نقطہ نظر

کشیدہ سرحدی تعلقات

ایران سےسرحدی جھڑپیں خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہیں خاص طور پرجب ہندوستان اور افغانستان کی سرحدوں پر تعلقات کشیدہ ہوں۔

یہ دور اس کے ساتھ کشیدگی کا شکار پاکستانی سرحدیں، یہ طویل عرصے سے پیشگوئی کی جارہی تھی کہ افغانستان میں عالمی افواج کے انخلاءاور سیاسی ٹرانزیکشن سے صورتحال میں تبدیلی آسکتی ہے اور ممکنہ طور پر یہ خطے کے تناظر میں بدترین ہوگی۔

ایران سے حالیہ سرحدی جھڑپیں خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہیں خاص طور پر ان حالات میں جب ہندوستان اور افغانستان دونوں کی سرحدوں پر اسی طرح فائرنگ کا تبادلہ ہورہا ہو۔

اس وقت جب ہندوستان سے جھڑپیں دونوں اطراف کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں مگر ایران کے ساتھ ایسا ہونا معمول کے ناخوشگوار سفارتی بیانات سے ذرا ہٹ کر ہے، اس کی وجہ سے اس حقیقت پر توجہ مرکوز نہیں ہوپارہی کہ پاک ایران تعلقات میں مسلسل بگاڑ آرہا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ آنے والے مہینوں میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کی جھڑپیں توقع کے خلاف نہیں، رواں برس باہمی تعلقات میں متعدد رکاوٹیں آئی ہیں جن میں انتہائی ضروری پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی معطلی بھی شامل ہے، پشاور میں ایرانی قونصل خانے کے باہر ایک خودکش حملہ ہوا، جبکہ فروری میں پانچ ایرانی فوجیوں کو مبینہ طور پر پاکستانی عسکریت پسندوں نے اغوا کرلیا۔

یہ سب حالات وزیراعظم نواز شریف کی قیادت کے دور میں سامنے آرہے ہیں، نواز لیگ کے قائد ریاض کے قریب ہیں، جس کا اظہار روان برس شام میں اسد حکومت کے خلاف موقف اورسعودی عرب سے مارچ میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی 'گرانٹ' ملنا، سب تہران کی نظر میں ہمارے خلاف گیا، رواں برس کے اوائل میں ایسا نظر آتا تھا کہ پاکستان اور ایران شام میں مخالف فریقوں کی پشت پناہی کا خطرہ مول لے رہے ہیں، تاہم رایست اسلامیہ کے اٹھنے کے بعد جو ایران اور سعودی عرب دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے، خطے کے روایتی تناظر میں تبدیلی آئی ہے۔

مگر وزیراعظم کی ذاتی ترجیحات خارجہ پالیسی پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے، خاص طور پر اس وقت تہران سے سفارتی تنازع کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔

ایران اس وقت پھر سے ابھر رہا ہے اور وہ دوبارہ خطے کا ہیوی ویٹ ملک بننا چاہتا ہے، وہ خود کو ایسی طاقت تسلیم کراچکا ہے جو مسلسل شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کو موثر معاونت فراہم کررہی ہے اور یہ وہ وقت بھی ہے جو اقتصادی پابندیوں اور سفارتی تنہائی کے باعث اسے کمزور بناچکا ہے۔

جوہری تنازعے پر عالمی طاقتوں سے جاری مذاکرات سے بتدریج ان پابندیوں میں کمی اور مغربی طاقتوں سے سفارتی روابط میں اضافہ ہوگا، عراق میں ریاست اسلامیہ کے سراٹھانے کے بعد ایران کا مغرب سے تیکنیکی اتحاد مستقبل میں اس کے لیے فائدہ مند ہوگا اور خطے میں اس کردار بڑھے گا۔

ایران کی جانب سے طاقت بڑھانے کا عمل اس وقت ہورہا ہے جب اسلا م آباد اور تہران کی جانب سے افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان خطے کی دیگر طاقتوں کے ساتھ پراکسی تنازع کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ دہائی کے دوران ایران نے اپنا اثررسوخ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات سے آگے بڑھایا ہے اور اب اس کے افغان سرزمین پر اہم تجارتی و سرمایہ کارانہ مفادات وابستہ ہیں، اس کے علاوہ وہ متعدد افغان میڈیا اداروں پر بھی اثررسوخ رکھتاہ ے اور اس کے روابط افغانستان کی نئی قومی متحدہ حکومت کے اعلیٰ سطح تک ہیں۔

اس وقت جب افغان سیاست میں نسلی صفوں کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مخالف سیاسی کیمپوں کے درمیان خانہ جنگی دوبارہ سر اٹھارہی ہے، اس وقت پاکستان اور ایران ممکنہ طور پر خود کو مخالف کیمپس میں کھڑے پاسکتے ہیں، تہران کی جانب سے افغان ہزارہ کی حمایت کی جارہی ہے جبکہ اسلام آباد جنوبی اور مشرقی صوبوں میں طالبان کی حمایت جاری رکھا سکتا ہے، اس تناظر میں پاک ایران تعلقات میں بگاڑ(روایتی مخالفت اور خطے کا ابھرتا منظر) ممکنہ طور پر افغانستان میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی اندرونی چیلنجز کا سخت اطہار ہے، ایران نے پاکستانی صوبے بلوچستان سے عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں کا الزام عائد کیا،بلوچستان کی خوفناک سیکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ مبالغہ انگیز بھی نہیں لگتا۔

فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپس جیسے لشکر جھنگوی پوری آزادی کے ساتھ بلوچستان میں کام کر رہے ہیں اور ہزارہ و دیگر شعیوں کو ظالمانہ طریقے سے قتل کررہے ہیں، اور یہ خیال تصوراتی نہیں کہ ایرانی عسکریت پسند بھی بلوچستان میں ٹھکانے بنانے کے خواہشمند ہیں، بلاشبہ پاکستان کے عسکریت پسند گروپس کے ساتھ نظریاتی اتحاد اور مقامی سطح پر پولیسنگ اور قوانین کے موثر نفاذ کی کمی کو دیکھتے ہوئے ایسا بالکل ممکن ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، اس وقت جب مشرق وسطیٰ تنازعات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہورہا ہے، پاکستان کو اس تنازع سے باہر رہنے کی ہرممکن کوشش کرنا چاہئے، پاکستان دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور ایران کے بعد شیعوں کی آبادی کے لحاظ سے بھی دوسرا بڑا ملک ہے، پاک سرزمین پر فرقہ وارانہ تشدد ملکی وجود کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک طرف فرقہ واریت پر قابو پانا اہم ترین مقامی تقاضا ہے تو دوسری طرف ایران کے ساتھ مضبوط باہمی تعلق اس مسئلے کے حل کی کنجی ثابت ہوسکتا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

ہما یوسف

لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس huma.yusuf@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔