'شیطانی نظام' کا ڈھانچہ: اصل کرپٹ کون ہے؟
اپنے پچھلے مضمون میں میں نے اس مفروضے، کہ 'جاگیردار تمام خرابیوں کی جڑ ہیں' کو بکھیرنے پر توجہ دی تھی، اور اس کے لیے میں نے چند زمینی حقائق پیش کرکے بتایا تھا کہ ملک کی حقیقی 'اشرافیہ' کس طرح نظام کا استحصال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کررہی ہے۔
یہ مضمون اس بارے میں زیادہ وضاحت پیش کرتا ہے کہ کس طرح اشرافیہ نظام میں رہ کر کام کرتی ہے اور نظام حقیقت میں دیکھنے میں کیسا ہے۔
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ پاکستان میں دو طرح کی حکومتیں یعنی فوجی اور سویلین رہی ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
درحقیقت فوج اور سیاست اس پوری کارروائی کے چہرے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ آزادی کے بعد سے پاکستان میں ہمیشہ حکومت کے دو ہی چہرے رہے ہیں، مگر پردے کے پیچھے کارروائی صرف ایک ہی رہی ہے، اور اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ حکومت کس طرح کام کرتی ہے۔
حکومت تین مستقل اور ایک تبدیل ہوتے حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔ تبدیل ہونے والے حصہ حکومتی چہرہ، یعنی سیاستدان ہوتے ہیں، جبکہ مستقل حصے بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ پر مشتمل ہیں۔
بیوروکریسی
بیوروکریسی حکومت کا سب سے اہم اور سب سے بااثر بازو ہوتی ہے۔ چونکہ یہ پسِ پردہ کام کرتی ہے، اس لیے یہ غلطیوں کے الزامات سے بچ جاتی ہے جبکہ کامیابیوں کا سہرہ ضرور اس کے سر سج جاتا ہے۔ حکومتی پروگرامز پر عملدرآمد کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے یہ عوام کے تصور سے بھی زیادہ بااثر ہوتی ہے۔ بیوروکریسی ہی عوامی ریلیف پروگرامز کی منصوبہ بندی کرتی ہے، اور سیاستدانوں کے سامنے رکھتی ہے، جو اس کو منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
بیوروکریٹس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کے ماہرین ہوں گے، مگر یہ حقیقت نہیں۔ ڈی ایم جی (ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ) کے بیوروکریسی کے تمام شعبوں پر بڑھتے ہوئے کنٹرول نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ کام میں مہارت نہ رکھنے والے بیوروکریٹس ضرورت سے زیادہ بااثر ہوگئے ہیں، مگر چونکہ وہ پس منظر میں کام کرتے ہیں اس لیے کوئی بھی اس مسئلے پر آواز نہیں اٹھاتا۔ اس کے علاوہ چونکہ انہیں ملازمتوں سے برطرف نہیں کیا جاسکتا اس لیے وہ حکومت کے کسی اور حصے کے مقابلے میں چیلنجز کا سامنا کیے بغیر اپنا تحفظ کرلیتے ہیں۔
بیوروکریٹس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ برا اتنا ہوسکتا ہے کہ انہیں معطل کردیا جائے یا او ایس ڈی بنادیا جائے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ بیوروکریسی ایک ادارہ جاتی یادداشت رکھتی ہے اور وہ جانتی ہے کہ پاکستان میں کس طرح کام کیا جانا چاہیے۔ اس لیے انہیں آسانی سے نظرانداز یا تنہا نہیں کیا جاسکتا، اور یہی وجہ ہے کہ سول سروس میں اصلاحات کی تمام تر کوششیں شروع ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔
عدلیہ
عدلیہ نے اپنی موجودہ اہمیت حال ہی میں حاصل کی ہے، اور اس کا کریڈٹ وکلاء تحریک کو جاتا ہے۔ عدلیہ بھی اپنے آپریشنز کے اعتبار سے بیوروکریٹک ہے مگر بیوروکریسی سے موازنہ کیا جائے تو یہ اپنے کام کے دوران عوام سے زیادہ تعلق میں رہتی ہے، کیونکہ یہ انصاف پہنچانے والا ادارہ ہے۔
فوج
حکومت کے دیگر دو مستقل بازوﺅں کے مقابلے میں فوج کو بہت زیادہ عوامی توجہ حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یہ پاکستان میں گورننس کا چہرہ بھی ہے۔ فوج اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے، جبکہ قومی سیکیورٹی مفادات کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ نظام میں موجود بڑے مفادات برقرار رہیں۔
'سسٹم' کا صرف پچیس فیصد حصہ سیاستدانوں پر مشتمل ہے
سیاستدان حکومت کے تمام بازوﺅں میں سب سے زیادہ عوام کے سامنے ہوتے ہیں۔ ان کی پوزیشن کا انحصار ہی عوامی ووٹوں پر ہوتا ہے مگر یہ سب سے کم مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں اور ان کو تین مستقل حصوں کی ناکامیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑتی ہے۔
اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو عوام حکومت کا صرف پچیس فیصد حصہ ہی چنتے ہیں اور یہ پچیس فیصد حصہ ہی دیگر 75 فیصد حصے کے کاموں کا ذمہ دار ہوتا ہے جو براہِ راست الزامات سے محفوظ رہتے ہیں۔
پورے نظام کے اس ڈیزائن کی وجہ سے اشرافیہ اس کھیل کے اصولوں کو وضع کرتے ہیں، یعنی یہ کہ نظام کے کسی حصے کا ان کے مخصوص مفادات کے خلاف جانا کس حد تک برداشت کیا جائے گا۔ تو جب نظام تھم جائے یا داخلی تنازع کے باعث مشکلات کا شکار ہو تو درحقیقت اس وقت اشرافیہ کے مختلف گروپس کے درمیان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جنگ چھڑی ہوئی ہوتی ہے۔
اور جس لمحے وہ اپنے تنازعات کا حل نکال لیں، اسی وقت اداروں میں تصادم بھی تھم جاتا ہے۔
بدقسمتی سے اشرافیہ کی آپسی جنگ سول اور فوجی قیادت کے ذریعے تکنیکی تنازعات کے بھیس میں لڑی جاتی ہے، جبکہ اس سب کے دوران حقیقی مسائل کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
|
حکومت کا اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اشرافیہ کو مطمئن کرنا لازمی ہے
عام فرد تصور کرتا ہے کہ حکومت خدمات ڈیلیور کرنے والا ادارہ ہے۔ تاہم سماجی انصاف اور مساوات کی عدم موجودگی کی وجہ سے حکومت کا خدمات ڈیلیور کرنے کا مکمل مرحلہ اپنے مرکزی حلقہ انتخاب، یعنی اشرافیہ کو خوش کرنے کی جانب مڑ جاتا ہے، تاکہ اپنا وجود برقرار رکھا جاسکے۔
یہ جاننا چاہیے کہ ہمارا نظام ایسا ہے، جس میں اقتدار میں موجود کسی بھی شخصیت کا مرکزی حلقہ انتخاب عام عوام نہیں ہوتے۔ اور عوامی اشتعال حکومت کے صرف پچیس فیصد حصے پر ہی اثرانداز ہوتا ہے، جبکہ نظام کے مستقل حصے اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں چاہے چہرہ کوئی بھی ہو۔
یہ سمجھنا ناگزیر ہے کہ اس منظرنامے میں ہر اسٹیک ہولڈر کے لیے بے ایمان ہونے کی اپنی وجوہات و محرکات موجود ہیں۔
سیاستدانوں کی توجہ کا مرکز اشرافیہ کو مطمئن کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی جمہوری مدت اقتدار کو پورا کرسکیں، جس کے باعث وہ اگلے انتخابات میں کم عوامی حمایت حاصل کرپاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے پاس کرپشن کرنے کے راستے کم بچتے ہیں، کیونکہ اس کے بدلے میں سزا بھی کافی بڑی ہوتی ہے یعنی انہیں ووٹ نہیں ملتے۔
عدلیہ سب سے کمزور بازو ہے اور یہ ابھی بھی خود کو حاصل شدہ محرکات کو جانچنے کے مرحلے میں ہے۔
دوسری جانب بیوروکریسی وہ ادارہ ہے جس کے پاس بددیانت اور کرپٹ ہونے کے لیے سب سے زیادہ وجوہات ہیں، کیونکہ وہ سزا سے تقریباً محفوظ ہوتے ہیں۔
بھائی یہ بیوروکریسی ہی تو ہے
تو اس وقت جب نظام سب سے زیادہ کرپٹ (بیوروکریسی) کو بغیر سزا کے چھوڑ دیتا ہے، تو یہ حکومت کے اس حصے (سیاستدانوں) کو کم بددیانت ہونے پر بھی سخت سزا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ اسے ایسا بنایا گیا ہے، کہ یہ کچھ حلقوں کے مفادات کا تحفظ کرے۔
بدقسمتی سے ہمارے عام افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حکومت کا ایک خاص طبقہ (25 فیصد) تمام تر ناکامیوں اور خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔ اس توہین میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب جمہوری حکومتوں کو بیوروکریٹس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ سیاستدانوں کی افادیت اور کارکردگی کا فیصلہ کریں۔
کیا آپ کسی گروپ کا لیول یہاں دیکھ سکتے ہیں؟
اس مضمون کا مقصد حقائق کی مایوسی کن تصویر پیش کرنا نہیں تھا جسے ہم دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس کے بجائے یہ مضمون اس چیز کی وضاحت کرنے کی کوشش تھا کہ حقیقت میں حکومت کس طرح کام کرتی ہے اور کس طرح عام افراد یہ جانے بغیر استعمال ہوتے ہیں کہ کون غلطیوں کا حقیقی ذمہ دار ہے۔
جیسا میں نے اپنے آخری مضمون میں کہا تھا کہ سماجی انصاف اور مساوات وہ اصلاحات ہیں جن کو شروع کیے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ کم از کم حکومت کے تمام شعبوں کو سزائیں تو یکساں بنیاد پر دی جاسکیں۔
لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔