نقطہ نظر

ملالہ اور مغرب

مغرب دنیا بھر میں اپنے کارناموں کی وجہ سے قابلِ نفرت ہے، کیا ملالہ بھی لڑکیوں کی تعلیم کا حق مانگنے پر قابلِ نفرت ہے؟

10 اکتوبر 2014 کو جیسے ہی ملالہ یوسفزئی کو نوبیل انعام دیے جانے کا اعلان ہوا، تو ملک کی آدھی عوام خوشیاں منانے لگی، آدھی نے سخت مذمت کی، جبکہ آدھی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں یہ تعداد پوری طرح درست نہیں ہے، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کبھی بھی سیاست اور سماج میں منطق کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہی ہے، تو ایسے میں نمبرز پر کیا بحث کی جائے۔

اس لیے پاکستانی سوشل میڈیا، امیروں کے ڈرائنگ رومز، اور مڈل کلاس کے ذہنوں میں یہ تاثر عام ہے کہ کیونکہ ڈرون حملے غلط ہیں، اس لیے ملالہ کو نوبل پرائز نہیں ملنا چاہیے۔ صرف پاکستان کی غریب لڑکیاں ہی ہیں جنہیں ملالہ کی مثال، اور اس کے عالمی پذیرائی سے ہمت ملی ہے، اور اب وہ بھی تعلیم کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔

ملالہ کے نوبیل پرائز جیتنے پر کس طرح مایوسی پھیلی ہوئی ہے، اس کا اندازہ برطانوی صحافی اسد بیگ کے گذشتہ سال لکھے گئے مضمون "Malala Yousufzai and the White Savior Complex" سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ مغرب نے ہی ملالہ کو موت سے بچایا، اور مغرب نے ہی ملالہ کو اپنی سخاوت کی ایک شاندار مثال بنایا ہے، تاکہ مسلم ممالک میں اپنی نافذ کردہ جنگوں پر اپنی ندامت کو کم کیا جاسکے۔ اور یہ مضمون اب تک میرے سامنے کوئی آدھا درجن دفعہ اس ثبوت کے طور پر پیش کیا جاچکا ہے، کہ ملالہ کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد مغربی سازش ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور مضمون "Why I can't celebrate Malala Yousufzai's Nobel Win" ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مغرب دنیا کے دوسرے مسلم ممالک جیسے شام، عراق، اور افغانستان میں مسلم لڑکیوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔

لکھاری کہتے ہیں کہ ملالہ کی کہانی ایشیائی ظلم اور جبر کی کہانیوں میں اچھی طرح فٹ ہوجاتی ہے۔ خفیہ ایجنڈے، قبضے، اور ڈرون حملے، یہ سب کچھ ملالہ کی نوبیل جیت کے ساتھ ساتھ جاری ہے، اسی لیے یہ کہا جارہا ہے کہ یا تو اس کی اہمیت اتنی نہیں، یا اس کی اہمیت ہے ہی نہیں۔

اسد بیگ کی تھیوری تو کئی سطحوں پر غلط ہے۔ اگر اس پر ٹیکنیکل انداز میں بات کی جائے، تو ملالہ کی جان مغرب نے نہیں، بلکہ پاکستان آرمی کے ڈاکٹروں نے پاکستان کے چار مختلف ہسپتالوں میں اسے جان بچانے والی ٹریٹمنٹ دی تھی، جس کے بعد اسے ہوائی جہاز کے ذریعے مزید علاج کے لیے برطانیہ منتقل کردیا گیا۔ ملالہ نے چہرے میں گولی لگنے کے باوجود اگر دوبارہ زندگی پائی، تو وہ ان ڈاکٹروں کی وجہ سے، اپنے خاندان کی سپورٹ کی وجہ سے، گورڈن اور سارہ براؤن کی وجہ سے، اور جینے کے لیے اپنی امنگ کی وجہ سے ہے۔

اس کی صحت کی "معجزانہ" بحالی کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرانا شاید الزامات عائد کرنے والوں کے اپنے تحفظات اور خیالات کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی مغربی سازش کی وجہ سے۔ مغرب میں تو کچھ لوگوں نے ملالہ کے برطانیہ میں علاج پر تب بھی اعتراض کیا تھا، جبکہ پورا خرچہ حکومتِ پاکستان نے اٹھایا تھا، نہ کہ برطانیہ کے ٹیکس دہندگان نے۔

اس کے علاوہ امریکی حکومت میں موجود لوگ بھی طالبان یا اسلامک اسٹیٹ پر حملہ کرنے سے پہلے ملالہ یوسفزئی کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ملالہ کی زندگی کے اس حیرت انگیز واقعے کو نہ سمجھ پانے پر اسے مغربی اور سامراجی سازش کا روپ دیا جارہا ہے۔

مغرب اور باقی کی دنیا میں تمام باضمیر اور ہوشمند لوگوں کو سامراجیت کے مسئلے پر سوچنا چاہیے، لیکن ملالہ کی نوبیل جیت کی قیمت پر نہیں۔ ڈیمن لینچ نے دوسرے مضمون پر تبصرہ کرتے ہئوے کہا تھا کہ جنگ چاہنے والے ہمیشہ ملالہ کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، کیونکہ یہی ان کا کام ہے، وہ ہر قابلِ احترام اور عظیم چیز کو لے کر اسے اپنے مفادات کے لیے توڑ مروڑ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ توقع ہونی چاہیے، اور اس کے خلاف لڑنے سے تھکنا نہیں ہے"۔

پاکستان میں ہمیں ملالہ کے نوبیل امن انعام اور عالمی طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کو ڈرون حملوں سے ملانا بند کرنا ہےگا۔ ورنہ ملالہ اور اس جیسی دوسری لڑکیاں ہمیشہ استحصال کا شکار رہیں گے، اور تعلیم تک رسائی نا ہونے کے مسئلے کو کوئی اہمیت نہیں ملے گی۔

ملالہ اور اس کے کام کو مغربی سازش قرار دے کر ہم دو مسائل کے درمیان موجود فرق کو ختم کر رہے ہیں۔ مغرب کے خلاف ہمارا یہ نکتہ نظر ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کو سیکیولرازم قرار دینے کی طرف لے جارہا ہے۔

پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم تک تب بھی رسائی حاصل نہیں تھی، جب ڈرون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اگر ڈرون حملے کل بھی بند ہوجائیں، تب بھی ایک کروڑ تیس لکھ بچیاں اسکول نہیں جاپائیں گی۔ اب وقت ہے کہ ہم ڈرون اور سامراجیت پر سیاست کو ایک طرف رکھ کر سوچیں، کہ مغرب تو چلیں دنیا بھر میں اپنے کارناموں کی وجہ سے قابلِ نفرت ہے، کیا ملالہ تمام لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حق مانگنے پر بھی قابلِ نفرت ہے؟ اس بات کا منطقی جواب ڈھونڈیں، سب سمجھ آجائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری مصنفہ ہیں، اور ٹوئٹر پر @binashah کے نام سے لکھتی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

بینا شاہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔