پاکستان

کراچی لینڈ 'ڈویلپرز' کے لیے سونے کی کان

سیاسی و فوجی ہیوی ویٹس کے درمیان اس زمین کی بندربانٹ اور اس کا انداز ہر اعتبار سے قانون کے خلاف ہے۔
|

کراچی : غازی کریک کی مرکزی پٹی جو کہ ڈیفینس ہاﺅسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کراچی، فیز سیون (ایکسٹینشن) اور فیز ایٹ کے اندر آتی ہے، کے قریب ہی عظیم الشان مقاصد کے لیے مختص زمین پر قبضے کا سلسلہ جاری ہے، اور اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو اس کریک کے ارگرد 490 ایکڑ رقبے پر پھیلے مینگروز کا صفایا ہوجائے گا اور اس علاقے کو پرتعیش منصوبے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

واٹر فرنٹ ڈویلپمنٹ کے نام سے بنائے جانے والے پراجیکٹ کو چند منتخب بااثر و طاقتور افراد اپنے اثاثوں کو مزید بڑھانے کے لیے استعمال کررہے ہیں جبکہ اس سے کراچی کے سب سے قیمتی اثاثوں یعنی مینگروز جنگلات کا مزید خاتمہ ہوجائے گا۔

ایڈووکیٹ محفوظ یار خان کی جانب سے اس منصوبے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں دائر ایک پٹیشن کے مطابق واٹر فرنٹ پراجیکٹ میں شامل فریقین کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ کچھ علاقہ ڈی ایچ اے سے خریدا جائے گا، جبکہ دیگر حصے کو ڈی ایچ اے کی جانب سے ڈویلپ کیا جائے گا اور پھر مالکان کو لوٹایا جائے گا، جبکہ اس کے بعد بچ جانے والا علاقہ ڈی ایچ اے کے پاس ہی رہے گا۔

سیاسی اور فوجی ہیوی ویٹس کے درمیان اس محفوظ قرار دی جانے والی زمین کی بندربانٹ اور اس کا انداز ہر اعتبار سے قانون کے خلاف ہے۔

سب سے پہلی بات چار سو نوے ایکڑ میں سے 342 ایکڑ رقبے پر 1996 سے مقدمے بازی چطل رہی ہے اور وہ پورا تنازعہ بے نام معاہدوں، لینڈ ریکارڈ میں ردوبدل اور کروڑوں روپوں کی خفیہ معاہدوں کے گرد گھومتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مینگروز جنگلات کی کٹائی کے خلاف متعدد فیصلے سنائے جاچکے ہیں، مچھلی اور جھینگوں کی افزائش نسل کے ساتھ ساتھ یہ جنگلات سمندر بریدگی اور مختلف عناصر کی تباہی کے خلاف قدرتی ڈھال یا سرحد ہے، سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہےانڈین فارسٹری ایکٹ 1927 جسے پاکستان نے 1947 میں اپنا لیا تھا، میں مینگروز کے تحفظ کے لیے متعدد پہلوﺅں کو شامل کیا گیا ہے، یہ اور دیگر قوانین میں واضح کردیا گیا ہے کہ جنگلات کے علاقے کو کسی غیر جنگلاتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا چاہے حکومت اس کی منظوری ہی کیوں نہ دیدے'۔

تاہم ڈی ایچ اے فیز آٹھ کے تیار کیے گئے ماسٹر پلان ،جسے زاویہ آرکیٹکچر نے بنایا ہے، میں مینگروز کے 490 ایکڑ علاقے کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔

ڈی ایچ اے کے ایک سنیئر عہدیدار نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی ہے کہ اس طرح کی منصوبہ بندی کی اتھارٹی نے اجازت دی ہے۔

اس کا کہنا ہے"اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو یہ اس کا فعل ہے، ڈی ایچ اے ٹاﺅن پلاننگ کے لیے اوپن بڈنگ کے ذریعے کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرتا ہے"۔

تاہم آرکیٹکچر کمپنی کے ذرائع نے بتایا کہ تیار کیے گئے نقشے کو ڈی ایچ کراچی کے ایگزیکٹو بورڈ سمیت سنیئر فوجی حکام کو بھی پیش کیا گیا، جنھوں نے اس کی منظوری دی۔

واٹر فرنٹ پراجیکٹ کے خلاف دائر پٹیشن میں ڈی ایچ اے اور بورڈ آف ریونیو سندھ کو فریق بنایا گیا ہے، بورڈ آف ریونیو صوبائی ادارہ ہے اور بنیادی طور پر صوبے کی تمام زمین کی ملکیت رکھتا ہے جبکہ لینڈ ریونیو کو اکھٹا کرنا اور لینڈ ریکارڈ مرتب کرنا وغیرہ اس کی ذمہ داری ہے۔

اسی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ افراد، اداروں اور ایجنسیوں کو مخصوص مقاصد کے لیے زمینیں الاٹ کرے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے اربوں روپوں کی زمینوں کے حصول کے لیے ترتیب پانے والے 'لینڈ ڈویلپرز' کے اتحاد کے سامنے یہ بے بس نظر آتا ہے۔


تنازعات کی تاریخ


مینگروز کے ان جنگلات کی کہانی 1994 میں اس وقت شروع ہوئی جب پیپلزپارٹی کے آغا طارق جو اس وقت کان کنی کے وزیر تھے، نے 342 ایکڑ رقبے کے لیے تیس سالہ مائننگ لیز کا اجرا اپنی اہلیہ گلنار بیگم کے نام کیا(یہ وہی علاقہ ہے جو اب واٹر فرنٹ پراجیکٹ کا حصہ ہے)۔

جولائی 1996 میں محکمہ ریونیو کے ذریعے آغا طارق نے غیرقانونی طور پر اس لیز کی مدت 99 سال تک بڑھا کر اسے کمرشل، رہائشی اور صنعتی مقاصد میں تبدیل کردیا، اسی برس ستمبر میں اپنی اہلیہ کے نام پر لیز پر موجود اس زمین کو مرینہ سٹی ڈویلپرز کو فروخت کردیا، جو کہ آصف بیگ محمد، خالد موسیٰ اور سیما تاثیر گل کی شراکت داری میں قائم ادارہ تھا۔

خالد مسعود کا کہنا تھا" ہم اس زمین دبئی مرینہ سے زیادہ بہتر طریقے سے ڈویلپ کرنا چاہتے تھے"۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق تیسری شراکت دار سیما گل درحقیقت گلنار بیگم کی ملازمہ تھی، ستمبر 2007 میں آغا طارق چل بسے، تاہم اس 342 ایکڑ رقبے پر کئی دہائیوں سے مقدمات مختلف عدالتوں میں چل رہے ہیں، جن میں اس کی ملکیت کے ساتھ ساتھ الاٹمنٹ کی قیمت کے تنازعات قابل ذکر ہیں۔


تنازع میں ڈی ایچ اے کی شمولیت


ایک طرف یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ رواں برس کے دوران محکمہ ریونیو نے 342 ایکڑ رقبے پر چلنے والی مقدمہ بازی میں 148 ایکڑ مینگروز کا مزید علاقہ شامل کرکے اسے چار فریقی بنادیا، اس طرح کرنے کے لیے ریونیو حکام نے زمینی ریکارڈز میں ردوبدل کیا اور اس طریقہ کار کے دوران جنگلات کی زمین کسی بھی صورت میں الاٹ نہ کرنے کی پابندی کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

اس زمین کو بالائی سندھ میں آبائی زمین کے تبادلے کے نام پر منتقل کیا گیا اور چار افراد اس کی ملکیت کا دعویٰ 1937 کے برس کی دستاویز کی بنیاد پر کررہے ہیں جس کی نقول ڈان نے حاصل کررکھی ہیں، جس کے مطابق ان کی بالائی سندھ میں چھ سو ایکڑ 'موروثی' زمینیں تھیںتاہم اس دستاویز میں موجود خامیاں انتہائی سنگین تحفظات کا سبب بنتی ہیں، ان میں سب سے اہم ضلع شرقی کراچی کا ذکر ہے، حالانکہ 1937 میں ضلع شرقی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اس کے علاوہ عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ وسیع موروثی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے کسی اچھے جگہ رہنے کی بجائے میٹروول اور اورنگی جیسی کچی آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں کے گھر سو اسکوائر یارڈ سے زیادہ بڑے نہیں۔

ذرائع کے مطابق ' 1937 ' کا دستاویز کو ایک طاقتور سرکاری ملازم نے تیار کیا جو مرحوم جام صادق علی کے ساتھ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کام کرتا تھا۔

ایک ریونیو عہدیدار نے بتایا"زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے چاروں فریقین سے کیا گیا ایک بے نام درحقیقت اس سرکاری ملازم کو اصل فائدہ اٹھانے والا بناتا ہے، حالیہ منصوبے یعنی مینگروز کے جنگلات کے علاقے کی ملکیت کے دعویٰ سے واپس لینا درحقیقت کسی(سندھ کی ایک بااثر سیاسی شخصیت) کی مدد سے ہوا"۔

رواں برس جولائی میں حقیقی مستفید ہونے والے افراد نے بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ایک سرمایہ کار اور لیڈ ڈویلپر جس کے فوجی حلقوں سے اچھے تعلقات ہیں، کو ڈی ایچ اے کے اعلیٰ حکام تک رسائی کے لیے استعمال کیا، ان عہدیداران نے بھی 490 ایکڑ رقبے پر تعمیرات کے لیے مفاہمتی یاداشت پر دستخط میں بہت جلد بازی سے کام لیا کیونکہ ان کی مدت معیاد ستمبر اور اکتوبر میں ختم ہورہی تھی اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس میں ان کیا ان مفاد واقبستہ ہوسکتا ہے۔

یہاں تک ایک عام تخمینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس منصوبے کی مالیت کتنی زیادہ ہے، جب اس 490 ایکڑ رقبے کو ڈی ایچ اے فیز ایٹ میں شامل کرکے انہیں سینکڑوں کمرشل اور رہائشی پلاٹس کی شک میں تقسیم کیا جائے گا تو ان کی قیمت سینکڑوں اربوں روپوں تک چلی جائے گی(ڈی ایچ اے ذرائع کے مطابق، ڈی ایچ اے انتظامیہ کا جلد انتظام سنبھالنے والے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئیر زبیر احمد کو ایک ماہ پہلے ہی آٹھ ستمبر کو چارج سنبھالنے کی اجازت دے دی گئی)۔

پیر آٹھ ستمبر 2014 کو ڈی ایچ اے حکام نے 11,979,000 روپے مالیت کا ایک پے آرڈر جس پر اسٹمپ ڈیوٹی واجب الادا تھی، نیشنل بینک آف پاکستان سے جاری ہوا اور اسے خزانے میں جمع کرایا گیا تاکہ مینگروز جنگلات کے علاقے کو خریدا جاسکے۔

ایڈووکیٹ محفوظ یار خان کے مطابق"رجسٹرار سمیت متعدد ریونیو افسران ڈی ایچ اے ایڈمنسٹریٹر کے ہمراہ تھے تاکہ جلد از جلد ملکیت کی رجسٹری کے لیے کارروائی کو مکمل کیا جاسکے، درحقیقت ان کا حقیقی ارادہ تو چھ ستمبر کو پے آرڈر جمع کرانے کا تھا تاہم یہ ٹرانزیکشن پر بینک نے کہا تھا کہ یہ بہت بڑی رقم ہے اور پے آرڈر کو پیر کے روز جمع کرایا جائے"۔

اس بارے میں دریافت کرنے پر ڈی ایچ اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا"جی ہاں اسٹمپ ڈیوٹی کو ادا کیا جائے گا تاہم یہ زمین کی فروخت کے بعد ی ہوسکے گا"۔

ڈی ایچ اے اس متنازع زمین کی کہانی سے بخوبی آگاہ تھی، لیفٹننٹ جرنل سجاد غنی جو حال ہی میں کور کمانڈر کراچی اور ڈی ایچ اے ایگزیکٹو بورڈ کے صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے کو اس حوالے سے تفصیلی بریفننگ دی گئی۔