کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟
ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے احمد رضا قصوری پر مبینہ قاتلانہ حملے (جس میں وہ بچ گئے اور ان کے والد ہلاک ہوئے) کے مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد سے وقتاً فوقتاً یہ سوال ملک کے دانشوراور سیاسی حلقوں میں گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی سکڑ رہی ہے؟ لاتعداد بار پیپلز پارٹی کے خاتمے کی سرگوشیاں سننے میں آتی رہی ہیں۔ اس سوال کا جواب عموماً ہاں میں نکلتا ہے، اور سرگوشیوں پر بھی سنجیدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ مگر وقت آنے پر حقائق ہمیشہ یکسر مختلف رہے ہیں۔
فوجی آمر ضیاء الحق اور اس کا ساتھ دینے والوں کو بھی بھٹو کے جیل میں ہونے کے بعد یہ خوش فہمی لاحق تھی کے قیدی بھٹو کمزور ہوتا جائے گا مگر ان کی یہ خوش فہمی زیادہ دن تک برقرار نہ رہ سکی کیونکہ ملک میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ہمدرد سختیوں اور کوڑوں کی سزاؤں کے باوجود "جئے بھٹو" کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کے ڈر سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو تالے لگائے جا رہے تھے۔ جہانگیر بدر نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورے ملک میں وہ شخص تھا جسے سب سے پہلے کوڑوں کی سزا ہوئی اور وہ ہر کوڑے پر "جئے بھٹو" کا نعرہ لگاتا رہا، اور بعد میں تھوڑی ہی دوری پر کھولی میں قید ذوالفقارعلی بھٹو نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ یہ کوڑے تمہارے جسم پر نہیں، مجھ پر برس رہے ہیں۔
جس وقت ملک میں بھٹو کی مقبولیت میں کمی کے دعوے کیے جا رہے تھے، تو اس دوران 7 فروری 1979 کو نیو یارک ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "بھٹو فوجی بغاوت سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں"۔
ذوالفقارعلی بھٹو نہ صرف پاکستان میں ایک مقبول ترین لیڈر تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی مقبولیت کو تسیلم کیا جاتا تھا جس کی مثال "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کے 16فروری 1979 کے اس اداریے سے لی جا سکتی ہے جس میں وہ امریکا کے 41 ویں نائب صدر نیلسن راکفیلر کے ایک جملے کا حوالہ دیتے ہیں کے نیلسن نے بھٹو کے بارے میں کہا تھا "خدا کا شکر ہے کہ میرا کسی انتخاب میں ان سے مقابلہ نہیں ہوا"۔
اس کے باوجود بھی ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کے سکڑنے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور پیپلز پارٹی کے مخالف یہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ختم ہونے کو ہے، اسی وجہ سے بھٹو کو سزائے موت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی مخالفین نے مٹھائیاں بانٹنا شروع کر دی تھیں۔
لیکن ان سب گردشی خبروں کے برعکس بین الاقوامی میڈیا بھٹو کی مقبولیت میں اضافے کی خبریں اور اداریے چھاپ رہا تھا۔ 16 فروری 1979 کو "ایشیا ویک" کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قومی اتحاد میں شریک ایک اہم مذہبی جماعت کے کارکن بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر مٹھایاں بانٹ رہے تھے اور شکرانے کے نوافل ادا کر رہے تھے، مگر اس کے دو دن بعد 18 فروری کو لندن کے مقبول جریدے گارجین نے لکھا تھا کہ پاکستان میں "ایسے انتخابات کبھی نہیں ہوں گے کہ جس میں بھٹو کو آزادانہ طور پر مسترد کردیں، یہ بھوت کبھی دفن نہ ہو گا"۔
پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے بھٹو کو پھانسی ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "پاکستان پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے ساتھ مر گئی" لیکن اگر ایسا تھا تو بھٹو خاندان کی دو عورتیں کیوں رہا نہیں کی جا رہی تھیں؟ اور 27 اپریل 1979 کی "فار ایسٹرن اکنامک ریویو" کی رپورٹ نے مفتی محمود کے پیپلز پارٹی کی موت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ "محمود کے دعوے کے برعکس عوام میں پیپلز پارٹی کی حمایت اب بھی برقرار ہے"۔
غور و فکر کرنے والے ہمدردوں کو یقین ہے کہ اگر غیر متوقع طور پر پی پی پی کے رہنما اور کارکن رہا کر دیے جاتے ہیں اور 17 نومبر کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے تو یقینی طور پر پارٹی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ جائے گی"۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مختلف اوقات میں یہ دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے یا سکڑ رہی ہے، لیکن تاریخی طور پر ایسے دعوے ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی جلا وطنی میں بھی ایسی ہی سرگوشیاں سننے کو ملتی تھیں اور مشرف کا ساتھ دینے والے کئی سیاسی وڈیرے اس قسم کے دعوے کرتے ہوئے نظر آئے مگر 18 اکتوبر 2007 کو جب بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو لاکھوں کے مجمعے نے سیاسی پنڈتوں کے پیپلز پارٹی کے انتم سنسکار کی خواہش کو ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ اور پیپلز پارٹی کا ختم قرار دیا جانے والا باب پھر سے کھل گیا۔
پیپلز پارٹی کے سکڑنے اور علاقائی پارٹی میں تبدیل ہونے کے دعوے آج بھی ہماری سیاسی فضا میں موجود ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے غیر ممکنہ شکست کے بعد سے ایسی سرگوشیوں نے زور پکڑا اور تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد ان میں مزید تیزی آئی۔ جبکہ بلاول بھٹو ذرداری کے معافی نامے سے کئی سیاسی مخالفین کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔
اس معافی نامے کا مقصد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ باغی کارکنان کو اسٹاپ کا اشارہ دینے کی ناکام کوشش ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ میرے خیال سے یہ معافی نامہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں صور پھونکنے کے مترادف ہے۔ ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے کارکنان کو یہ اشارہ دینا ہے کہ میں میدان میں آ گیا ہوں۔
دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری کا لاہور میں ڈیرے ڈالنا اور پارٹی کے مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی واپسی اور پارٹی کو متحرک کرنے میں سنجیدہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی اہم اور سینئر رہنماؤں کو گزشتہ دور میں نظر انداز کیے رکھا اور اب وہ اپنی غلطی کو درست کرنے میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں، کیونکہ پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ پنجاب میں حمایت حاصل کرنے کے سوا اقتدار ممکن نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں اپنا پتہ پھیکنے کی مکمل تیاری بھی کر لی ہے اور یہ پتہ پیپلز پارٹی کے لیے یقیناً کارگر ثابت ہو گا۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کے خاتمے کا سوال ہے تو وہ اس کے بانی نے اپنی حیات میں ہی شاید یہ الفاظ پیپلز پارٹی کے خاتمے اور بھٹو کی گمنامی کی خبروں کی گردش کو ہی سامنے رکھتے ہوئے کہے تھے کہ "میں موت کی کوٹھری میں مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا"۔
فار ایسٹرن اکنامک ریویو نے 16 فروری 1979 کو لکھا تھا کہ " بھٹو پھانسی پر موت سے ہمکنار ہوں یا جیل میں گھل جائیں، مگر بھٹو ازم جاری رہے گا" اس کی یہ پشنگوئی ابھی تک صحیح ثابت ہوتی آرہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھٹو کی تلوار کا سایہ ابھی تک پاکستان پر منڈلا رہا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔