دنیا

سعودی عرب: بچوں کے جنسی استحصال میں خطرناک اضافہ

ایک اسٹڈی کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچے نے یہ انکشاف کیا کہ بچپن میں کسی موقع پر اس کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا۔

دمام، سعودی عرب: ایک اسٹڈی کے نتائج سے واضح ہوا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات میں سعودی عرب میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔

اس سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچے نے یہ انکشاف کیا کہ اس کے بچپن میں کسی موقع پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے مشرقی صوبے دمام میں یتیموں کی دیکھ بھال کے محکمے نے حال ہی میں سرپرست خاندانوں کے لیے ایک سیمنار کا اہتمام کیا، جس کا عنوان تھا ’’جنسی طور پر ہراساں کرنا اور آغازِ شباب‘‘۔

اس کا مقصد والدین کو جنسی استحصال سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی اہمیت سے آگاہ کرنا تھا۔

اس پروگرام میں اس مسئلے بہت سے مقالات پیش کیے گئے، جس میں کنگ سعود یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر وفا محمد کی جانب سے پیش کیا گیا ایک مطالعہ بھی شامل تھا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

وفا محمد نے نشاندہی کی کہ ہر چار میں سے ایک بچہ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے تجربے سے گزرتا ہے۔

منیرہ عبدالرحمان کی جانب سے پیش کیے گئے ایک اور مطالعے سے ظاہر ہوا کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والے 49.23 فیصد بچوں کی عمریں 14 برس یا اس سے کم تھیں۔

ایک سماجی اور تعلیمی مشیر شیخا بنت عودیٰ العودیٰ نے کہا کہ سعودی عرب میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات کے درست اعدادو شمار اس لیے دستیاب نہیں ہیں کہ اس موضوع پر اب بھی بات نہیں کی جاتی، اس لیے کہ خاندان اسکینڈل بن جانے کے ڈر تے ہیں، یا پھر خاندان کے کسی قریبی فرد کی جانب سے ایسا کیا گیا ہوتا ہے۔

شیخا نے واضح کیا کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کی بنیادی وجہ خاموشی ہے، اور خاندان، خصوصاً ماں کی غفلت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ماؤں کو چاہیے کہ وہ ڈرائیوروں، نوکروں کی نگرانی میں زیادہ متحرک کردار ادا کریں۔ کچھ مائیں اپنے بچوں کو محلے کی دکانوں پر بھیجنے، یا کسی رشتہ دار کے ساتھ، یا والد سمیت خاندان کے کسی مرد کے ساتھ سونے کو بُرا نہیں سمجھتیں۔‘‘

شیخا نے کہا کہ جنسی استحصال کا معاملہ سامنے آنے کے بعد خود پر قابو رکھیں اور اس کا الزام اس بچے پر عائد نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت بچے کو مدد اور تحفظ کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ والدین اس معاملے خود کو موردِالزام نہ ٹھہرائیں بلکہ اس کے حقیقی مجرم اپنے ذہن میں رکھیں، جسے سزا دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

شیخا نے والدین سے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ بچہ کیا کہہ رہا ہے، اس پر یقین کریں اور اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات میں اعتماد پیدا کریں۔

انہوں نے زور دیا کہ ’’والدین بچے کی بتائی ہوئی بات پر زیادہ اعتبار کریں، اس طرح بچے سے کہیں زیادہ درست تفصیلات حاصل کرنے میں کامیابی ہوگی۔‘‘

شیخا نے والدین کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ بچوں کی تربیت کے لیے دیگر ذرائع کی مدد بھی حاصل کریں۔

انہوں نے کہا ’’اگر والدین یہ خوف محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکیں گے تو انہیں ضرورت ہے کہ وہ کسی سماجی رہنمائی کے ماہر کی خدمات حاصل کریں۔‘‘

شیخا نے اسکولوں پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی معاشرتی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اسکول اور دیگر مقامات پر جنسی استحصال کے حوالے سے بچوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی پروگرام تیار کریں۔

انہوں نے اسکول کی انتظامیہ اور والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو ذاتی دفاع کی مہارت فراہم کریں، ان کے اندر اچھی سوچ پیدا کریں اور انہیں قریبی پولیس اسٹیشنوں کے ٹیلی فون نمبرز یاد کروائیں۔