بلوچستان کے سلگتے مسائل اور عسکریت پسندی
بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اب تک سینکڑوں معصوم اور بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ ہمیشہ سے وفاقی حکومت کے ناروا سلوک اور نامناسب انداز حکمرانی سے ناراض بلوچ اپنے جائز حقوق سےآج بھی محروم نظر آتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاکر قوم پرست ایک عام بلوچ نوجوان کو عسکریت پسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
بلوچستان کے بدعنوان سیاستدانوں، جابر اور اخلاقی طور پر تباہ سرداری نظام، ناجائز پیسے کمانے کے شوقین نااہل سرکاری افسران نے بھی بلوچستان کے قابل اور ترقی کے خواہشمند بلوچ نوجوانوں کو بہت مایوس کیا ہے اور وہ کوئی راستہ نہ پا کر اپنے آپ کو دیوار سے لگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ بلوچوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رویے پر بھی سخت تحفظات اور شکایات ہیں۔
قوم پرست ایف سی اور ایجنسیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ آئے روز مسخ شدہ لاشیں ملنے والے واقعات اور لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کی ذمہ دار ہیں۔ جہاں علیحدگی پسندوں کی گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں معمول ہیں وہیں پر پنجابی آبادگاروں کے قتلِ عام کے واقعات مسلسل تواتر کے ساتھ پیش آتے رھتے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا بھی اب کوئی غیرمعمولی بات نہیں رہی۔
شیعہ برادری بالخصوص ہزارہ کمیونٹی بدترین فرقہ وارانہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ لشکرجھنگوی کے دہشتگردوں کے ہاتھوں آئے روز ہونے والے خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ جہاں فرقہ وارانہ دہشت گردی اپنی پوری قوت سے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، وہیں پر طالبان اور دیگر مذہبی اور جہادی جماعتوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں جنم لینے والی عسکریت پسندی بھی بلوچستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ قبائلی جھگڑے تو ازل سے اس سرزمین کا مقدر رہے ہیں۔
بلوچستان کو اس وقت مختلف قسم کی دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی پرتشدد کارروائیاں، فرقہ وارانہ قتل و غارتگری، ، طالبان اور دیگر مذہبی انتہا پسندوں کی بڑھتی قوت اور آپس کی قبائلی دشمنیاں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خون ریز تصادم شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں مذہبی جنونیت میں اضافہ ہوا ہے اور داعش یا کسی اور عسکری گروہ کی بلوچستان میں موجودگی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی پرتشدد کاروائیاں
اس وقت بلوچستان کا سب سے سنگین مسئلہ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی پرتشدد کارروائیاں ہیں جس میں پولیس، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بم دھماکوں خصوصآ روڈ سائیڈ آئی ای ڈیز کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ صوبے کے بلوچ اکثریت والے علاقوں میں دہشتگردی کی کارروائیاں عروج پر ہیں۔ پنجابی آبادگار اور دوسرے صوبوں سے کام کاج اور محنت مزدوری کی غرض سے آنے والے غیر بلوچ قومیت کے لوگ روزانہ کی بنیاد پر دہشتگردی کا شکار ہو کر مارے جارہے ہیں۔
کئی نسلوں سے بلوچستان میں آباد پنجابی اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، سرکاری افسران اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ چن چن کر قتل کیے جا رہے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں روزانہ اوسطاً ایک سے دو چھوٹے یا بڑے بم دھماکے متواتر ہو رہے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس وسائل تھے وہ بلوچستان سے دوسرے صوبوں کو نقل مکانی کرچکے ہیں یا کررہے ہیں اور جن کے پاس وسائل نہیں وہ خوف کا شکار ہیں۔
یوں تو ایک طویل عرصے سے بلوچستان میں قوم پرستوں کی پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں لیکن 26 اگست 2006 کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد سے تو جیسے علیحدگی پسندوں میں ایک نئی قوت آگئی ہو۔ بلوچستان کے بلوچ اکثریت والے علاقوں میں علیحدگی پسند تنظیموں بی ایل اے، بی آر اے اور لشکر بلوچستان کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کا نام لینا جرم قرار دے دیا۔ اسکولوں میں قومی ترانے کی سختی سے ممانعت کردی گئی، پے در پے پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے قتلِ عام کے لاتعداد واقعات رپورٹ ہوئے۔
پاکستان بلوچستان میں دہشتگردی کا ذمہ دار اپنے حریف پڑوسی ملک انڈیا کو قرار دیتا ہے جبکہ انسداد دہشتگردی کے ماہرین بلوچستان کی بدامنی میں انڈیا کے ساتھ ساتھ افغانستان اور ایران کو بھی ملوث سمجھتے ہیں۔ انڈیا نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بالاچ مری، حربیار مری اور براہمداغ بگٹی جیسے باغی سرداروں کو اپنے تربیتی مراکز قئم کرنے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ بلوچستان میں بھی فراری کیمپ کے لیے فنڈنگ کی جہاں نہ صرف بلوچ علیحدگی پسند تنظیوں کے کارکن بلکہ سندھی قوم پرست تنظیم جئے سندھ کے شفیع برفت گروپ کے عسکریت پسند بھی بم دھماکوں اور ریلوے ٹریک اڑانے کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔
انڈیا تو خیر ہمیشہ سے پاکستان کو کسی نہ کسی طریقے سے نقصان پہنچانے کے چکر میں رہتا ہی ہے اسی طرح افغانستان بھی پاکستان سے ناراض ہے اور اپنے ملک میں پاکستانی مداخلت کی شکایت کرتا نظر آتا ہے جبکہ پاکستانی ایجنسیوں پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی مدد کررہی ہیں۔
ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چاہ بہار کے علاقے میں اس کی جو بندرگاہ ہے اس پر بے پناہ لاگت آچکی ہے۔ ہرات اور چاہ بہار کے درمیان کثیر لاگت سے ایک سڑک بھی بنائی گئی ہے جو کہ ایرانی سرمائے سے تعمیر ہوئی ہے اور گوادر بندرگاہ کی وجہ سے چاہ بہار بندرگاہ کا کامیاب ہونا بھی مشکل ہی نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران جنداللہ نامی سنی عسکریت پسند تنظیم کی ایران مخالف کارروائیوں کے پیچھے بھی پاکستان کو ہی ذمہ دار قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کی بدامنی میں درپردہ ایران کا نام بھی لیا جاتا ہے۔
علیحدگی پسند گروپوں کے رہنماؤں میں تین رہنماء بلوچستان میں بہت اثرورسوخ کے حامل تصور کیے جاتے ہیں اور کھلم کھلا اپنے اور دوسرے ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعلق کا اقرار بھی کرتے ہیں۔
براہمداغ بگٹی سوئٹزرلینڈ سے بلوچ ریپبلیکن آرمی کو کنٹرول کرہا ہے اور اس کا گروپ گیس پائپ لائینز تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ بم دھماکوں اور قتل عام کی لاتعداد وارداتوں میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان سے فرار ہوکر کابل اور پھر سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد بھی براہمداغ بگٹی کا کنٹرول اپنے گروپ پر ابھی تک قئم ہے۔
بالاچ مری کے مارے جانے کے بعد حربیار مری لندن سے بیٹھ کربلوچستان میں بم دھماکے اور فورسز پر حملوں کے علاوہ پنجابی آبادگاروں کے اجتماعی قتل کی وارداتوں کا ہدایتکار قراردیا جاتا ہے۔ اسی طرح لشکر بلوچستان کی قیادت جاوید مینگل کر رہا ہے اور یہ بھی لندن سے ہی اس گروپ کی کمانڈ کررہاہے۔ اس گروپ کے ذمہ بھی دہشتگردی کی لاتعداد کارروائیاں قرار دی جاتی ہیں۔
یہ تین اہم بلوچ علیحدگی پسند گروپ ہیں جو بلوچستان کی بلوچ اکثریت والے علاقوں میں ہر قسم کی دہشتگردی میں ملوث قرار دیے جاتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی اور چھوٹے گروپس بھی سرگرم ہیں۔ جہاں یہ علیحدگی پسند گروپ پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں وہیں پر میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں اور اپنی پروپیگنڈہ ویڈیوز کے زریعے عام بلوچ نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کررہے ہیں۔ ان گروپوں کو انڈیا سے فنڈنگ کی مد میں کروڑوں روپے ملتے ہیں جبکہ بھتہ خوری اور تاوان کی رقم سے بھی یہ گروپ اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔
ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قوم پرستوں کی جانب سے مسخ شدہ لاشوں کے تحفے اور جبری گمشدگی کے واقعات میں ملوث ہونے کے جو الزامات عائد کیے جاتے ہیں اس سے بھی بلوچ نوجوانوں کے حکومت کے خلاف ذہن بنائے جاتے ہیں۔ ہر دو طرفہ کارروائیوں میں عام بلوچ ہی عدم تحفظ کا شکار نظر آتا ہے۔
پھر ایک اور شکایت بھی بہت عام ہے۔ علیحدگی پسندوں کو کاؤنٹر کرنے کی غرض سے پرائیوٹ آرمی کی طرز پر حکومتی حمایت یافتہ سردار بھی سرگرم ہیں جن کے لیے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے اور وہ ایجنسیوں کی مدد کے نام پر چور ڈاکو اور سنگین جرائم میں مطلوب افراد کی فوج رکھتے ہیں اوراسلحہ، منشیات اور ہر قسم کی اسمگلنگ، تیل چوری، نیٹو کینٹینرز لوٹنے، اغوا برائے تاوان اور اپنے مخالفین کے قتل عام تک میں ملوث ہیں۔ ان مفادپرست اور جرائم پیشہ عناصر نے علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے نام پر پورے بلوچستان میں اندھیر نگری مچائی ہوئی ہے اور ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام کررہے ہیں۔
فرقہ وارانہ جنونیت
سوویت یونین کے انخلاء کے بعد بلوچ معاشرہ سخت مذہبی جنونیت کا شکار ہوا اور چھوٹے چھوٹے مدرسے جہاں بچے مذہبی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے، افغان جہاد کے نتیجے میں بڑے بڑے ریکروٹمنٹ سینٹرز میں تبدیل ہوچکے تھے۔ بلوچستان کا پشتون بیلٹ افغان کمانڈرز کے لیے دوسرے گھر کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ قندھار اور کوئٹہ کے درمیان فرق مٹ چکا تھا۔ کوئٹہ دنیا بھر کے جہادی کمانڈرز کے لیے بیس بن چکا تھا۔ اب جس نے بھی افغانستان جانا ہوتا تھا کوئٹہ سے ہوکر جاتا تھا۔
تمام جہادی اور مذہبی جماعتیں افغان جہاد کے لیے رضاکار بھرتی کے دفاتر کھول کر ثواب ِدارین حاصل کررہی تھیں۔ پاکستان بھر سے مدرسوں کے طلباء عسکری تربیت اور جہاد کی غرض سے کوئٹہ کے راستے افغانستان کا رخ کررہے تھے۔ دنیا کے کونے کونے سے مجاہدین دھڑا دھڑ آرہے تھے۔ عرب مجاہدین کے علاوہ افریقی اور روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے جہادی گروپس کے لیے بھی افغانستان بالخصوص کوئٹہ بہت اہمیت اختیار کرچکا تھا۔
جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو مقامی لوگ کیسے ان سب کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مقامی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی جہاد میں حصہ لینے کی غرض سےافغانستان آتی جاتی رہی جبکہ اس حقیقت سے کبھی بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے مذہبی جماعتیں اپنا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔
ضیاءالحق دور میں پنپنے والے عسکری گروپس اب اتنےطاقتور ہو چکے ہیں کہ ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سامنے بلوچ علیحدگی پسندوں کی کارروائیاں بھی ماند نظرآتی ہیں۔ لشکرجھنگوی نے کوئٹہ سے مستونگ اور ڈیرہ مراد جمالی تک ہرجگہ تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بسوں سے شیعہ زائرین کو اتار کر چن چن کر قتل کرنا، خودکش حملوں کے ذریعے ایک ہی وقت میں سینکڑوں لوگوں کو خون میں نہلا دینا، دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کام کرنے والے پولیس افسران کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا، یہ سب لشکرجھنگوی نے میڈیا میں آکر دھڑلے سے قبول بھی کیا ہے۔
لشکرجھنگوی کے امیر عثمان کرد کی دہشت کا عالم یہ ہے کہ سی آئی ڈی کوئٹہ کے ایس پی کو مارنے کے بعد اب کوئی بھی پولیس آفیسر اس کو پکڑنے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
اہم حکومتی شخصیات سے لاکھوں روپیہ بھتے کی شکل میں وصول کرنا لشکرجھنگوی کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ گذشتہ اور موجودہ بلوچستان حکومت کے بہت سے وزراء اور دیگر اہم شخصیات کو خودکش حملوں میں نشانہ بنانے کی دھمکی دے کر اب تک لشکرجھنگوی کروڑوں روپیہ کما چکی ہے اورلشکرجھنگوی کا بلوچستان چیپٹر تمام چیپٹرز سے زیادہ فنڈز اور وسائل کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل لشکرجھنگوی کے آصف چھوٹو نے بلوچستان کی ایک اہم شخصیت سے جب بھتے کا مطالبہ کیا تو وہ اہم شخصیت اسلام آباد جا کر پناہ گزین ہوگئی اور جب تک مختلف لوگوں کو درمیان میں لا کر اپنی جان نہیں چھڑوالی تب تک اسلام آباد سے ہی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔
بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں فرقہ وارانہ دہشتگردی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ بلوچ قوم پرست اس سلسلے میں ایجنسیوں کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ قوم پرستوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کو جان بوجھ کر فروغ دیا جارہا ہے اور بلوچستان میں شیعہ سنی تفریق پیدا کرنے کی غرض سے فرقہ وارانہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔
طالبان کی بڑھتی ھوئی قوت
بلوچستان کے پشتون علاقوں کے بارے میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں ہمیشہ سے یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ افغان طالبان کی شوریٰ ان ہی علاقوں میں موجود ہے بلکہ ملاّ عمر کے بارے میں بھی شبہ کیا جاتا ہے کہ کوئٹہ یا اس کے آس پاس کے علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔ کوئٹہ کو افغان جہاد سے لے کر آج تک افغانستان جانے والے جہادیوں نے راہداری کے طور پر استعمال کیا ہے۔ افغان طالبان کی چھتری تلے کام کرنے والی تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک گروپوں نے کوئٹہ میں جب بھی ضرورت محسوس کی اپنی قوت کا مظاھرہ کرتے ہوئے خوفناک حملے کیے ہیں۔
اگست 2013 کو ایک خونی خودکش حملے کے ذریعہ پولیس لائنز کوئٹہ میں ڈی آئی جی فیاض سمبل سمیت 30 پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے طالبان نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ مئی 2011 میں خروٹ آباد چیک پوسٹ پر ایف سی اور پولیس کے ہاتھوں روسی اور تاجک مجاہدین اپنی عورتوں کے ساتھ مارے گئے جس کے رعمل میں صرف چار ماہ بعد ہی دو خودکش حملوں میں ایف سی کے کرنل، ایف سی کے بریگیڈئیر کی اہلیہ سمیت 28 افراد کو لقمہء اجل بنایا۔ اس کے بعد پھر کبھی کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ طالبان یا اس سے منسلک گروپوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرسکے۔
طالبان کے مضبوط نیٹ ورک کی وجہ سے دیگر جہادی گروپس اور لشکرجھنگوی کو بھی ان کی مدد حاصل رہتی ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ صرف پشتون علاقے ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سے بلوچ جہادی کمانڈرز بھی طالبان میں اہم مقام رکھتے ہیں اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں نوجوانوں کو ذہن سازی کے ذریعے عسکریت پسندی کے لیے تیار کررہے ہیں۔
قبائلی تصادم
بلوچستان کا ایک مسئلہ قبائلی سرداروں کے آپس کے اختلافات اور دشمنیاں بھی ہیں۔ کوئی سردار ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں حتّیٰ کہ بعض اوقات بہت معمولی سی بات پر خون کی ندیاں بہنا شروع ہوجاتی ہیں۔ سرداری نظام میں بری طرح جکڑا بلوچ ہر طرف سے مار کھا رہا ہے۔ سرداروں کے بچے باہر ممالک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جبکہ عام بلوچی بچہ ڈھنگ کے اسکول سے بھی محروم نظر آتا ہے۔ سرداروں کے حکم پر بندوق اٹھا کر قبائلی لڑائی کا حصہ بننے والوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں لیکن وہ اس قبائلی سسٹم سے نکل نہیں سکتے۔ بلوچستان کے قبائلی تصادم بھی بلوچوں کی زندگی کا ایک المیہ ہیں۔
جو بھی حالات سامنے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بہت سادہ نہیں، اور نہ ہی ایسا ہے کہ جسے جادو کی چھڑی گھما کر حل کر لیا جائے۔ بلوچستان میں مکمل امن قائم کرنے کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پروپیگنڈا سے لے کر ہتھیار تک، تمام محاذوں پر ان خطرات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس میں بنیادی اہمیت پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دینے کی ہے تاکہ مزید بلوچ نوجوانوں کو ان خوفناک جنگجوؤں کا آلہ کار بننے سے روکا جاسکے۔
لکھاری کاؤنٹر ٹیررازم ایکسپرٹ اور سابق ایس ایس پی، سی آئی ڈی ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔