پاکستان

سندھ ہائی کورٹ نے نیوکلیئر پاور پلانٹس پر کام کرنے سے روک دیا

دائر کردہ درخواست کا کہنا تھا کہ کراچی میں نصب کیے جانے والے پلانٹس کا چین تک میں کوئی تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے ماحولیاتی قوانین پر عمل پیرا ہوئے بغیر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو کراچی میں دو نیوکلیئر پاور پلانٹ پر کام کرنے سے روک دیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل ایک بینچ نے ایک درخواست پر یہ ہدایات جاری کیں۔

اس درخواست میں سندھ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (سیپا) کی ماحولیاتی اثرات کی تشخیصی رپورٹ (ای آئی اے) کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں ان دونوں پلانٹس کی منظوری دی گئی تھی۔

شرمین عبید چنائے، ڈاکٹر پرویز امیر علی ہودبھائی، ڈاکٹر اے ایچ نیئر اور عارف بلگرامی کی جانب سے دائر کردہ اس درخواست میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی (پی این آر اے)، سندھ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے سیپا، پاکستان کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے پیپا اور سندھ کےماحول اور متبادل توانائی کے محکمے کو بطور مدعاعلیہ نامزد کیا گیا ہے۔

عدالت نے مدعاعلیہان کو گیارہ نومبر تک اس درخواست کے جواب میں اپنا ردّعمل جمع کروانے کے لیے کہا ہے۔ اس کے علاوہ ایڈوکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بھی نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں۔

اس منصوبے کے محرکین سے عدالت نے کہا کہ وہ اس وقت تک اس پر کام شروع نہیں کریں، جب تک کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے ایکٹ کے سیکشن بارہ کے مطلوبہ تقاضوں کی تکمیل نہیں کرتے اور اس منصوبے کی قانون کے تحت مقررہ ماحولیاتی اثرات کی تشخیص نہیں کروالیتے۔

درخواست گزاورں کے وکیل ایڈوکیٹ عبدالستار پیرزادہ نے عدالت کو مطلع کیا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے حال ہی میں ان دونوں نیوکلیئر پلانٹس کے-2 اور کے-1 کے لیے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ (کینپ) کے قریب جگہ کی تیاری کا کام شروع کیا تھا، اس کے علاوہ مزید دو پاور پلانٹس کے-4 اور کے-5 کے منصوبے بھی زیرِ غور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے ہر ایک پاور پلانٹ گیارہ سو میگاواٹ کی بجلی پیدا کرے گا، مزید یہ کہ کینپ جسے کے-1 بھی کہا جاتا ہے، کو بند کردیا گیا تھا، اور اس کا جوہری فضلہ اس کے احاطے میں ہی موجود رہے گا۔

وکیل نے کہا کہ اس ری ایکٹرز کو بیان کردہ ڈیزائن جسے اے سی پی-1000 کے نام سے جانا جاتا ہے، کے مطابق چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن (سی این این سی) تعمیر کرے گا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہاں تک کہ چین میں بھی اے سی پی-1000 ری ایکٹر کو استعمال نہیں کیا گیاہے۔

ان کا مزید کہنا تھا ’’اے سی پی-1000 ریکٹر اب تک صرف کاغذ پر یا کمپیوٹر پروگراموں میں وجود رکھتا ہے، اور اس کا حقیقی زندگی میں کوئی تجربہ، جانچ اور کوشش نہیں کی گئی، بلکہ سی این این سی اے سی پی-1000ڈیزائن پر کراچی میں کے-2 اور کے-3 ری ایکٹروں پر کا شروع کرے گا۔‘‘

ایڈوکیٹ عبدالستار پیرزادہ نے کہا کہ چونکہ اے سی پی-1000 ٹیکنالوجی کو پہلی مرتبہ مجوزہ ری ایکٹروں میں استعمال کیا جائے گا،چنانچہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے اپنائی جانے والی مطلوبہ حفاظتی تدابیر غیرواضح اور غیر یقینی ہیں، جس کی وجہ سے کراچی کے عوام کی صحت اور زندگیوں کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے، اور اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ دس لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن اس کے باشندوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کے لیے کسی بنیادی ڈھانچے کا یہاں فقدان ہے، جس کی کسی ممکنہ جوہری حادثے کی صورت میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ مدعاعلیہان انخلاء کے لیے کسی بھی قابل اعتماد منصوبے کی تیاری میں ناکام رہے تھے۔ انہوں نے جاپان میں جوہری حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پلانٹ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے تک کے علاقے تابکاری سے آلودہ ہوگئے تھے، لیکن خوراک اور پانی کی آلودگی ڈھائی سو کلومیٹر کے فاصلے پر بھی پائی گئی تھی، اور اس علاقے کا ایک حصہ تاحال رہائش کے قابل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح 1986ء کے چرنوبل کے جوہری تباہی کے نتیجے میں حادثے کے مقام کے اردگرد کا بہت بڑا علاقہ آلودہ رہا، اور یہاں تک کہ 28 برسوں کے بعد بھی رہائش کے قابل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی جانب سے صوبائی ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کو جمع کرائی جانےوالی ماحولیاتی اثرات کی تشخیصی رپورٹ میں قانون کی کھلی خلاف ورزی کی گئی تھی، اس لیے کہ اس کو پیپا نے عوام کی شرکت کی دعوت دیے بغیر اس کا جائزہ لیا تھا، اور متعلقہ معلومات کو بڑے پیمانے پر انتہائی خفیہ انداز میں عوام سے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ ماحولیاتی تشخیصی رپورٹ اور اس کے جائزے کو غیرقانونی قرار دے، اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو ہدایت کرے کہ وہ ایک نئی ماحولیاتی تشخیصی رپورٹ سیپا اور پیپا کو جمع کرائے تاکہ وہ اس کو 2014ء کے ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت عوامی جائزے کے لیے شایع کرے۔

انہوں نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی کہ مدعاعلیہان کو ان نیوکلیئر پاور پلانٹس پر کام کرنے سے اس وقت تک روک دیا جائے جب تک کہ نئی ماحولیاتی تشخیصی رپورٹ کا جائزہ اور انخلاء کے منصوبہ پیش نہ کردیا جائے۔