اسکول نا کھپے!
کینیڈا میں اکثردیکھا ہے کہ جب دو پاکستانی ملتے ہیں توان کی گفتگو کا موضوع موبائل فون پلان یا امیگریشن ہوتا ہے۔
مگر رواں ہفتے کینیڈین پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہونے والی فائرنگ نے پاکستانی نژاد کینیڈین شہریوں کوایک بار پھر نائن الیون کی وہ صبح یاد کرادی جس کا خمیازہ ان کا وطن عزیز پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ کینیڈین اداروں نے سن دو ہزارچھ میں جب دہشت گردی کی ایک بڑی واردات کوناکام بنایا تواس میں پاکستانی نژاد شہری بھی ملوث تھے۔
مجھےاس موقع پرکیلگری شہر کے ایک "دانشور" ٹیکسی ڈرائیور کی کہی ہوئی وہ بات یاد آگئی کہ "نائن الیون کے بعد سےدنیا میں کسی شخص کو کہیں بھی بدہضمی ہوجائے تو دال کا تعلق پاکستان کے شہر لالہ موسی سے ہی نکلتا ہے"۔
اکثر پاکستانی خدا کا شکراداکر رہے ہیں کہ اس حالیہ حملے کا پاکستان یا کسی پاکستانی سے کوئی تعلق نہیں۔ مگروہ پاکستانی افسردہ ہیں جو کسی بھی موقع پر پاکستان کو بدنام کرکے پاکستان کے بجائے اپنا نام روشن کرنے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
کینیڈا شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ میں قانونی اورغیرقانونی طور پر بسنے والے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کو پناہ دی، جس سے لاکھوں گھروں کے چولہے جل رہے ہیں۔
جس کا نتیجہ ہے کہ آج اس پرامن ملک میں پاکستانیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور نئے آنیوالوں کی ایک لمبی لائن عنقریب اس ملک میں آکر پاکستان کے زر مبادلہ میں مزید اضافہ کرے گی۔
اس کے علاوہ پاکستان میں کینیڈین خیراتی اداروں نے گزشتہ برسوں میں کئی ملین ڈالرز خرچ کیے ہیں۔
اب میرے عزیزہموطنوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس خوبصورت اور پرامن ملک میں دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئی اپنی صفوں میں کسی دہشت گرد کو نہ گھسنے دیں۔ ورنہ اس کا خمیازہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ان کی کینیڈا میں پلنے والی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
مجھے ان افراد سے کچھ نہیں لینا دینا جن کے ذاتی نام پر کینیڈا کی کئی مساجد کی رجسٹریاں ہیں مگر ان سے گذارش ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ہونے والی کسی بھی واردات کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
مجھے کینیڈا میں گجرات، کراچی، راولپنڈی اور لاہوری گروپوں کی آپس میں لڑائیوں سے کوئی غرض نہیں مگر ان سے درخواست ہے کہ اپنی ذاتی لڑائیوں کے بجائے اپنی نوجوان نسل کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
مجھے ان فوٹو گروپوں سے کوئی دشمنی نہیں جنہوں نے ساری عمر صرف مقامی اخبارات میں نان کباب ڈنرکی تقریبات کو "سیمینار" کے نام پر بیچ کر کینیڈین حکومت کو چونا لگایا ہے۔ مگر میری ایک خواہش ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کے لیے کوئی ایسی تقریب منعقد کریں جو وقت پر شروع ہو اور اس میں ان کے کینیڈا میں پلنے بڑھنے والے ان کے اپنے بچے بھی شرکت کی خواہش کریں۔
میری کیا مجال میں ان خاندانوں کو کچھ کہوں جنہوں نے ایک ہی گھر میں "پاکستان - کینیڈا" دوستی، بزنس کونسل، ترقی اردو، کلچر کلب، امن کمیٹی، وغیرہ وغیرہ کے نام پر گھر کے ہرفرد کے حصے میں ایک فلاحی تنظیم رجسٹر کرا رکھی ہے۔ میرا دوست ظالم جلالپوری ان جعلی تنظیموں کو پیار سے یکنفری تنظیموں کا نام دیتا ہے۔ مگر کاش یہ جعلساز پاکستان کینیڈا کے نام پر کوئی ایسا اچھا کام کردیں کہ پاکستان کے بڑے بڑے فنکاروں کے ویزے پھر سے لگنے شروع ہو جائیں۔
جس دن پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اسی دن ملالہ کینیڈا آرہی تھی۔ ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملنے پر کینیڈین عوام نے نہ صرف ملالہ کو کینیڈین شہریت دینے پر خوشی منائی ہے بلکہ پاکستان میں تعلیم کی ترقی کے لیے اقدامات کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔
مگر پاکستان کی طرح یہاں بسنے والے پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ملالہ کی مخالفت کی ہے۔ اس کا "فائدہ" یہ ہوا کہ پاکستانیوں کے علاقے ملٹن میں بننے والے نئے سکول کا نام فخر پاکستان ملالہ کے نام سے منسوب ہوتے ہوتے رہ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی کینیڈینز کے پاس ملالہ کا نوبل جیتنا ایک اہم موقع ہے جوپاکستان کا امیج اس معاشرے میں بہترکرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ مگر کیا کریں ہم تو سمندر کے اس پار بھی رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے نام پر بٹے ہوئے ہیں۔ ترقی کیا خاک کریں گے۔
کل جب حال ہی میں اسلام قبول کرنے والی ایک نومسلم کینیڈین خاتون نے ملالہ کو ناپسند کرنے والے مسلمان پاکستانیوں اور ملالہ کو ملنے والی عزت کےبارے بات کرتے مجھے قران کی اس آیت؛
وتعز من تشاء و تذل من تشاء -- (آلِ عمران 26) کا حوالہ دیا تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کی ہم دونوں میں سے مسلمان کون ہے؟
محسن عباس ایوارڈ یافتہ پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، فلمساز اور صحافتی آزادی کے کارکن ہیں۔ وہ کینیڈا میں نئے آنے والوں اور امیگرینٹس کے لیے متعدد زبانوں کی ہفتیوار اخبار ڈائیورسٹی رپورٹر کے ایڈیٹر ہیں۔
محسن عباس سے اس ای میل editor@diversityreporter.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔