نقطہ نظر

کینیڈین انتخابات اور پاکستانی عزت کا جنازہ

پاکستانی امیدواروں کا مقصد صرف توجہ اور شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے، جبکہ کمیونٹی کی خدمت سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

کینیڈا کےصوبے اونٹاریو میں رواں ہفتے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پاکستانی امیدواروں کی اکثریت نے حسبِ معمول ہار کر اپنے پرانے "اعزاز" کا مسلسل دفاع کیا ہے۔ ان انتخابات میں سوائے دو پاکستانی امیدواروں کے باقی سینکڑوں امیدوار سوائے باتوں اور اشتہاروں کے کچھ نہ کر سکے۔ نتیجہ وہی نکلا جس کی سب توقع کر رہے تھے۔

انگریزی زبان سے ناواقفیت، کینیڈا کے نظام کے بارے میں معلومات کی کمی، اور مسائل سے آگہی کے بارے میں لاعلمی بھی واضح طور پر اکثر امیدواروں میں جھلک رہی تھی، اور چند سنے سنائے مسائل کو بار بار دہرا کر اپنی قابلیت جتانے کی کوشش کر کے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کی ناکام کوشش۔ بلکہ یہ امکان بھی بعید از قیاس نہیں کہ پاکستانی امیدواروں کی اکثریت غلط پلاننگ اور باہمی اختلافات کے باعث الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

ہارنے والوں کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ ایک ہی حلقےسے بیک وقت کئی کئی پاکستانی نژاد امیدواروں کے الیکشن میں حصہ لینے کے باعث پاکستانیوں کے ووٹ کافی حد تک تقسیم ہو گئے اور نتائج انتخابات سے پہلے ہی نظر آرہے تھے۔ جس کا فائدہ دیگر کمیونٹیوں کے امیدواروں کو ہوا اور اکثرپاکستانی امیدوار برے طرح ہار گئے۔

کینیڈا میں پاکستانی امیدواروں کا میدان میں آنا اب نئی بات نہیں رہی۔ ہر چار سال بعد ایک بڑی تعداد ان انتخابات کے دوران نمودار ہوتی ہے۔ کچھ امیدوار تو انتخابات سے ایک سال قبل ہی پاکستان سے آتے ہوئے تئیس کلو کا سوٹ کیس اشتہارات سے بھر کر لے آتے ہیں۔ ان امیدواروں کے اچانک اشتہارات دیکھ کر پاکستانی ایک دوسرے سے صرف یہی پوچھتے ہیں کہ بھئی یہ کون ہے اور وہ کون ہے۔ اگر ان امیدواروں نے کمیونٹی کے لیے کچھ کیا ہوتا تو نظر آتا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں بھارتی نژاد کینیڈین شہریوں کی بڑی تعداد بھی امیدوار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مگر جیتنے والے خوش نصیبوں میں بھارتی نژاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جس کی ایک اہم وجہ بھارتی نژاد امیدواروں کا اپنے حلقے کے ووٹرز سے رابطہ کرنا اور مسلسل کمیونٹی کا حصہ بن کر دکھانا۔ جبکہ ہمارے امیدوار مقامی اردو اخبارات میں تصویروں، پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اور ذات برادری کی بنیاد پر پاکستانی ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

اس برس بھی انتخابات سے قبل کینیڈین اخبارات اور نشریاتی اداروں کے ذریعے کرائے گئے سروے کے مطابق پاکستانی نژاد امیدواروں کی اکثریت کے جیتنے کے امکانات انتہائی کم تھے۔ جس کی ایک زندہ مثال ملاحظہ فرمائیں۔

میں نے ایک امیدوار سے پوچھا بھئی آپ کا منشور کیا ہے تو موصوف کا جواب تھا کہ میں آج کل جاب لیس یعنی بے روزگار ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ کونسلروں کی تنخواہ اچھی ہوتی ہے لہٰذا سوچا کہ کیوں نا انتخابات میں ہی قسمت آزمائی کی جائے۔

ان امیدواروں میں میرے محلے کا پاکستانی کریانہ فروش بھی شامل ہے جس کی ویب سائیٹ پر جھوٹ کو اس کے سفید فام حریفوں نے پکڑا اور پاکستان کا نام خوب بد نام کیا۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے مسخرہ نما، خود ساختہ کاروباری ٹائیکون شامل تھے۔ ان صاحب کا کاروبار، ادب یا سیاست سے تو دور کا تعلق نہیں مگر ان صاحب نے پاکستان کی رہی سہی عزت کو کینیڈا میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیا۔ ان صاحب کو دیکھ کر آپ کو پاکستان کی "آپ سرکار پارٹی" کی یاد ضرور آئے گی۔

ریاض الدین نامی اس "بزنس ٹائیکون" کو بعض لوگ مذاقاً مسی ساگا شہر کا "ملک ریاض" بھی پکارتے ہیں۔

اس انوکھے امیدوار کا اشتہار جو پاکستان سے چھپوایا گیا تھا، کچھ یوں فرماتا ہے کہ یہ حضرت سیالکوٹ، لاہور، سعودی عرب، برطانیہ، آسٹریلیا، سویڈن، فرانس اور ہالینڈ جیسے ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے ممبر اور بعض کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید لکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان ایکسپورٹ پرموشن بیورو کی نمائیندگی بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائینس میں ایم اے کیا اور پھر پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ جب انتخابات کے نتائج آئے تو بیلٹ باکس سے ان حضرت کی توقع سے کہیں زیادہ ووٹ نکل آئے۔ یعنی کل ووٹرز کی تعداد کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ۔

کمال ہے بھئی۔ بے شرمی، جھوٹ اور ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک اور ایسے دور میں جب پاکستان کا نام سنتے ہی گورے گھبراتے ہوں اس قسم کے چھچھورے اور گھٹیا کام پاکستان کی رہی سہی ساکھ کا جنازہ نکالنے سے کم نہیں ہیں۔

ٹورانٹو کے نواح میں واقع پاکستانیوں کی سب سے بڑی آبادی والے اس شہر مسی ساگا کے ایک پاکستانی نژاد ووٹر نے کہا کہ وہ اپنا ووٹ پاکستانی امیدوار کو نہیں دیتے کیونکہ وہ تو الیکشن کی بجائے اپنی ذاتی لڑائیاں لڑ تے ہیں۔ اس لیے وہ ووٹ اس امیدوار کو دیتے ہیں جو کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لیے کام کرے۔

بھئی بغیرکمیونٹی کی خدمت کیے بار بار الیکشن میں حصہ لینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ کم از کم میرے جیسا عزت دار شخص تو ایسا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ پاکستان تھوڑی ہے جہاں آپ لوٹے ہوں یا کھوٹے ہوں سب چلتا ہے۔ مگر دل گردوں سے لے کر نظام کی تبدیلی تک کے نعرے لگا کر فلاحی تنظیموں کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے والے چند امیدوار بڑی دلجمعی اور دل وجان سے بار بار انتخابات میں ہار کر بھی کوئی فرق اور شرم محسوس نہیں کرتے۔

مسی ساگا شہر میں تو ایک امیدوار ایسا بھی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ضد پر الیکشن میں حصہ لیتا آرہا ہے کہ اس کے پاس مشہور شخصیات کے ساتھ تصاویر کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ بیچارا ہر چار سال بعد انتخابات میں حصہ لے کر شاید الیکشن تو قیامت تک نہ جیت سکے مگر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام لکھوانے میں ضرور کامیاب ہوگا۔

الیکشن مہم شروع ہوتے ہی پاکستانی امیدواروں کی ذاتی دشمنیاں اور اختلافات مین سٹریم کینیڈین اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننا شروع ہوجاتے ہیں جو دیار غیر میں وطن عزیز کے ان "سفیروں" کی عمدہ سفارتکاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

کینیڈا میں پاکستانیوں کے مشہور قصبے ملٹن میں پاکستانی نژاد پڑھے لکھے نوجوان سیاستدان ذیشان حامد دوسری بار کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی کمیونٹی کے لیے خدمات صاف ظاہر تھیں۔ مگر پھر بھی یار لوگوں نے ان کو ہرانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔ یہاں قانونی طور پر امیدوار پولنگ کے بعد تین دن کے اندر اندر اپنے بینرز اتارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ مگر ان انتخابات کے دوران جیتنے والے امیدوار ذیشان حامد کے کچھ حریفوں نے ان کے بینرز الیکشن سے پہلے ہی غائب کردیے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ذیشان حامد نے اپنے ان حریفوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے بینرز ہٹا کر صفائی کا کام آسان کرنے میں ان کی بھرپور مدد کی۔

یاد رہے کہ پورے صوبے میں جیتنے والے صرف دو پاکستانی نژاد امیدواروں کی کامیابی میں ان کی کمیونٹی کے لیے خدمات اور غیر پاکستانیوں کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ دوسرے امیدوار میکس خان کو اوک ول شہر میں کامیابی نصیب ہوئی۔ وہ بھی دوسرے بار منتخب ہوئے ہیں۔

ایک ایسے بھی پاکستانی امیدوار کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ جو سن دوہزار چودہ میں ہونے والے انتخابات میں سن انیس سو چوہتر میں بنوائی ہوئی شادی سے پہلے کی تصویر کو اپنی اشتہاری مہم میں استعمال کررہے تھے اور ان کی بیوی غلطی سے ووٹ کسی اور کودے آئیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ اس میں بیچاری بیوی کا کیا قصور۔

ٹورانٹو شہر میں پاکستانی اور بھارتی نژاد شہریوں کی بڑی آبادی والے علاقے تھارن کلف پارک کو مسلم آبادی کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے "اسلامک ریپبلک آف تھارن کلف" بھی کہا جاتا ہے۔ اس حلقے میں پاکستانی اور بھارتی نژاد شہریوں کی آبادی تیس ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں ووٹرز کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ کینیڈین مین سٹریم میڈیا میں الزام تراشیوں اور آپس میں لڑائیوں کے باعث اس علاقے سے کوئی بھی مسلمان امیدوار نہ جیت سکا۔

مجھے ایک پاکستانی نژاد بینک آفیسر نے بتایا کہ شوقیہ فنکار صرف کمیونٹی کی ذلت میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اس سے زیادہ یہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ایک پاکستانی نژاد صحافی کا خیال ہے کہ زیادہ لوگ تو صرف اور صرف شہرت کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس سیزن میں اردو اخبارات کا کام چمک جاتا ہے مگر کچھ شعبدہ باز امیدوار ان اخبارات کے بل بھی کھاجاتے ہیں۔

ایک مقامی اردو ہفت روزہ اخبار کے مدیر کا کہنا ہے کہ زیادہ امیدوار سنجیدہ نہیں تھے۔ اکثر امیدوار الیکشن کے بجائے اپنے اپنے مفادات کی خاطر سامنے آئے۔ کچھ لوگ تو صرف اپنے کاروبار کی تشہیر اور کچھ اپنے تعارف کو مضبوط بنانے کی حد تک امیدوار تھے۔

یاد رہے کہ ان انتخابات میں بہت سارے ایسے کارکن بھی سرگرم رہے جو ووٹر نہیں تھے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں موجود پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے مقامی دھڑے اور عہدیدار بھی ان انتخابات کے جوڑ توڑ میں بڑے مصروف رہے۔ ان میں سے اکثر نے تو تمام امیدواروں کے ساتھ تصویریں بھی اتروا لیں تاکہ نتائج آنے کے بعد صرف جیتنے والے کی ساتھ بنوائی تصویر مقامی پاکستانی اخبارات میں شائع کرا سکیں۔

میرا یار ظالم جلالپوری کہتا ہے کہ اس صوبے میں پاکستانیوں کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے اور نمائیندگی آٹے میں نمک کے برابر۔ مگر سینکڑوں فرضی تنظیمیں "پاکستان-کینیڈا کی ترقی" کے نام پر صرف فائلوں کی حد تک ہی کام کررہی ہیں۔ ہمیں یہاں پر جعلی نہیں بلکہ اصلی "ملک ریاض" کی ضرورت ہے جو قوم کی خدمت بھی کرے اور فائلوں کو "پہیے" بھی لگا سکے۔

محسن عباس

محسن عباس ایوارڈ یافتہ پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، فلمساز اور صحافتی آزادی کے کارکن ہیں۔ وہ کینیڈا میں نئے آنے والوں اور امیگرینٹس کے لیے متعدد زبانوں کی ہفتیوار اخبار ڈائیورسٹی رپورٹر کے ایڈیٹر ہیں۔

محسن عباس سے اس ای میل editor@diversityreporter.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔