نقطہ نظر

عدالتیں اور سزائے موت کا قانون

پاکستان میں انصاف کا نظام اس قدر پیچیدہ اور بوسیدہ ہے، کہ سزائے موت کی زد میں معصوم لوگوں کے آنے کا خطرہ موجود ہے۔

10 اکتوبر کو دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی یہ دن آیا، پاکستان میں بھی یہ مسئلہ زیرِ بحث ہے کہ آیا سزائے موت ہونی چاہیے یا نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی سپریم کورٹ نے وطن پارٹی کی سزائے موت کے خلاف پٹیشن کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔

پٹیشن کے مطابق سزائے موت جینے کا حق چھیننے کے مترادف ہے، اور پٹیشن میں اپیل کی گئی ہے کہ سزائے موت کا انتظار کر رہے 8000 سے زائد قیدیوں کی سزاؤں کو تبدیل کر دیا جائے۔

ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ ان سوالات پر غور کر رہی ہے، تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سزائے موت کس طرح عالمی سطح پر رائج انسانی حقوق کے معیارات کے خلاف ہے، اور عدالتیں پاکستان کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنے میں کس طرح مدد دے سکتی ہیں۔

سزائے موت جینے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقوق میں سے ہے کہ کسی کو ظالمانہ، غیر انسانی، اور توہین آمیز سزا نہ دی جائے، اور سزائے موت اس کی بھی خلاف ورزی ہے۔

عاصمہ جہانگیر، جو کہ سزائے کے موت کے خلاف عالمی کمیشن کی ممبر بھی ہیں، نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک پینل بحث میں اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ سزائے موت کا معاشرے پر کوئی واضح و مثبت فرق نہیں پڑتا، اور نہ ہی اس سے لوگوں میں جرم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات یہ سزا غیر منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد سنائی جاتی ہے، جبکہ اس سے بے گناہ شخص کے خلاف ناقابلِ تلافی سزا کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔

2007 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد پاس کی تھی، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ سزائے موت انسانی تکریم کے خلاف ہے، اور اپیل کی گئی تھی کہ دنیا بھر میں سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے، تاکہ اس سزا کو ختم کیا جاسکے۔

اس قرارداد پر دسمبر 2012 میں پھر عزم کا اظہار کیا گیا، جب اقوام متحدہ کے 110 ممبر ممالک نے سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کو اس سزا کے خاتمے کی طرف پہلا قدم قرار دیا۔

شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی چارٹر (International Covenant on Civil and Political Rights)، جس پر پاکستان بھی 2010 میں دستخط کر چکا ہے، کا آرٹیکل 6 جینے کے حق کو یقینی بناتا ہے، اور جن ممالک نے اب تک سزائے موت کے قانون کو ختم نہیں کیا ہے، ان پر زور دیتا ہے کہ وہ سزائے موت کو صرف انتہائی گھناؤنے اور سنگین جرائم کے لیے محدود کردیں۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ICCPR سنہ 1966 میں اپنایا گیا تھا، اور اس وقت تک زیادہ تر ممالک میں یہ قانون رائج تھا۔ اس کے بعد 1989 میں ایک اور اختیاری پروٹوکول بھی اپنایا گیا، جس میں سزائے موت کے خاتمے کے عالمی معیار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے ماورائے عدالت، سمری، اور بے قاعدہ سزائے موت، اور دیگر حکام نے ICCPR کے آرٹیکل چھ میں سنگین اور گھناؤنے جرائم کی بہت محتاط تشریح کی ہے، جس کے مطابق صرف وہ ہی جرم اس تشریح میں شامل کیے جاسکتے ہیں جس میں ارادتاً قتل کیا گیا ہو اور کسی کی جان لی گئی ہو۔

پاکستان میں سزائے موت 27 مختلف جرائم پر دی جاتی ہے، جس میں مذہبی شخصیات کی توہین، بغیر شادی جنسی تعلقات، خواتین کی عزت پر حملے، اور منشیات کی اسمگلنگ سرِ فہرست ہیں۔ ان جرائم میں سے زیادہ تر جرائم سنگین اور گھناؤنے جرائم کی تعریف پر پورا نہیں اترتے، جس کی وجہ سے پاکستان کا سزائے موت کا قانون ICCPR کے آرٹیکل چھ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی ان جرائم کی عدالتی کارروائیوں کی انتہائی حد تک شفافیت برقرار رکھنے پر زور دیا ہے کہ جن جرائم میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ پاکستان کا کرمنل جسٹس سسٹم کئی خامیوں کا شکار ہے، جس میں حقِ دفاع کی خلاف ورزی، تشدد اور دیگر بہیمانہ سلوک وغیرہ شامل ہیں جس کی وجہ سے سزائے موت کے جواز پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ ریاست کے تمام اداروں، خاص طور پر انسانی حقوق کے محافظ ادارے یعنی عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان سزائے موت کا قانون اور اس پر عملدرآمد کو ختم کردے۔

لیکن اب تک اس معاملے میں پاکستانی عدلیہ کا کردار مایوس کن رہا ہے۔ 2008 سے اب تک حکومت نے سزائے موت پر عارضی طور پر عملدرآمد روکا ہے، لیکن سپریم کورٹ اور کئی صوبائی عدالتوں کے ججز نے حکومت کو احکامات دیے ہیں کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے سزائے موت پر عملدرآمد کرے، جبکہ حکومت کے عارضی طور پر عملدرآمد روکنے کے اختیار پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ وطن پارٹی کی پٹیشن جو 2011 میں فائل کی گئی تھی، پر سپریم کورٹ کا رسپانس کافی تاخیر کا شکار رہا ہے۔ تین سال تک سماعتیں ملتوی ہوتے رہنے کے بعد اب آخر کار یہ لگنے لگا ہے کہ کورٹ نے اس جانب توجہ کی ہے۔

اب جبکہ سپریم کورٹ کا ایک لارجر بینچ انسانی حقوق اور سزائے موت میں موافقت کا جائزہ لینے لگا ہے، تو اس کو دنیا بھر میں موجود فاضل عدالتوں کے اس معاملے میں اٹھائے گئے مثبت اقدامات سے رہنمائی مل سکتی ہے۔

1995 میں جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت نے سزائے موت کو جینے کے حق، اور ظالمانہ سزاؤں سے تحفظ کے حق سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ جنوبی افریقہ میں سزائے موت زیادہ تر غریب لوگوں کو دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس سزا پر عملدرآمد غیر منصفانہ ہے۔

سزائے موت کو غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے کے علاوہ عدالتوں نے سزائے موت کو بتدریج ختم کرنے کے لیے دوسرے طریقے بھی استعمال کیے ہیں۔

1980 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے سزائے موت کو "انتہائی غیر معمولی اور شاذ و نادر کیسز جس میں کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچے" تک محدود کردیا۔ اس کے علاوہ اسی عدالت نے سزائے موت کے کیسز میں ملزمان کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں جن میں ریویو پٹیشن، ذہنی بیمار افراد کو سزائے موت پر پابندی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی قرار دیا کہ رحم کی اپیلوں کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے بھی سزائے موت کو دوسری سزا سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

سزائے موت کے خلاف انڈین سپریم کورٹ کے اقدامات اب بھی عالمی طور پر سزائے موت کے خلاف اپنائے گئے اقدامات سے کافی دور ہیں۔ کورٹ کے فیصلے اب بھی تضادات کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی وجہ سے انڈیا سزائے موت کے خاتمے کے عالمی معیار کے قریب آرہا ہے۔

اب نظریں پاکستان کی سپریم کورٹ پر ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سزائے موت کی بحث کی بنیاد میں موجود انسانی حقوق کے مسائل کا جائزہ لے گی اور اسے جینے کے حق کی خلاف ورزی، ظالمانہ، غیر انسانی، اور توہین آمیز سزا قرار دے گی جس کی ایک انسانی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی قانونی مشیر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @reema_omer کے نام سے لکھتی ہیں۔

reema.omer@icj.org

ریما عمر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔