نقطہ نظر

سیلابوں کے عادی لوگ

کیا ہمیشہ شہروں کو بچانے کے لیے سیلابی پانی دیہاتوں پر چھوڑا جاتا رہے گا؟ کیا دیہاتی ہونا جرم ہے یا وہ انسان نہیں؟

حالیہ سیلاب نے پاکستان کی تاریخ میں سیلابوں سے ہونے والی تباہی کی داستانوں میں ایک اور کا اضافہ کیا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور کب تک سیلاب اپنا سابقہ ریکارڈ بہتر کرتے رہیں گے یہ بتانے کی زحمت نہ تو آج تک کسی حکومتی ذمہ دار نے کی ہے اور نہ آئندہ آنے والے شاید کر سکیں۔

ہمارے ہاں یہ روایت جڑ پکڑ چکی ہے کہ کسی بھی قسم کے حادثے جو متوقع ہوں کی منصوبہ بندی کبھی نہیں کی جاتی اور جب یہ رونما ہو جائے تو رٹے رٹائے جملوں اور طفل تسلیوں سے اس موقعے کو گزارنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی’’ڈنگ ٹپاؤ پالیسی‘‘ کی اصطلاح جو اب باقاعدہ پاکستانی لغت میں شامل ہو چکی ہے اور ایسے ہی موقعوں کے لیے مخصوص ہے۔

یوں تو حالیہ سیلاب نے چند اضلاع کو چھوڑ کر پنجاب میں مکمل اور سندھ میں جزوی تباہی پھیلائی ہے مگر دو بڑے دریاؤں سندھ اورچناب میں ایک تنگ U کی شکل میں گھرے پسماندہ ضلع مظفر گڑھ کو اس نے شدید متاثر کیا ہے۔ مظفر گڑھ جو سطح سمندر سے محض 394 فٹ بلند اور تجارتی حوالے سے پاکستان کے وسط میں واقع ایک اہم گزرگاہ ہے، کو سیلاب نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔

یہ 8249 مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ پنجاب کے چند بڑے اضلاع میں شامل ہے اور یہاں تقریباً تیس لاکھ کے قریب افراد بستے ہیں۔ اسے تقریباً 180 سال قبل ملتان کے حاکم نواب مظفر خان نے آباد کیا تھا جو بعد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ سے لڑائی میں جاں بحق ہوئے اور یہ شہر رنجیت سنگھ کے پاس چلا گیا اور بعد میں انگریزوں اور پھر پاکستان کے حصے میں آ گیا۔


پڑھیے: سیلاب: منصوبہ بندی کا پیسہ کہاں گیا؟


نواب مظفر خان کو تو یہ ہرگز علم نہ ہوگا کہ ان کا آباد کردہ یہ شہر پاکستانی سیاست دانوں کے ہتھے چڑھے گا اور وہ اسے اس کی تاریخی حالت میں ہی قائم رکھیں گے۔ شہر کو دیکھ کر اس کی پسماندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو وسعت میں تو بڑا ہے مگر ترقی نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ شہری آبادی لاکھوں میں ہونے کے باوجود یہاں یونیورسٹی تک نہیں ہے۔ شاید اسے محض ملتان کا پڑوسی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے جو یہاں سے صرف 35کلومیٹر دور ہے اور لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے بھی وہاں جانے پر مجبور ہیں۔

شہر سے دیہات کی طرف آئیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ صدیوں سے جاگیردارانہ نظام کے سائے میں رہنے والے لوگوں کی پسماندگی آنکھوں سے دیکھنا آسان کام نہیں ہے۔ مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان، غلام مصطفی کھر، حنا ربانی کھر، امجد دستی، قیوم جتوئی اور اب جمشید دستی اس شہر کی خاص سیاسی سوغات ہیں جن کو نہ تو کبھی ماضی میں اور نہ حال میں اپنے قیمتی سن گلاسز سے اس علاقے کی غربت و پسماندگی نظر آتی ہے۔

سردار کوڑے خان جنہوں نے ماضی بعید میں یہاں ترقیاتی کام کرائے تھے ان کا یہ شہر آج بھی معترف ہے۔ علاقے کے باسیوں نے تمام سیاسی جماعتوں کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا مگر حالات جوں کے توں رہے ہیں۔ شہر کا پرانا نام ’’موسنڑ دی ہٹی‘‘ تھا جو آج بھی موسنڑ کی ہٹی ہی ہے۔ ترقی کرکے شاپنگ مال نہ بن سکا۔ مظفر گڑھ کی دیگر تین تحصیلیں علی پور، کوٹ ادو اور جتوئی بھی پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مظفر گڑھ کی سرحدیں شاید پاکستان میں ایک ہی صوبے کے سب سے زیادہ اضلاع یعنی جھنگ، خانیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور لیہ سے ملتی ہیں۔ دریائے چناب اور دریائے سندھ نے اسے تین اطراف سے مکمل گھیر رکھا ہے اور پانچ دریاؤں کا سنگم پنجند ہیڈ ورکس بھی اسی ضلع میں ہوتا ہے۔

سیلاب یہاں تقریباً ہر سال تباہی لاتے ہیں اور خصوصاً دو شہروں یعنی ملتان اور مظفر گڑھ کو کاٹ دیتے ہیں۔ اس بار پنجاب میں سیلاب سے تقریباً بیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ کا تعلق ادھر سے ہی ہے۔ ملتان-مظفر گڑھ روڈ پر سفر کریں تو درمیان میں آباد جھگیوں کا ایک شہر نظر آتا ہے۔ یہ وہ دیہاتی ہیں جنہیں ملتان اور مظفر گڑھ کے شہروں کو بچانے کے لیے قربانی کے طور پر کھلے آسمان تلے لا پھینکا گیا ہے۔ وہ اپنی پیٹیاں، چارپائیاں، چارہ کاٹنے کی مشینیں اور ڈھور ڈنگروں کے ساتھ سڑک پر بیٹھے خادم اعلیٰ کا منہ چڑا رہے ہیں، جن کا ارشاد ہے کہ سیلابی پانی خشک ہونے سے قبل انہیں امداد دے دی جائے گی۔


مزید پڑھیے: حکومت سیلاب سے تحفط کے لیے منصوبے بنانے میں ناکام


شاید وزیراعلیٰ کو معلوم ہے کہ تین سے پانچ فٹ کھڑا پانی جس کی نکاسی ممکن نہ ہو سردیوں میں خشک ہونے کا نام نہیں لیتا اور اس کالے پانی سے اٹھنے والا تعفن بدبو اور مچھر ناقابل برداشت اذیت دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ اگر کوشش کریں تو ایک رات مظفر گڑھ ملتان روڈ پر ہی گزار لیں، اندرونی علاقوں میں شاید ان کی طبع نازک رات پوری نہ کر سکے۔ اس سے انہیں لوگوں کے کرب کا صحیح اندازہ ہو سکے گا۔

دو آبہ، چک مٹھن، بستی تراپ والا، چک روہاڑی، بھٹہ پور، ٹھٹہ قریشی، چک چھچھڑا، ٹنڈی اور چاہ میر احمد والا مظفر گڑھ کے مضافات میں واقع وہ بستیاں ہیں جن کا یقیناً ہمارے حکمرانوں نے نام بھی کبھی نہیں سنا ہوگا، مگر ان میں آباد لوگ محمد فاروق، نسیم بی بی، ظفر اقبال، محمد اعجاز، ارشاد بی بی، حاجی اسماعیل، محمد خالد، ظفر حسین، ظفر گوندل اور عاشق حسین کا بھی پاکستان پر اتنا ہی حق ہے جتنا مریم نواز، بلاول بھٹو، بختاور، آصفہ، حمزہ شہباز شریف اور دیگر اسی کلاس کا ہے۔

کیا سیلاب سے ہمیشہ انہی غریبوں نے متاثر ہونا ہے؟ کیا ان کے نصیب میں میڈیا کے ذریعے محض طفل تسلیاں ہی ہیں؟ کیا دیہاتی ہونا ان کا جرم ہے؟ کیا ہمیشہ ہی شہروں کو بچانے کے لیے سیلابی پانی دیہاتوں پر چھوڑا جاتا رہے گا؟ ان کی آنکھوں میں موجود کرب، بھوک اور افلاس کا اندازہ روزانہ لاکھوں کا پیٹرول پی جانے والے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ انہیں امداد ڈی سی او اور دیگر انتظامیہ کے ذریعے نہ دی جائے کہ وہ منظور نظر قبیلوں کو دینے اور امداد ڈکار جانے کا کام کرتے ہیں، حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے۔

کیا کبھی حکمرانوں کے بچے بھوک سے بلبلائے ہیں یا پھر انہوں نے بیس بیس دن بجلی کے بغیر مچھروں، تعفن، گرمی اور رینگتے کیڑوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے گزارے ہیں؟ ان کے جانور سرکاری ونڈہ کا انتظار کرتے کرتے مر گئے مگر سوائے صبر کے کچھ نہ کیا جا سکا۔ حکمرانوں نے 1992ء میں اس علاقہ کو ’’فلڈ ایریا‘‘ قرارتو دے دیا مگر آج تک ڈیم بنانے یا کوئی عملی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش نہ کی گئی بلکہ ان لوگوں کے سیلاب کا عادی ہونے کا تاثر دیا گیا۔

کیا اسلام اور پاکستان کے آئین میں یہی لکھا ہے؟ یہ لوگ وعدوں کے ایفاء ہونے کے منتظر ہیں اور انہیں یہ یقین بھی نہیں چھوڑتا کہ یہ وعدے کبھی پورے ہو سکیں گے لیکن وہ پھر بھی اس امید پہ جیے جا رہے ہیں بس جیے جا رہے ہیں۔

علی خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔