معیشت پر نوبیل انعام یافتہ پروفیسر پاکستان کو کیا سکھا سکتا ہے؟
اشیائے خورونوش سے لے کر عام استعمال کی اشیاءتک پاکستانی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ قیمتیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
انہیں منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ پاکستان کی 1947 میں تشکیل کے بعد سے مارکیٹ پر کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں، جبکہ صارفین ناقص معیار کی اشیاءپر ہمیشہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
رواں برس نوبیل انعام جیتنے والی ایک شخصیت کی کوششیں پاکستانیوں کو ریاستی اجارہ داری اور نجی منافع خوروں کے ظلم و جبر سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
فرانس کے پروفیسر جین ترولی کو مارکیٹ پاور اور ریگولیشن پر ان کے قابل قدر کام پر 2014 کا معاشیات کے نویبل انعام سے نوازا گیا۔
ان کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح مارکیٹ پاور پر مضبوط گرفت اور قیمتوں کا تعین صارفین کے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، ان کا یہ کام نجکاری پر خوش پاکستان سے بھی متعلق ہے کیونکہ یہ ترقی پذیر معیشتوں کے حوالے سے ہے۔
متعدد تاریخ دان اس بات پر اصرار کرچکے ہیں کہ برطانوی عہد کے ہندوستان میں مسلم اشرافیہ مارکیٹ سے باہر نکلنا چاہتے تھے جہاں انہیں مخصوص حلقوں کے درمیان محدود مسابقت کا سامنا ہوتا جس کے نتیجے میں اس کا فائدہ منافع خوروں کو ہوا، بیس خاندانوں کی اصطلاح اس گٹھ جوڑ کا حوالہ ہے جو پاکستان کے آغاز مارکیٹس اور قیمتوں پر کنٹرول کررہا تھا، اسی کو دیکھتے ہوئے معروف شاعر حبیب جالب نے اپنی مقبول نظم 'بیس گھرانے' تحریر کی۔