نقطہ نظر

لوگ سجدوں میں بھی

ترقی یافتہ ممالک میں موئی لوڈ شیڈنگ تو دور کی بات ہے، بجلی اتنی وافر اور سستی ہے کہ دن رات کا فرق بھی معلوم نہیں ہوتا۔

نہیں، یہ صحیح نہیں کہ سیاستدانوں نے اس ملک کو تباہ کیا۔ یہ بھی غلط ہے کہ مارشل لاؤں نے پاکستان کے لیے اندھا کنواں کھودا۔ اس میں بھی صداقت نہیں کہ بیوروکریسی اس دیس کی جڑوں میں بیٹھی اس کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ یہ بھی محض الزام ہے کہ مولویوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا۔ اس بات میں بھی وزن نہیں کہ عدلیہ ہماری تباہی کی ذمہ دار ہے۔ یہ بھی قرینِ انصاف نہیں کہ دانشوروں نے وطن عزیز کو پسماندگی کے گڑھے میں دھکیلا۔ یہ بھی خیالی تہمت ہے کہ خستہ حال ملک اور قوم جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور پیروں کی سازشوں کا شاخسانہ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان سب نے مل کر، باہم یکجا ہوکر، سیسہ پلائی دیوار بن کر، پوری تندہی کے ساتھ، مکمل اتحاد اور یگانگت سے اپنے اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ جب اتنی طاقتیں اکٹھی ہو کر ایک مشترکہ نصب العین کی خاطر اپنی مجموعی توانائی صرف کریں تو پھر ناکامی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس یہی سنگین واردات اس بد قسمت ملک اور اس کی بدقسمت قوم کے ساتھ ہوئی۔ ورنہ دنیا میں ایسے بھی معمورے ہیں کہ جو ہمارے بعد آزاد ہوئے مگر وہاں زندگی مسکراتی ہے اور خوشحالی عوام کے چہروں کی لالی سے جھلکتی ہے۔

بھرپور زندگی کی رعنائیاں، رہائش گاہوں، ریستورانوں، کلبوں اور دفتروں کے دریچوں سے جھلکتی کیا، بلکہ ہم ایسے حیا کے پتلوں کو آنکھیں مارتی ہیں۔ صفائی ان کا نصف ایمان ہو یا نہ ہو مگر ان کے گھر، گلیاں، شاہراہیں، فٹ پاتھ اور مارکیٹیں شیشے کی مثل چمکتی ہیں۔ ہماری جان کو آئی یہ موئی لوڈ شیڈنگ تو دور کی بات ہے، بجلی اتنی وافر اور سستی ہے کہ دن رات کا فرق بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ ہم نے اپنے کالم ’’نامہ غالب‘‘ میں غالب کی زبانی جنت کا خیالی نقشہ کھینچا تو امریکہ، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ سے اردو قارئین کی ای میلز موصول ہوئیں کہ عملاً یہی نقشہ ان معاشروں کا ہے۔

ہوا یہ کہ ایسے ملکوں میں انہی مذکورہ طاقتوں نے مل کر، باہم یکجا ہوکر، سیسہ پلائی دیوار بن کر، پوری تندہی کے ساتھ، مکمل اتحاد و یگانگت سے اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر ملک وقوم کی تعمیر کی۔ اپنے لوگوں کو ایک قوم میں پرویا، آبادی کو کنٹرول کیا، جمہوری روایات کو فروغ دیا، آئین اور قانون کی عملداری قائم کی، عوام کو بنیادی حقوق، شخصی آزادیوں، صحت، تعلیم، رہائش اور خالص خوراک کی سہولتیں بہم پہنچائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرتی مساوات اورعدل وانصاف کا نظام قائم کیا۔ یوں وہ روشن خیال، وسیع النظر اور کھلے دل و دماغ والے معتبر معاشرے قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

وائے حسرتا! ہمیں رانجھوں کے بہروپ میں کھیڑے ٹکرے، سعدوں کے بھیس میں چور میسر آئے، رہبروں کی شکل میں رہزنوں سے پالا پڑا، محافظوں کی صورت میں لٹیروں سے مڈ بھیڑ ہوئی، درویشوں کے بہروپ میں حریص بھیڑیئے ہم پہ پل پڑے اور دانشوروں اور علماء کے روپ میں جہلاء نے ہماری تربیت کا ٹھیکہ لے لیا۔ اغیار خوشبو کو موبائل فون اور ای میل کے ذریعے ٹرانسفر کرنے پر بھی قادر ہو گئے، یہاں پولیوزدہ سوچ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کی بحث سے آگے نہ گئی۔ وہ شخصی آزادیوں کی معراج پر ہیں، یہاں ایمر جنسیوں اورحدود آرڈینینسوں کے تازیانے ہیں مگر بنیادی حقوق نہ انصاف۔ اُدھر اگلی دنیاؤں میں جانے کے لیے پر تولے جا رہے ہیں، اِدھر ہر مینڈک اپنے کنوئیں کو کل کائنات سمجھ کر ٹرا رہا ہے۔

کہاں جدید علوم، احترام انسانیت اور انصاف کو اپنے اثاثے سمجھنے والے اور کہاں جہالت، سطحیت، دقیانوسیت، سفاکیت، ریلیوں، دھرنوں، جلوسوں اور لاؤڈ سپیکر کے بہیمانہ شور کو اپنا طرۂ امتیاز سمجھ کر اکڑنے والے۔

پاک فوج ملکی تاریخ کی سب سے اہم اور نازک جنگ لڑ رہی ہے۔ اس وقت تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں، دانشوروں اور میڈیا کو یکجا ہوکر خود بھی فوج کے ساتھ کھڑا ہونے اور قوم میں بھی یہی جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، مگر بے حسی دیکھیے کہ پچاس ہزار سے زائد بے گناہ شہری و فوجی شہید کروا کر بھی غازیان اسلام کے دلوں میں فوج کے بجائے دہشت گردوں کے لیے تڑپ ہے۔

کوئی عمران خان صاحب سے پوچھے کہ خاک و خون میں نہائی لوڈ شیڈنگ سے بلکتی قوم کے مسائل کیا یہ ہیں کہ پچھلے سال انتخابات میں دھاندلی کس نے کی اور نواز شریف سے تقریر کس نے کروائی؟ ہمارے چارہ گروں نے باہم مل کر آبادی اور ناخواندگی کے فروغ میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں کہ کوئی غیر ملکی شیخ الاسلام جب چاہے یہاں آ کر اپنے بے چہرہ اور مبہم انقلاب کی خاطر ہمارا امن و امان تباہ کر سکتا ہے۔

تبدیلی اور انقلاب کی آتش شوق بھڑک رہی ہے مگر رستے کا علم نہ منزل کی خبر۔ حکمرانوں کے بھاشن ملاحظہ کیجیے، یہ ہمیشہ رمضان المبارک آنے پر فرماتے ہیں کہ اس ماہ میں لوڈ شیڈنگ کم ہوگی اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں اور معیار پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ گویا باقی گیارہ مہینے یہاں انسان نہیں بستے لہذا انہیں بجلی کی ضرورت ہے نہ خالص چیزوں اور ان کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی۔

ہم حرماں نصیب قوم کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ جسے سارے ٹھگوں اور ڈبل شاہوں نے باہمی اتحاد کر کے لوٹا۔ تف ہے اس سوچ اور کردار پر کہ اکیسویں صدی کے سیٹلائٹ عہد میں بھی اس ملک کا بچہ بچہ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ سے براہِ راست متاثر ہے مگر دو نمبریوں کا کوئی اتحاد عوام کے اس اہم ترین مسئلے پر اٹھنے کو تیار نہیں۔ الٹا بے شرمی سے کوئی انہیں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج پر اکسا رہا ہے، کوئی نام نہاد انقلاب کے نام پر انہیں تخریبی دھرنوں کے لیے راغب کر رہا ہے، کوئی میٹرو بس جیسے منصوبوں پر ان کا پیسہ اڑا رہا ہے، کوئی انہیں فحاشی سے ڈرا رہا ہے، کوئی جہنم کی بشارت کے فتوے سنا رہا ہے اور کوئی ہم وطن انہیں ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش مہنگے داموں فروخت کر کے ناجائز منافع خوری کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ کیا حسب حال شعر ہے کہ :

میرا اس شہرِ عداوت میں بسیرا ہے جہاں

لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں

وقار خان

لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔