کوئی بھی امن نہیں چاہتا
امن اس لیے ہونا چاہیے، کیونکہ قائداعظم بھی اس پر یقین رکھتے تھے۔ راج گوپال اچاریہ کو انڈیا کے گورنر جنرل بننے پر محمد علی جناح نے دونوں ممالک کے درمیان سچی دوستی کی امید ظاہر کی تھی۔
اور گاندھی؟ وہ تو ساتھ مل بیٹھنے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ کے سی یادَو کے مطابق جب انڈیا تقسیم ہوا، تو گاندھی نے کہا تھا کہ انڈین اور پاکستانی دو بھائی ہیں جو جدا ہوگئے ہیں۔ اب یہ دو الگ الگ گھروں میں رہیں گے، لیکن رہیں گے بھائی ہی۔
اس بات کا ایک معاشی سینس بھی نکلتا ہے۔
اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 2.4 ارب ڈالر ہے، جبکہ جناح انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ کے مطابق اس میں اپنی موجودہ ویلیو سے 20 گنا تک بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے۔
اس سے براستہ دبئی ہونے والی غیر رسمی تجارت بھی ختم ہوگی، جس کی وجہ سے چیزوں کی قیمتوں میں کمی آئے گی، جبکہ انڈیا کے لیے براستہ پاکستان، افغانستان اور سینٹرل ایشیا پہنچنا، اور پاکستان کے لیے براستہ انڈیا، نیپال، بھوٹان، اور بنگلہ دیش پہنچنا آسان ہوجائے گا۔
یہ سیکیورٹی اور اسٹریٹیجک حوالے سے بھی اہم ہے۔ اگر دونوں ممالک اپنے باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک دوستانہ تعلق قائم کرتے ہیں، تو ایک دوسرے سے موجود خطرات بھی ختم ہوجائیں گے، اور خوف کی فضا ختم ہوجائے گی۔
نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں ممالک اپنے داخلی خطرات سے اچھی طرح نمٹ پائیں گے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا داخلی خطرہ طالبان ہیں جو آہستہ آہستہ اس کے شہروں میں اپنی گرفت مضبوط کرتے جارہے ہیں، جبکہ انڈیا کے لیے نکسل باغیوں اور دوسری دہشتگرد تنظیموں کی صورت میں خطرہ موجود ہے۔
جب امن ہوگا، تو دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیاں بھی سنجیدہ، فہم و فراست پر مبنی ہوں گی۔ اس وقت خارجہ پالیسیاں صرف "دشمن کا دشمن دوست" کی بنیاد پر ہی قائم ہیں۔
جب امن قائم ہوگا، تو دونوں ممالک ترقی کے لیے ضروری اقدامات پر اتفاق کرسکتے ہیں، جو کہ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کے لیے ضروری ہے۔
اور آخر میں یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی بہتر ہوگا، صرف ان کے لیے نہیں جن کے دوست یا رشتے دار سرحد کے اس پار رہتے ہیں، بلکہ تمام لوگوں کے لیے۔
مل جل کر کام کرنے سے مشترکہ مسائل جیسے غربت، ناخواندگی، اور فرسودہ رسم و رواج کا آسانی سے خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ کلچرل ایکسچینج پروگرامز وغیرہ سے سیکھنے کے مزید مواقع بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے یہ ایک ایسا آئیڈیا ہے، جسے اپنانے کو کوئی تیار نہیں۔ اس سے بھی زیادہ بدقسمتی ہے کہ اس کا پرچار کرنے والے بھی بہت کم لوگ ہیں۔
سیاستدان
دونوں ممالک کے سیاستدان ایک خاص وجہ کی وجہ سے شاید امن نہیں چاہتے۔
جب بھی الیکشن قریب آنے لگیں، انڈیا پاکستان کا مسئلہ کھڑا کردو، اور پھر تو عوامی حمایت ملنے کا بھرپور امکان ہے۔ اگر ملک کے داخلی معاملات درست نہیں، تو توجہ سرحدوں کی جانب موڑ دیں۔ اور جب بھی حکومت کو خطرہ لاحق ہو، تو لائن آف کنٹرول کے حالات سنائیں، اور ساری عوامی فرسٹریشن حکومت کے بجائے انڈیا کی جانب مڑ جائے گی۔
امریکہ کے برعکس ہمیں دشمن بنانے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خطرات اصل میں اتنے نہیں ہوتے جتنے محسوس ہوتے ہیں اور اسی کی وجہ سے عوام جنگی جنون کا پرچار کرنے والوں کی باتوں میں فوراً آجاتے ہیں۔
افواج
دونوں ممالک کی افواج امن کی کتنی خواہش رکھتی ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ دونوں کی روزی روٹی ایک ہمیشہ موجود دشمن کی وجہ سے ہی قائم ہے۔
انڈیا اپنی ملٹری پر 47 ارب ڈالر سے زائد خرچ کرتا ہے، جبکہ پاکستان تقریباً 7 ارب ڈالر۔ دونوں ہی ممالک کی جی ڈی پی کو دیکھا جائے، تو یہ دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے 2.5 فیصد سے زیادہ ہے۔ انڈیا کی ایکٹیو اور ریزرو فوج مل کر تقریباً 47 لاکھ فوجی ہیں، جبکہ پاکستانی افواج کے سارے ڈویژن ملا کر 14 لاکھ فوجی ہیں۔ اس کے علاوہ ایٹمی اور دیگر اسلحہ الگ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی افواج کو اپنے اس کام کے لیے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر امن قائم ہوا، تو اتنی بڑی افواج رکھنے، اور ان کو بارڈر پر تعینات رکھنے کے خرچوں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت دونوں ممالک کی آدھے سے زیادہ فوج لائن آف کنٹرول کی حفاظت پر تعینات ہے۔
میڈیا
عوام پروپیگنڈا کے شکار ہیں۔ عوام میں جنگ اور کشیدگی کی خبروں کی بہت ڈیمانڈ ہے، جس کی وجہ سے میڈیا ہاؤسز کی ریٹنگز بڑھتی ہیں۔
کئی سالوں کی بداعتمادی، دونوں جانب سے شرارتیں، تاریخ کی کتابوں میں پڑھائے جانے والے مسخ شدہ حقائق، اور انا پرستی کی وجہ سے عوام کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
اس کی وجہ سے دشمنی کے جذبات بڑھتے جاتے ہیں۔
دنیا کے مہذب اور عقلمند ممالک اختلافات کے باوجود ساتھ رہنا سیکھ چکے ہیں، لیکن برداشت کے یہ آئیڈیلز ہمارے لیے نہیں ہیں۔ ہم ماضی سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم جنگ و جدل سے بڑھ کر کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
ہم خطے میں امن کیسے حاصل کرسکتے ہیں، جب کوئی امن چاہتا ہی نہیں ہے۔ تو پھر شروع کہاں سے کیا جائے؟
امن پسند قوتوں کو قدم بڑھانا ہوگا۔ اس کام میں بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا، اور امن سے نفرت کرنے والوں کی نفرت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر دونوں ممالک کا بھلا ہوسکتا ہے، تو وہ امن ہی میں ہے۔
بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔