بدلتا سیاسی منظرنامہ
کسی ایک جگہ کے نتائج کے اثرات کا ہر جگہ اثرات مرتب کرنے کے مجموعی تاثر کے خطرے کے ساتھ ملتان کے ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوگیا ہے، پہلا نکتہ تو یہ سامنے آتا ہے کہ نظریاتی سیاست مردہ ہوچکی ہے، دائیں اور بائیں کی تقسیم کی اصطلاح جس کی بنیاد پر ہم گزشتہ چار دہائیوں سے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے تھے اب کوئی مفید تجزیاتی ٹول نہیں رہا۔
وہ جن کا سیاسی شعور ساٹھ کی دہائی کے آخر اور ستر کی دہائی کے اوائل میں دائیں اور بائیں بازو، حقوق، لبرل ازم اور قدامت پسندی کے نتیجے میں ترتیب پایا، وہ اب اقلیت میں ہیں، اب 23.5 سال کی اوسط عمر کے سیاست سے متاثر پاکستانی نوجوان غیرنظریاتی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
دوسری بات یہ کہ نوے کی دہائی میں ابھرنے والا دوجماعتی نظام اب تبدیلی کی زد میں ہے، پی ٹی آئی نئی مرکزی جماعت کی شکل میں ابھر رہی ہے جس نے روایتی اہم جماعتوں یعنی نواز لیگ اور پی پی پی کو اپنی بقا کی جدوجہد پر مجبو کردیا ہے، مگر غیرنظریاتی ماحول میں سہ فریقی مقابلہ ن لیگ کے مقابلے میں پی پی پی کے لیے زیادہ بری خبر ہے، نوے کی دہائی کا یہ تصور کہ ناخوش پی پی پی ووٹر کسی اور جماعت کو ووٹ دینے کی بجائے گھر میں رہنے کو ترجیح دے گا، اب دم توڑ چکا ہے، اب نظر آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کا ووٹر پی ٹی آئی کا انتخاب کررہا ہے۔
تیسری چیز پنجاب کے حوالے سے ہے جہاں پی پی پی کے زوال (یا اختتام) سے ووٹرز کی ہمدردیوں کی منتقلی کی شرح بڑھی ہے، کسی سیاسی جماعت کے منشور یا نظریے سے منسلک نہ ہونے والے یہ ووٹر کہیں بھی منتقل ہوسکتا ہے(اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جماعتوں کے سماجی معاشی ایجنڈوں میں کوئی خاص فرق نہیں، جبکہ ان کے منشور میں بمشکل ہی امتیاز کیا جاسکتا ہے)۔
یہ تیرتے ہوئے ووٹرز چہروں کی بنیاد پر انتخاب کرتے ہیں، نظریات کے نہ ہونے یا ناقابل یقین دعوﺅں پر مشتمل اصلاحی ایجنڈے کے باعث اس انتخاب کا انحصار ساکھ، پرکشش الفاظ میں خطاب اور اعلیٰ قیادت کی کشش پر ہوتا ہے۔
چوتھا امری یہ کہ شہری پنجاب کا اوسط ووٹر لگتا ہے کہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاکستان کو درپیش بحران کا باعث ایماندار اور قابل قیادت کا نہ ہونا ہے، ان کا انتخاب ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان نہیں بلکہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے(جو پنجاب میں پی پی پی کے زوال یا خاتمے کی وضاحت کرتا ہے)، ایسا نظر آتا ہے کہ جو نواز شریف کے شہنشاہانہ انداز کو ناپسند کرتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے سے تبدیل کردینا ہر مرض کی دوا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی جس قسم نے عوامی تصور کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے وہ یہ ہے کہ غیرآزمائے افراد کی حکومت کو آزمایا جانا چاہئے۔
پانچواں یہ ہے کہ ہماری کسی بھی مرکزی جماعت نے ایسا ایجنڈہ مرتب نہیں کیا جو عوامی توجہ کو اپنی جانب کھینچ سکے(جیسے بھٹو کا روٹی، کپڑا اور مکان)، تبدیلی کی امید کا انحصار ایک ایسے مسیحا سے جڑ جاتا ہے جو معجزانہ طور پر تمام مسائل کو حل کردے، ہم عصر سیاسی تنازعات کسی رہنما کے فرائض اور تبدیلی کی وضاحت کرتے ہیں، عمران خان نے اپنا برانڈ سسٹم سے باہر رہنے اور اسسٹیٹس کو سمبل کے خلاف تبدیلی کی بنیاد پر تعمیر کیا ہے، ان کے سحر میں گرفتار حامی ہر اس شخص کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں جو اس تبدیلی کا ایک ایجنٹ بن جائے۔
جاوید ہاشمی اس وقت تک تبدیلی کی علامت تھے جب وہ عمران خان کی درست سائیڈ پر کھڑے تھے اور جیسے عمران خان سے الگ ہوئے وہ پرانے شیطانی نظام کا حصہ بن گئے، کیا ناقدین کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ پی ٹی آئی پرانی شراب کو نئی بوتل میں تقسیم کررہی ہے(شاہ محمود قریشی اور عامر ڈوگر ملتان میں جبکہ شیخ رشید راولپنڈی میں تبدیلی کی نمائندگی کررہے ہیں)؟ سیاسی انتظامی مہم مٰں نچلے طبقے کے افراد کو اپنے نظریات کا حصہ بنایا جاتا ہے اور پی ٹی آئی عمران خان کو اس مقصد کے لیے منتخب اراکین کی صفائی کے ایجنٹ کے طور پر استعمال کررہے ہیں، اور ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ حکمت عملی کام کرتی نظر آرہی ہے۔
بھٹو 1970 کے انتخابات میں کسی کھمبے کو بھی اپنا امیدوار قرار دیتے تو وہ جیت جاتا، یعنی انہیں اتنا مانا جاتا تھا، یہ بھٹو کا کرشمہ تھا کہ جو ایک اصلاحاتی ایجنڈے کے ذریعے تبدیلی کے وعدے سے مزئین تھا جس کی بدولت ہی اس دور میں پی پی پی کے نامزد امیدوار کامایب ہوئے، 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں سے یہ تاثر قائم ہوا کہ اب عمران خان ووٹرز کو باہر لانے والے بن چکے ہیں، تاہم ووٹرز کو باہر لانے سے انہیں وہاں کامیابی ملی جہاں کے مقامی امیدواروں کی ساکھ اچھی تھی، یہ خیال اس وقت مزید مستحکم ہوا جب پی ٹی آئی کو خراب امیدواروں کو نامزد کرنے کی قیمت اپنے سربراہ کی پشاور اور میانوالی کی جیتی ہوئی نشستیں چھوڑنے کے بعد ضمنی انتخابات میں ناکامی کی صورت میں چکانا پڑی۔
ملتان کے ضمنی انتخابات کا حقیقی پیغام بلاواسطہ ن لیگ اور لازمی طور پی پی پی پنجاب کے لیے تھا کہ اس کا خاتمہ ہورہا ہے، کیا یہ پی پی پی سے تاحال منسلک سیاسی خاندانوں اور برادریوں کے لیے کوئی مطلب رکھتا ہے(جیسے عامر ڈوگر جنوبی پنجاب میں پی پی پی کے سابق سیکرٹری جنرل تھے)؟ اور اس وقت کیا ہوگا جب پی ٹی آئی کسی طرح پی پی پی کے دل لاڑکانہ میں جلسے کے موقع پر بڑی تعداد میں افراد کو کھینچ لائے گی تاکہ اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرسکے کہ اس کا پیغام پاکستان بھر میں پھیل رہا ہے؟
یوسف رضا گیلانی کی تمام تر کوششوں کے باوجود پی پی پی ملتان میں صرف چھ ہزار ووٹ ہی حاصل کرسکی(2013 سے پہلے جنوبی پنجاب پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا) اور ایسا نظر آتا ہے کہ اسے سندھ میں بھی اپنے حامیوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پنجاب میں یہ پیغام سننا بہت آسان ہے کہ اگلا انتخابی معرکہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا جبکہ پی پی پی سائیڈشو بن چکی ہے، لاڑکانہ کے جلسے کے بعد پی پی پی کے وہ حلقے جو پنجابی سیاست میں اپنے کیرئیر کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ممکنہ طور پر ڈوبتے ہوئے جاہز سے چھلانگ لگا کر پی ٹی آئی کا حصہ بن جائیں، اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے سیاست ایک سے دوسری جماعت میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
کیا یہ تبدیلی کے وقت کے لیے بامقصد ہے؟ پی ٹی آئی کے لیے بدقسمتی یہ ہے کہ تبدیلی کے علمبردار خود تبدیل نہیں ہوئے، ملتان کا انتخاب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگرچہ جلسے عوامی رائے میں تبدیلی کے لیے اہم ہے تاہم عوای مینڈیٹ انتخابات سے ہی سامنے آتا ہے، دو غیرنمائندہ ادارے جو کسی حد تک وسط مدتی انتکابات کی ترغیب دے سکتے ہیں وہ فوج اور عدلیہ ہیں، جب خاکی وردی والے شارع دستور میں حالیہ تنازعے کے دوران مداخلت کرسکتے تھے تو آرمی چیف نے کہا تھا نو تھینک یو، وہ 2016 کے اختتام سے پہلے ریٹائر نہیں ہوں گے۔
افتخار چوہدری کے بعد کی عدلیہ ملکی سیاسی منظرنامے کو ترتیب دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور یہ درست بھی ہے، جلسوں کی تعداد نواز شریف کو قبل از انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی کے تیس سے زائد اراکین کے استعفے وسط مدتی انتخابات کی وجہ نہیں بن سکتے، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے لیے استعفے دیکر جلد انتخابات کے انعقاد میں کوئی فائدہ نہیں، اگر آج نئے انتخابات ہوجاتے ہیں تو ممکنہ طور پر یہ جماعتیں اپنی کئی نشستوں سے ہاتھ دھو سکتی ہیں جبکہ اسٹیٹس کو بمقابلہ تبدیلی کے مبنی انتخابات میں ان دونوں کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مختصر الفاظ میں پی ٹی آئی کی گلی کوچوں میں احتجاج کی سیاست ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کی حکومت کو لڑکھڑانے اور گھبراہٹ کا شکار کردے مگر اس وقت ایسا کوئی قابل فہم میکنزم نظر نہیں آتا جو اس کے خاتمے کا سبب بن جائے، پی ٹی آئی اگر ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے تو کیا وہ اپنے اصلاحاتی ایجنڈے پاکستان میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتی ہے وہ ایک بالکل مختلف سوال ہے۔
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔