نقطہ نظر

پھیلتا درمیانہ طبقہ

مایوسی اور تنہائی کے رجحان برعکس متوسط طبقے نے ہار نہیں مانی ہے اور وہ اقتصادی حالت میں بہتری لانے کے لیے پرعزم ہے۔

پاکستان میں آبادی کے حوالے سے واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور ہم ابھرتی ہوئی متوسط طبقے کے مستحکم پھیلاﺅ کا تجربہ دیکھ رہے ہیں اور یہ صرف نمبروں تک محدود نہیں، گزشتہ دہائی کی توانائی سے خالی ترقی سے قطع نظر ملکی آبادی میں متوسط طبقے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور یہ شرح نمو پنجاب خصوصاً وسطی پنجاب اور پوٹھو ہار بیلٹ میں خاص طور پر نمایاں ہوئی ہے، یہ دونوں علاقے زیادہ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افرادی قوت اور زمینی ملکیت میں کم خامیوں جیسی خوبیاں رکھتے ہیں۔

ہم متوسط طبقے کی وضاحت کیسے کرتے ہیں؟ یہ ایک تغیر پذیر اور غیرواضح اصطلاح ہے، اس طبقے کی تعداد یا حجم میں اقتصادی یا سماجی اعتبار سے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، اس کی عمومی وضاحٹ درست نہیں ہوگی کیونکہ متوسط طبقہ کریکٹر کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتا، اگرچہ کچھ اقدار اور شخصی خصلتیں مشترک ہوتی ہیں مگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کافی تضادات موجود ہوتے ہیں۔

اقتصادی اصطلاح کی بات کی جائے تو اس کی وضاحت آمدنی، اخراجات اور منتخب پائیدار اثاثوں کی ملکیت کی بنیاد پر ہوتی ہے، ایک ماہر معیشت کی جانب سے کارآمد وضاحت کچھ اس طرح ہوگی کہ متوسط طبقے ایسے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جن کی آمدنی کا ایک تہائی حصہ اپنی خوراک اور رہائش کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے بعد خرچ کرنے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔

سماجی اصطلاح میں اس کی وضاحت پیشے، پیشہ وارانہ لیول، تعلیم یا ذاتی شناخت پر ہوتی ہے، ایسا لفظ جس سے ذاتی نسب کے احساس کی عکاسی ہوتی ہو، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد درحقیقت مڈل کلاس طرز زندگی اور اپنی شناخت کا اظہار کرتے ہیں، یہ ایسے افراد پر مشتمل طبقہ ہوتا ہے جس کی تمام تر کوششیں اپنے محفوظ مستقبل کے لیے وقف ہوتی ہیں، مثال کے طور پر وہ اپنی بچیوں کو اس لیے پڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی شادیاں اچھی جگہ پر ہوسکیں، جس سے وہ سماجی طور پر بہتر تعلقات قائم کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں، اوپر کی جانب جانے کا یہ سفر شہری علاقوں میں ایک اہم اسٹرٹیجک اقدام ہوتا ہے۔

یہ طبقہ ایک مضبوط اور فعال جمہوریت کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تعلیم یافتہ اور نوجوان افراد دنیا میں آگے بڑحنا چاہتے ہیں، آج ملک کے اندر متوسط طبقے کی اقدار اور عزائم وسیع پیمانے پر جگہ بنارہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ الیکٹرونک میڈیا کی توسیع اور بڑھتا ہوا کردار ہے۔

سماجی معاشی تبدیلیاں ابھرتے متوسط طبقے کی بڑھتی آمدنیوں(عالمی سطح پر اجناس کی بڑھتی قیمتوں، گندم کی خریداری کے لیے بلند حکومتی قیمتیں اور ٹیکسوں سے بچنے کی شرح میں اضافہ)، شہروں میں آبادی کے بڑھنے اور وائٹ کالر پیشوں نے مصنوعات اور خدمات کے صارفین کی طلب کو بڑھا دیا ہے۔

حکومتی پالیسیوں، ان کی فطرت اور خرچ کرنے کا لیول بھی متوسط طبقے کی تخلیق کی رفتار پر اثرانداز ہوتا ہے، حالیہ عرصے میں ریٹیل تجارت کی تیزی سے نشوونما کے یہ نتائج سامنے آئے ہیں، نئے شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس بڑھے ہیں یہاں تک کے چھوٹے قصبوں میں بھی، نئے انداز کی صلاحیتوں کی طلب بڑھی ہے اور اس کے حجم میں توسیع ہوئی ہے۔

آبادی کے لحاظ سے نصف میں سے ایک تہائی گھرانے اس طبقے کی نچلی کلاس کا حصہ ہیں(اگرچہ ہماری سرفہرست دس فیصد کی بطور امیر کی وضاحت عالمی معیار کے لحاظ سے غلط فہمی کا سبب بنتی ہے)، یہ طبقہ بنیادی طور پر چھوٹی دکانوں اور ورکشاپس کا مالک ہے، متوسط کاشتکار، کنٹریکٹرز، نیم تربیت یافتہ صنعتی و خدمات کے شعبوں کے ورکرز اور جونیر یا درمیانے درجے کے آفیشل کیڈر وغیرہ ان پر مشتمل ہے۔

یہ طبقہ حکومتی ہینڈ آﺅٹس اور مختلف شعبوں میں سبسڈیز جیسے پانی، کھاد، اعلیٰ تعلیم، آٹا وغیرہ سے مستفید ہونے والا ایک بڑا حقیقی حصہ ہے ، یہ ایک ریفریجریٹر کے کی ملکیت تو رکھتے ہی ہیں، جبکہ ایک سے زائد موبائل فونز، ایک موٹرسائیکل یا چھوٹی گاڑی، اگرچہ ان کے اخراجات کا بجٹ بڑھتا ہے تاہم وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور اپنی ریٹائرمنٹ کے لیے بچت بھی کرتے ہیں۔

یہ حکومتی حکام کے سنیئر افسران کے بالائی حصے، بڑی کاروباری اداروں کے منیجرز، بینکرز، پیشہ وار جیسے اکاﺅنٹنٹس، ٹیکس مشیر اور آرکیٹکچر، بڑے کاشتکار، بڑے نجی اسکولوں سمیت پبلک و نجی یونیورسٹی کے اساتذہ اور ٹیلی کمیونیکشن کے شعبے میں ہر طرح کی خدمات فراہم کرنے والے، آئی ٹی، میڈیا، ریٹیل، الائیڈ سروسز وغیرہ وغیرہ کا بھی حصہ ہیں۔

یہ برانڈز کے شوقین ہوتے ہیں اور ایسا میٹریل خریدنا چاہتے ہیں جیسے ڈیزائنر کپڑے، گاڑیوں کے تازہ ترین ماڈلز، الیکٹرونک مصنوعات، ایئرکنڈیشنرز اور کسی قسم کی سالانہ تعطیلات کا بھی خرچہ اٹھاسکتے ہیں۔

نوے کی دہائی کے اولین پانچ سال کے دوران جب گاڑیاں بڑی تعداد میں دستیاب نہیں تھیں اور نا ہی معیار الیکٹرونک ڈیوائس ماسوائے اسمگل اشیاءیا تحفوں کے، جدید ٹیکنالوجی اور مالیاتی آلات (جیسے لیز)نے بڑے پیمانے پر استعمال کے لیے نئی مصنوعات کو فراہم کیا، تو متوسط طبقے کے 'خواہشمندوں' اس زمانے میں خرچ کرنے کی خواہش کے باوجود مناسب انتخاب سے محروم تھے اور نا ہی انہوں بڑھتی آمدنی اور دولت سے مستفید ہونے کا موقع مل رہا تھا مگر اب وہ ایسا کرسکتے ہیں۔

اب پنجاب کی بات کرتے ہیں جہاں نئی موٹرسائیکلوں کی سالانہ رجسٹریشن بارہ لاکھ اور گاڑیوں کی ڈیڑھ لاکھ ہے، جو کہ دس سال پہلے دو لاکھ موٹرسائیکلیں اور پچاس ہزار گاڑیاں تھیں، جبکہ یہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی بھی بڑی مارکیٹ ہے۔

اس طبقے میں شرح نمو کے عمل کی تحریک بچت اور سرمایہ کاری جس میں ہیومین کیپیٹل شامل ہے، سے ایسے کاروباری افراد کی ترقی کی بنیادی پڑی جس سے پیداواری صلاحیت بہتر ہونے کے ساتھ نئی ملازمتیں بھی تخلیق ہوئیں، یہ حکومتی اصلاحات، شفافیت، احتساب اور قیادت کی دیانتداری کے حامی ہیں، ایک بلند آہنگ سماجی و معاشی گروپ کے طور پر حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہوکر یہ اقتصادی نشوونما کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اگرچہ غریب افراد بظاہر مایوسی نظر آتے ہیں، تاہم اس مایوسی اور تنہائی کے رجحان کے برعکس متوسط طبقے نے ہار نہیں مانی ہے اور وہ اپنے گھرانوں کی اقتصادی حالت میں بہتری لانے کے لیے پرعزم ہے، اور وہ یہ مقصد حاصل کرسکتا ہے کیونکہ وہ زیادہ باصلاحیت یا غریب افراد کے مقابلے میں زیادہ اثاثوں کا مالک ہے۔

حالیہ سیاسی معاملات کو دیکھا جائے تو یہ خیال زیادہ تر طبقوں میں پایا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سپورٹ بیس میں کمی آئی ہے جس کی وجہ اس میں قیادت کا فقدان ہے تاہم پنجاب میں ووٹرز کا بہت چھوٹا طبقہ اس جماعت سے الگ ہوا ہے، متوسط طبقہ عام طور پر پی پی پی کو ووٹ نہیں دیتا، درحقیقت پنجاب میں اس طبقے میں آنے والی تبدیلیاں اس کی زیادہ وضاحت پیش کرتی ہیں، اس کی تیزی سے توسیع سے مسلم لیگ ن کے حامیوں میں اضافے کی بجائے پنجاب مڈل کلاس نے پی ٹی آئی کو اپنی وفاداری کے لیے زیادہ موزوں تصور کرتا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔