ٹرک میں رکھے ایٹمی بجلی گھر سے 80,000 گھر روشن!
یہ ایک غیر معمولی خبر ہے۔ اگر اس میں ’’اسکنک ورکس‘‘ کا حوالہ موجود نہ ہوتا تو شاید میں اس پر کبھی یقین نہ کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی اسکنک ورکس سے کئی ایسی ٹیکنالوجیز نے جنم لے چکی ہیں جن پر پہلے کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔
یہ خبر ایک نیوکلیئر ری ایکٹر کے بارے میں ہے۔ یہ صرف تین میٹر لمبا اور تین میٹر چوڑا ہے (یعنی ایک بڑے ٹرک میں آسانی سے سماسکتا ہے)۔ یہ کئی سال تک مسلسل 100 میگاواٹ بجلی بناسکتا ہے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کئی سال تک 80,000 گھروں میں بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہے۔ بجلی بنانے کےلیے اسے بہت ہی خاص طرح کے ایٹمی ایندھن (Deuterium-Tritium Fuel) کی ضرورت ہے... مگر وہ بھی پورے سال میں صرف 25 کلوگرام جتنے فیول کی۔
لیکن ٹھہریے! فی الحال یہ ری ایکٹر آپ کو کہیں سے نہیں ملے گا کیونکہ ابھی تو اس پر لاک ہیڈ مارٹن کے مشہور ذیلی ادارے اسکنک ورکس میں کام ہورہا ہے۔ اسکنک ورکس والوں کا کہنا ہے کہ اب تک وہ لیبارٹری میں اس کے چھوٹے ڈیزائن کی کامیاب ٹیسٹنگ کرچکے ہیں۔ اگلے پانچ سال تک وہ اس کا پروٹوٹائپ تیار کرلیں گے، جبکہ مزید چار سے پانچ سال میں اس کا ’’فائنل ورژن‘‘ بھی پیش کردیں گے۔ اسے کومپیکٹ فیوژن ری ایکٹر (سی ایف آر) کا نام دیا گیا ہے۔
فزکس جاننے والے یہ نام (سی ایف آر) دیکھ کر ہی چونک گئے ہوں گے، کیونکہ جسے ہم عام زبان میں ’’ایٹمی بجلی گھر‘‘ کہتے ہیں، وہ دراصل ’’فشن ری ایکٹر‘‘ ہوتا ہے؛ جس میں کسی بھاری ایٹم (مثلاً یورینیم) کا نیوکلیئس توڑنے پر خارج ہونے والی توانائی کو بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ [ٹھیک یہی اصول ایٹم بم کا بھی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اس طرح کا ایٹمی بجلی گھر انسان کے قابو سے باہر ہوجائے تو پھر وہ ایٹم بم بن جاتا ہے]۔
جب نیوکلیئر انرجی کی بات ہوتی ہے، تو انسان کی زیادہ امیدیں ’’فیوژن ری ایکشن‘‘ سے وابستہ ہیں؛ کیونکہ فیوژن سے پیدا ہونے والی توانائی، فشن کے مقابلے میں نہ صرف بہت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں خطرناک ریڈی ایشنز بھی بہت کم نکلتی ہیں۔ یعنی فیوژن انرجی کو ہم فشن کے مقابلے میں بہت صاف ستھری اور ’’انسان دوست‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسکنک ورکس میں جس ’’چھوٹے فیوژن ری ایکٹر‘‘ پر کام ہورہا ہے، وہ بھی فیوژن ری ایکشن ہی کے ذریعے بجلی بنائے گا۔
لیکن فیوژن ری ایکٹر کا معاملہ اتنا آسان نہیں کہ جتنا یہ نظر آرہا ہے۔ لہٰذا، پہلے کچھ پس منظر بتانا ضروری ہوگا۔
نیوکلیئر فیوژن میں دو ہلکے ایٹموں (مثلاً ہائیڈروجن یا ہیلیم) کے نیوکلیئس اکٹھے کرکے ایک نسبتاً بھاری نیوکلیئس بنایا جاتا ہے، جس سے زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی اصول پر ہمارا سورج بھی پچھلے پانچ اَرب سال سے روشن ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر زندگی کی ایک وجہ، سورج پر مسلسل جاری فیوژن ری ایکشن بھی ہے۔ فیوژن ہی کی بدولت اس کائنات کے تمام ستارے بھی روشن ہیں۔
کائناتی پیمانے پر فیوژن کی خوبیاں اپنی جگہ، لیکن یہ عمل آج تک اس طرح انسان کے قابو میں نہیں آسکا ہے کہ جس طرح ہم نے فشن کو اپنے بس میں کرکے ایٹمی بجلی گھر بنالیے ہیں۔ امریکا میں ایڈورڈ ٹیلر اور سابق سوویت یونین میں آندرے سخاروف نے کوئی ساٹھ سال پہلے فیوژن سے استفادہ کرنے والا ’’ہائیڈروجن بم‘‘ ایجاد کرلیا تھا۔ اسے ’’تھرمونیوکلیئر بم‘‘ بھی کہتے ہیں جس کی دھماکا خیز طاقت ایٹم بم کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ البتہ، اس سے پھیلنے والی تباہی کی وجہ زبردست دھماکا اور شدید گرمی ہوتی ہے نہ کہ وہ ریڈی ایشنز، جو فشن کے اصول پر کام کرنے والے ایٹم بم سے نکلتی ہیں۔
تقریباً اسی زمانے سے فیوژن ری ایکٹر بھی کام ہورہا ہے... لیکن یہ کام آج تک ادھورا ہے۔
اسی طرح کمرشل فیوژن ری ایکٹر بنانے میں بھی کئی مشکلات ہیں۔ یعنی ایسا فیوژن ری ایکٹر جس پر پیسہ لگایا جائے تو وہ کچھ کماکر بھی دے! اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ’’انٹرنیشنل تھرمونیوکلیئر ایکسپیریمنٹل ری ایکٹر‘‘ (آئی ٹی ای آر) کہلانے والے ایک منصوبے میں امریکا، یورپین یونین، کوریا، روس، چین، جاپان اور ہندوستان شامل ہیں لیکن اب بھی اس پر ’’ابھی کچھ دن لگیں گے‘‘ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسے بہت ہی ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی چاہیے، اور دوسری یہ بہت زیادہ مہنگا ہے۔
فیوژن ری ایکٹر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’پلازما‘‘ ہے۔ یہ رگوں میں دوڑتے پھرنے والے خون کا پلازما نہیں بلکہ نیوکلیئر فزکس کا پلازما ہے... ایسی شدید گرم گیس جس میں نیوکلیئس اور الیکٹرون ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں۔ فیوژن فیول کو پلازما کی شکل میں لانا، اسے ایک جگہ بند کرکے فیوژن ری ایکشن کروانا، اس ری ایکشن سے توانائی پیدا کرنا اور اس توانائی سے بجلی بنانا؛ یہ صرف مشکل نہیں بلکہ بہت ہی مشکل ہے۔
ویسے فزکس والوں کو اپنے نکمے پن پر بائیولوجی والوں سے معافی مانگنی چاہیے کیونکہ فشن، فیوژن اور پلازما سمیت، فزکس کے بہت سے مخصوص الفاظ ایسے ہیں جو انہوں نے بائیولوجی ہی سے ’’چوری‘‘ کیے ہیں۔
خیر! تو میں یہ بتا رہا تھا کہ لاک ہیڈ مارٹن نے اپنی ایک تازہ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے ساٹھ سال سے اس کے انجینئر اور سائنسدان بھی فیوژن ریسرچ میں مصروف تھے۔ برسوں کی محنت اور کروڑوں ڈالر کا سرمایہ لگانے کے بعد آخرکار اب وہ پلازما کو بہت کم جگہ میں ’’قید‘‘ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور یہی وہ کارنامہ ہے جو اس ’’کومپیکٹ فیوژن ری ایکٹر‘‘ کی بنیاد بھی ہے۔
لاک ہیڈ مارٹن کا کہنا ہے کہ سی ایف آر، اب تک بنائے گئے کسی بھی دوسرے نیوکلیئر ری ایکٹر کے مقابلے میں دس گنا چھوٹا ہے۔ اگرچہ اسے خاص طور پر مستقبل کے بحری بیڑے اور خلائی جہازوں کے لیے تیار کیا جارہا ہے تاکہ انہیں کئی سال تک فیول کی ضرورت ہی نہ پڑے، لیکن ساتھ ہی ساتھ دوسرے مقاصد میں بجلی کی ضروریات بھی پوری کرسکے گا۔ یہ پورے سال کے دوران اپنے مخصوص ’’ڈیوٹیریئم ٹریٹیئم‘‘ فیول کی صرف پچیس کلوگرام مقدار استعمال کرتے ہوئے 100 میگاواٹ بجلی بناتا رہے گا۔ یہ بجلی، اتنی ہی مقدار والے فوسل فیول (کوئلے، گیس اور تیل) کے مقابلے میں دس کروڑ گنا زیادہ ہوگی!
تیار ہوجانے کے بعد یہ عام فروخت کےلیے دستیاب ہوگا یا نہیں؟ اگر ہاں، تو پھر اس کی قیمت کتنی ہوگی؟ اسے لگانے سے لے کر چلانے تک کے اخراجات کتنے ہوں گے؟ فی الحال ان سوالوں کا کوئی جواب موجود نہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ جیسے جیسے فوسل فیول کے ذخائر ختم ہوتے جارہے ہیں، متبادل فیول کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ سال پہلے ’’ہائپریون‘‘ نامی ایک کمپنی نے چھوٹا فشن ری ایکٹر تیار کیا تھا جسے انہوں نے ’’نیوکلیئر بیٹری سیل‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ صرف 120 مربع گز کے چھوٹے سے پلاٹ میں سما سکتا ہے اور 25 میگاواٹ کے حساب سے لگاتار سات سال تک بجلی بناسکتا ہے۔ آج یہ کمپنی Gen4Energy کے نام سے کام کررہی ہے۔
پاکستان میں بھی بجلی کا مسئلہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے۔ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے باوجود ہزاروں روپے کے بلوں نے عام لوگوں کو بلبلانے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں ’’آلٹرنیٹ انرجی‘‘ اور ’’رینیوایبل انرجی‘‘ کے نام سے منصوبوں کے فیتے تو کاٹے جاتے ہیں لیکن عملاً اس شعبے میں کام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ اور تو اور پاکستان اُن خوش نصیب ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں یورینیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ مان لیا کہ ’’نیوکلیئر ڈیٹرنس‘‘ کےلیے ایٹم بم ضروری ہے۔ مگر جس طرح ایٹم بم بنانے کےلیے کسی اعتراض کو خاطر میں نہیں لایا گیا، کیا اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم ایٹمی بجلی گھر بنانے اور ملک میں بجلی کا بحران ختم کرنے کےلیے نیوکلیئر انرجی کو فروغ دیں؟
معلوم ہے کہ ایک سائنس جرنلسٹ کی بکواس پر کوئی دھیان نہیں دے گا۔ لیکن کیا پتا کہ کسی کے دل میں میری بات اُتر ہی جائے۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔