بجلی کے بغیر ٹھنڈک کرنے والا، غریبوں کا ریفریجریٹر
خبردار! اس تحریر کو خبر سمجھ کر نہ پڑھا جائے۔
کبھی کبھی سائنس کے بہت ہی سادہ اصول نہایت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ اس ’’ریفریجریٹر‘‘ کا ہے جسے آج سے پندرہ سال پہلے نائجیریا میں اسکول کے ایک معمولی سائنس ٹیچر، محمد باہ ابا مرحوم نے ایجاد کیا تھا۔ اس سادہ لیکن حیرت انگیز ایجاد پر انہیں 2000ء میں رولیکس ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
’’غریبوں کا ریفریجریٹر‘‘ جیسا کہ اسے نام دیا گیا ہے، بجلی استعمال کیے بغیر ہی مختلف سبزیوں اور پھلوں کو ایک ہفتے تک باآسانی محفوظ رکھ سکتا ہے۔
اسے بنانے کا طریقہ اتنا سادہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک کمہار بھی آسانی سے نہایت کم خرچ پر اسے تیار کرسکتا ہے۔
سب سے پہلے چکنی مٹی کے دو مٹکے بنائیے: ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا۔ دونوں مٹکوں کے منہ کشادہ ہونے چاہیئں اور دونوں کے ڈھکنے بھی چکنی مٹی ہی کے ہوں۔ چھوٹے مٹکے کی اندرونی سطح تھوڑی سی گلیزڈ کردیں گے تو اچھا رہے گا۔
اب بڑے مٹکے کی تہہ میں تھوڑی سی مٹی بھر کر، چھوٹا مٹکا اس میں رکھ دیجیے۔ پھر چھوٹے اور بڑے مٹکے کے درمیان والی خالی جگہ میں بھی مٹی بھر دیجیے۔ وہ مٹی جو گملوں میں بھری جاتی ہے (اور جو ’’بالو مٹی‘‘ کے نام سے نرسریوں پر دستیاب ہوتی ہے) اس کام کے لیے مناسب رہے گی۔ صرف اتنا خیال رہے کہ اس مٹی میں کنکر پتھر اور پتے وغیرہ نہ ہوں۔ آخر میں ان دونوں مٹکوں پر ان کے ڈھکنے لگا دیجیے۔ مبارک ہو! آپ کا ریفریجریٹر تیار ہے۔
اس ریفریجریٹر سے کام لینے کے لیے پھل یا سبزیاں، جو کچھ بھی اس میں رکھ سکتے ہوں، رکھ دیجیے۔ مٹی کی تھوڑی سی ترائی کردیجیے۔ مطلب یہ کہ دونوں مٹکوں کے درمیان موجود مٹی میں اتنا پانی ڈالیے کہ اس میں نمی آجائے۔ زیادہ پانی ڈالیں گے تو مٹی، کیچڑ میں تبدیل ہوجائے گی اور آپ کے اس ریفریجریٹر کا ستیاناس کردے گی۔ اب دونوں مٹکوں کے ڈھکنے واپس لگادیجیے۔ اس کے اندر رکھے ہوئے پھل اور سبزیاں ہفتے بھر تک نہیں سڑیں گے۔ البتہ، اگر موسم بہت زیادہ گرم اور خشک ہو تو احتیاطاً روزانہ چیک کرتے رہیئے۔ اگر محسوس ہو کہ مٹی خشک ہونے لگی ہے تو ایک یا دو گلاس پانی سے ترائی کردیجیے۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس میں کوئی جادو ہے، تو اپنی غلط فہمی درست کرلیجیے... یہ سائنس ہے جناب؛ اور وہ سائنس جو بچوں کو پرائمری میں پڑھائی جاتی ہے۔
سادہ سی بات ہے: جب پانی سے بھاپ بنتی ہے تو ہوا میں اُڑ جاتی ہے؛ لیکن اپنے پیچھے ٹھنڈک (کم گرمی) چھوڑ جاتی ہے۔ اسی لیے جب آپ پسینے میں شرابور ہو کر گھر پہنچتے ہیں اور پنکھے کی ہوا میں بیٹھتے ہیں، تو پسینے کے بھاپ بننے کی وجہ سے آپ کو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ ارے بھئی پسینہ بھی تو آخر کو نمکین پانی ہی ہوتا ہے ناں!
ٹھیک اسی اصول پر چکنی مٹی سے بنے مٹکوں اور صراحیوں میں بھی پانی ٹھنڈا رہتا ہے (چاہے باہر کتنی ہی شدید گرمی کیوں نہ ہو)۔ ہوتا یہ ہے کہ چکنی مٹی میں بہت ہی باریک باریک سوراخ (مسام) ہوتے ہیں جن کے راستے تھوڑا تھوڑا پانی، مسلسل باہر رِستا رہتا ہے۔ باہر گرمی کی وجہ سے جب یہ پانی، بھاپ بنتا ہے تو اپنے پیچھے ٹھنڈک چھوڑ جاتا ہے جو مٹکے/ صراحی اور اس میں موجود پانی کو بھی ٹھنڈا کرتی ہے۔
محمد باہ ابا مرحوم نے صرف اتنا کیا کہ یہی اصول تھوڑا سا بہتر کرکے استعمال کرلیا۔ اس سادہ سی ٹیکنالوجی کو ’’برتن میں برتن‘‘ (Pot-In-Pot) کا نام دیا گیا، جسے نائجیریا کے بعد کئی افریقی ممالک میں مقبولیت حاصل ہوئی۔
روایتی مٹکوں میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ پھل اور سبزیاں جنہیں ایک سے دو دن تک بھی محفوظ رکھنا مشکل تھا، بہت آرام سے ہفتے بھر تک محفوظ رکھی جانے لگیں۔ اس طرح غریب اور کم وسائل رکھنے والے لوگ بھی ہر روز سبزیاں خریدنے کی جھجھٹ سے آزاد ہوگئے۔
ٹائم میگزین نے محمد باہ ابا کے اس ریفریجریٹر کو 2001ء کی بہترین ایجادوں میں شمار کیا۔
لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آخر میں یہ سب کچھ کیوں لکھ رہا ہوں؟ ان سب باتوں کو معلومات تو کہا جاسکتا ہے لیکن خبر یا بلاگ ہر گز نہیں۔ یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض مرتبہ سائنس کی دنیا میں اپنا مقام بنانے اور خود کو منوانے کےلیے نہ تو پانی سے کار چلانے کی ضرورت پڑتی ہے، نہ سائنٹسٹ بننا پڑتا ہے اور نہ ہی کوئی راکٹ اُڑانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی صرف سائنس کے بنیادی اصولوں کو سمجھ کر، ایک عام اسکول ٹیچر بھی کوئی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ساری دنیا کو حیران کردے۔ محمد باہ ابا مرحوم نے بالکل یہی کیا۔
اسکولوں میں پڑھانے والے سائنس ٹیچرز اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ضرور بتائیں۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔