٹ تو ہے۔
وہ لوگ اس بات پر زور دیتے تھکتے نہیں ہیں کہ اگر ورلڈکپ جیتنے سے کوئی سیاستدان بن سکتا ہے تو پھر اس کام کے لیے رکی پونٹنگ دو دفعہ زیادہ موزوں ہیں۔ شاید ہمیں شوکت عزیز اور معین الدین قریشی کی طرح انہیں بھی امپورٹ کر لینا چاہیے۔
ہاں یہ بھی معقول بات لگتی ہے۔
اگر ورلڈکپ بھی نہیں، اور ہسپتال بھی نہیں، تو اس کے علاوہ عمران خان کی کامیابی کیا ہے؟ اس کے علاوہ انہوں نے کون سا کارنامہ انجام دیا ہے؟
اس کا جواب اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے یونانی سیاستدان سولون کی طرح قوم کو جگایا ہے۔
انہوں نے مشہور فلسفی افلاطون کا یہ جملہ لوگوں کو یاد دلایا کہ 'سیاست میں حصہ نہ لینے کا ایک نقصان یہ ہے کہ آپ پر اپنے سے کمتر لوگوں کی حکومت قائم ہوجاتی ہے'۔
اور اگر پچھلی چار دہائیوں میں ملکی سیاست، اور اقبال کی پیشنگوئیوں کو مدِنظر رکھا جائے، تو ان کی یہ کامیابی اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
اسرارِ خودی میں اقبال شیروں کے ایک غول کی کہانی بیان کرتے ہیں جو بھیڑوں کے ایک ریوڑ پر حملہ کرتا ہے۔ یہ ریوڑ کھانے پینے کی وافر مقدار میں موجودگی کی وجہ سے موٹا اور سست ہوچکا ہوتا ہے۔ بار بار کے حملوں سے جب ریوڑ کے ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے، تو ایک بوڑھی بھیڑ پیغمبری کا دعویٰ کرتی ہے، اور شیروں پر تبلیغ شروع کردیتی ہے۔
وہ شیروں کو بتاتی ہے کہ ان میں کیا کیا خامیاں موجود ہیں، اور یہ کہ خدا انہیں پسند نہیں کرتا۔ وہ جنگل کے بادشاہوں کو اس بات پر قائل کرتی ہے کہ وہ گھاس کھانے لگیں، اور بھیڑوں کی طرح امن پسند ہوجائیں۔
اب جب شیروں کو یقین ہوگیا کہ ان میں خامیاں موجود ہیں، تو انہوں نے خود پر کی جانے والی تبلیغ قبول کی، اور اس طرح شیر اپنے حقیقی مقام سے محروم ہوگئے۔
اسی طرح پاکستان کے شیروں، یعنی کچھ کر دکھانے کا جذبہ رکھنے والے عام پاکستانیوں، ملک کے غریبوں اور محنت کشوں نے 70 کی دہائی میں جاگیردار بھیڑوں کے غول پر حملہ کیا تھا۔
لیکن اس دفعہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی بھیڑیں ان سلطنتوں کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں جو کہ انہوں نے بنائی تھیں۔ صرف ایک نہیں، کئی لوگوں نے شیروں پر تبلیغ شروع کردی، اور انہیں اس چیز کے لیے جدوجہد کرنے سے منع کیا جو واقعاً انہی کی تھی۔ صرف ایک نہیں، بلکہ کئیوں نے ہی شیروں کو جکڑنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
بھیڑوں کے اس غول کا لیڈر خاکی وردی میں ملبوس ایک منافق بہروپیا تھا۔
اس کے نتیجے میں ایک سسٹم وجود میں آیا۔ ایک ایسا سسٹم جہاں کوئی بھی اگلی دنیا میں سرخرو نہیں ہونا چاہتا تھا، ایک ایسا سسٹم جہاں بخوشی یا مجبوراً بھیڑوں کی ہی بات مانی جانی تھی، ایک ایسا سسٹم جہاں شیروں نے بھیڑوں کی حفاظت کرنی تھی۔
یہ جان مِلز کے شیر نہیں تھے جو ہم پر جھپٹے، یہ وہی سست بھیڑیں تھیں۔
اس سسٹم نے ایسے لوگوں کو جنم دیا، جو اہل نہیں تھے، اور انہیں ان جگہوں پر لابٹھایا، جس کے وہ اہل نہیں تھے، شریک اور گولم کی طرح، ایک موٹا اور بدتہذیب، ایک بیمار دکھنے والا لیکن چالاک و عیار۔
الہ دین کے جعفر کے جیسے چالاک وزیر اپنے طوطے اور سانپ کے ساتھ اس کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کے بعد ہر شکل و صورت کے بونے قد کے لوگ، کچھ امپورٹڈ، کچھ قبضہ خور، کچھ دھیمی آوازوں والے، اور کچھ اتنے موٹے کہ اپنی ہی چربی سے صابن کی فیکٹری چلا لیں۔
کچھ خاندانوں نے تو وزیروں کے علاوہ اور کسی کو بھی جنم دینا بند کردیا۔
پچھلے زمانوں میں بادشاہوں کے آگے آگے غلام چلا کرتے تھے، جو بادشاہ کی آمد کا اعلان کرتے تھے۔ اب یہی کام سائرن اور نیلی لائٹوں والی بیسیوں گاڑیاں کرتی ہیں۔
ایسے ماحول میں عمران خان سامنے آئے۔ بوسیدہ نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ۔ وہ نہ جھکنے والے ہیں، اور نہ ہی تجربہ کار ہیں۔
لیکن وہ اقبال کے شاہین ان خصوصیات کی وجہ سے ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں۔ ان میں کچھ باتوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔
نہ ہی وہ کرپٹ ہیں، اور نہ اقربا پرور، نہ وہ جھکنے والے ہیں اور نہ ہی دھوکہ دینے والے۔ وہ عوامی معاملات میں ہر قسم کی دھوکہ دہی سے پاک ہیں۔
عمران نام کا مطلب وہی ہے جو اقبال کا ہے، یعنی بلندی۔ شاید عمران ایک سماجی ریفارمر نہ ہوں لیکن وہ سماج کو جگا دینے والے ضرور ہیں۔ انہوں نے اقبال کے پیغام کو اپنی شخصیت میں جگہ دی اور اس وعدے کو قائم رکھا جو کہ قومی شاعر نے کیا تھا۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ عزت، حقوق، اور انصاف کے لیے نہ صرف اٹھ سکتے ہیں، بلکہ انہیں اٹھنا بھی چاہیے۔
ان سب کو ساتھ لانا اور انہیں ان کی قدر و قیمت کا احساس دلانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ کام صرف انتہائی پرعزم لوگ ہی کرسکتے ہیں۔
آہستہ آہستہ شیر اپنی نیند سے جاگے۔ ان کی روحوں میں ایک بار پھر توانائی بھر گئی اور ان کا یقین بھی کامل ہوگیا۔ اب وہ وہ کرنے کے لیے پراعتماد ہیں جو کہ ان کے بڑے نہیں کرسکے۔
شیروں نے بھیڑوں کے دین کو چھوڑ دیا ہے۔ جس جادو کو ان پر چلا کر انہیں کمزور کردیا گیا تھا، وہ اب اپنا اثر چھوڑتا جارہا ہے۔ پانی کے ایک قطرے کی ایک بے قیمت وجود سے ایک بیش قیمت موتی میں تبدیلی کی جانب سفر شروع ہوگیا ہے۔
لوگوں نے اب وی آئی پی کلچر کے بت کو توڑنے کا کام اپنے سر لے لیا ہے، اور موروثی سیاست کے خاتمے کا عزم کرلیا ہے۔ دولت کی کچھ خاندانوں میں تقسیم کے خلاف اٹھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اور ترقی سے روکنے والی ان بیڑیوں کو توڑ ڈالنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
انہوں نے خود کو اس کام کے لیے کافی ثابت کردیا ہے۔
یہی پاکستان کا وہ وژن ہے جو عمران خان کی وجہ سے اب ممکن نظر آنے لگا ہے۔ یہ وہ خواب ہے، جو اب بہت زیادہ دور نہیں ہے، اور اس نے میرے ملک کے عوام کو اسے حاصل کرنے کے لیے اور بھی پرجوش بنادیا ہے۔
یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میں بھلے ہی عمران خان کا سخت ترین ناقد ہوں، لیکن میں نے پھر بھی ان کے لیے ووٹ کیا۔
اور صرف اور صرف اسی وجہ سے میں ان کے لیے ایک بار پھر ووٹ کروں گا۔
بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔