امریکا سے لکھا گیا کالم
اردو کالم نگاری کی روایتوں میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ کوئی کالم نگار جب باہر کے کسی ملک جاتا ہے تو پہنچتے ہی اپنے اگلے کالم میں یہ ضرور بتاتا ہے کہ وہ یہ کالم پاکستان سے نہیں بلکہ کسی 'مہذب' ملک سے لکھ رہا ہے۔ بعض کالم نگار تو اپنی اور پڑھنے والوں کی جان خطرے میں ڈالنے اورجہاز میں کالم لکھنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسا وہ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا کالم اگلے دن اخبار میں نہ پا کر صدمے کے مارے مجھ جیسا کوئی جذباتی قاری خودکشی ہی نا کرلے۔
قارئین کو ناگہانی صدموں سے بچانے کے علاوہ اس روایت پر عمل کرنے کے فائدے اور بھی بہت سے ہیں۔ لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کالم لکھنے والا کوئی کوئی گیا گزرا صحافی نہیں ہے بلکہ باہر کے ممالک میں بھی اس کے بہت سے پڑھنے والے موجود ہیں جنہوں نے ملکی حالات پر اس کی قیمتی رائے جاننے کے لیے اسے کسی سیمینار یا کانفرنس کے بہانے دعوت دی ہے۔
کسی نا کسی بہانے صحافی ایسے فارن کالم میں کسی تھنک ٹینک کا ذکر بھی کر دیتا ہے۔ عام طور پر صحافی نے اس تھنک ٹینک میں غیر ملکی ماہرین سیاست سے خطاب کرنا ہوتا ہے تاکہ پاکستان کے بارے میں ان کی پرانی غلط فہمیاں دور ہو سکیں۔ کیونکہ غیر ملکی ماہرین بہت عرصے تک ایک ہی طرح کی غلط فہمیوں سے کام چلا رہے ہوتے ہیں اس لیے بعض وقت ان کے لیے نئی غلط فہمیاں پیدا کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے اور اس کام کے لیے ان حلقوں میں صحافیوں کو بہت کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔
ان نئی غلط فہمیوں کی ذمہ داری اپنے سر لینے کےعلاوہ تھنک ٹینک کے ذکر سے ساتھی صحافیوں کو یہ پیغام بھی مل جاتا ہے کہ ’ابے چلو تمہارےکالم تو صرف پاکستان کے جاہل عوام ہی پڑھتے ہیں میرے کالم بااثر حلقوں میں بھی پڑھے جاتے ہیں بلکہ ترجمہ کروا کروا کے پڑھے جاتے ہیں۔‘
’جب مجھے امریکا آنے کی دعوت ملی۔۔۔‘ عام صحافی کالم کو عام طور پر اس جملے سے شروع کرتے ہیں۔ لیکن یہ غلطی صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ وہ عام صحافی ہوتے ہیں۔ سمجھدار صحافی ایسے نہیں کرتا وہ میری طرح یہ کہتا ہے کہ ’اس بار جب مجھے امریکا آنے کی دعوت ملی تو۔۔۔‘ اس کے بعد باقی کہانی امریکا اور پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات یا پاکستان اور امریکا کے بگڑتے ہوئے تعلقات یا دونوں کے ایک دوسرے سے بگڑتے ہوئے تعلقات اور انہیں صحیح کرنے میں فارن جانے والے صحافی کے کردارپر مشتمل ہو سکتی ہے لیکن ’اس بار‘ کے جادوئی الفاظ سے پڑھنے والوں کو یہ پتا چل جاتا ہے نا یہ تعلقات پہلی بار بگڑے ہیں اور نا یہ اس صحافی کا پہلا فارن ٹور ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ ایسی نازک صورتحال میں اس طرح کی قومی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے۔
امریکا آنے کی دعوت کے بعد کالم نگارعام طور پر ایر پورٹ پر پاکستانیوں کی دھکم پیل کا ذکر کرتا ہے اصل میں اس دھکم پیل کی کہانی کے ذریعے وہ اپنے آنے والے کالموں کی پیش بندی کر رہا ہوتا ہے جن میں اس نے امریکا میں لگی ہوئی لمبی لمبی لائنوں کا ذکر کر کے یہ بتانا ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کے مریخ پر جانے میں واحد رکاوٹ یہ ہے کہ انہیں لائن بنانی نہیں آتی۔
اس کے بعد وہ مسجدوں میں صفیں سیدھی کرنے کا حکم یاد دلا کر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ صرف لائن ہی نہیں سپیس شٹل بنانے کا بنیادی خیال بھی مسلمانوں نے اس وقت پیش کیا تھا جب امریکا ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اور یورپ والے کئی کئی دن نہاتے نہیں تھے۔
کالم کا آغاز اگر دھکم پیل سے نا کیا جا سکے تو ایک سیاستدان کے لیٹ ہونے اور اس کے لیے فلائٹ کو روکے رکھنے سے بھی کالم کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں بہتر یہ رہتا ہے کہ مذکورہ سیاستدان کا تعلق حکومت سے ہو۔ اس طرح ایک تو اس صحافی پر سے لفافہ صحافی ہونے کا الزام دھونے میں مدد ملتی ہے تو دوسری طرف کوئی سیاستدان اگر غلطی سے بھی وقت پر ائرپورٹ پہنچ جائے تو صحافی گردن اکڑا کر اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتا سکتا ہے کہ دیکھا میرا ایک کالم کتنی گردنوں سے سریا نکال سکتا ہے۔
لیٹ آنے والا سیاستدان عام طور پر جہاز میں آتے ہی صحافی کو دیکھ لیتا ہے اور پائلٹ سے کہہ کر اس صحافی کو بزنس کلاس میں اپنے برابر بلا کر بٹھاتا ہے۔ ایسے وقت میں صحافی عام طور پر وی آئی پی کلچر جیسی خرافات کو لوگوں کے مفاد میں برداشت کر لیتا ہے اور موقع مناسب جانتے ہوئے حکومت کو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے آدمی کے مسائل سے بھر پور طور پر آگاہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اہم پوسٹوں پر افسروں کی تعیناتی اپنے علاقے میں سڑکوں کی مرمت اور آنے والے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم پر سیاستدان کو وہ گر بتاتا ہے جو اس سیاستدان کے تو کیا صحافی کے والد کے علم میں بھی نہیں ہوتے۔
اس طرح پڑھنے والے کو یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ صحافی عام آدمی کے مسائل اور حکومت کی جوابدہی کو بزنس کلاس میں بھی نہیں بھولتا اور یہ بھی کہ سیاسی حرکیات نامی مخلوق کو جیسا وہ سمجھتا ہے عوام کے خرچ پر بزنس کلاس میں سفر کرنے والے سیاستدان ساری عمر نہیں سمجھ سکتے۔
اگر سوئے اتفاق کوئی لیٹ ہونے والا سیاستدان اس پرواز پر دستیاب نا ہو تو اس صورت میں پائلٹ اس صحافی کو پہچان کر بزنس کلاس میں بلا لیتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ہر فضائی سفر سے پہلے جہاز نے جس جس ملک سے گزرنا ہوتا ہے وہاں کے سیاسی حالات کو جاننے کے لیے وہ پائلٹ ہمارے صحافی کا ہی کالم پڑھتا ہے۔
اس سفر کے دوران پائلٹ عام طور پر یا تو ہمارے صحافی کو کاک پٹ میں بلا کر اسے جہاز کے اہم پرزوں اور نیچے آنے والے اہم مقامات کے بارے میں بتاتا رہتا ہے یا خود جہاز کو آٹو پائلٹ پر لگا کے صحافی کے لیے بھاگ بھاگ کے چائے لاتا ہے اور اس چائے کے بدلے پی آئی اے کا چیرمین بننے کے لیے اسے اپنی صلاحیتوں کا یقیں دلا کر اس سے سفارش چاہتا ہے۔ سفارش تو خیر ہمارے صحافی نے آج تک کسی کی نہیں کی لیکن صرف دل ٹوٹنے کے خیال سے وہ پائلٹ کو یہ بات نہیں بتاتا۔
اس طرح صحافی کو بزنس کلاس میں جگہ اور جہاز اڑانے کی تربیت مل جاتی ہے اور پائلٹ کو بین الاقوامی سیاست کے اہم امور کا علم ہو جاتا ہے ایک اکانومی کے ٹکٹ میں اگر قوم کا اتنا فائدہ ہو رہا ہو تو میرا خیال میں قاعدہ قانون جیسی چیزوں پر بحث کرنے کے فائدے سے بہر حال زیادہ ہی ہے۔
فارن سے کالم لکھنے کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں ایک نقصان بھی ہے اور وہ یہ اخبار کے مالکان کو پتا چل جاتا ہے کہ اس صحافی کا جو معاوضہ وہ چھ مہینے سے دبائے بیٹھے ہیں اسے ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے اس لیے وہ ان پیسوں کو مزید چھ مہینے کے لیے دبا لیتے ہیں۔ لیکن کیونکہ ہر بڑے کام کے لیے کچھ نا کچھ قربانی دینی پڑتی ہے اس لیے ہمارا صحافی لوگوں کو باخبر رکھنے کے لیے یہ نقصان با خوشی برداشت کرلیتا ہے۔
کچھ صحافی ان تمام فارن جانے والے صحافیوں سے زیادہ سیانے بنتے ہیں وہ ایک ایسا بلاگ لکھتے ہیں جس میں مہذب انداز میں فارن جانے والے سب صحافیوں کی برائیاں کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ بھی آج کل امریکا میں ہیں۔
پس نوشت: ڈان والوں نے میرا معاوضہ کبھی نہیں روکا۔
پس پس نوشت: پس نوشت بھی بلاگ میں میں نے ہی شامل کی ہے ڈان والوں نے نہیں۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔