اسحاق ڈار کا جی ڈی پی کی ترقی کی شرح برقرار رکھنے کا عزم
واشنگٹن: وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سال سیلاب کے بدترین اثرات اور دھرنوں کی سیاست کے باوجود پاکستان جی ڈی پی میں ترقی کی شرح کو برقرار رکھے گا۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل اسٹڈیز پر طالبعلموں اور جنوبی ایشیا کے ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ نے کہا کہ حالیہ اصلاحات کی وجہ سے پہلے ہی میکرو اکنامک کے تقریباً تمام پیمانوں میں ایک قابل ذکر سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت چار فیصد پلس کی شرح سے ترقی کررہی ہے، جبکہ حکومت کا ہدف ہے کہ اس کو اس سال کے آخر تک پانچ فیصد تک لے جایا جائے، اور اگلے چند سالوں میں اس کو سات فیصد تک پہنچا دیا جائے۔
وزیرِ خزانہ نے فی کس آمدنی میں اضافہ، صنعتی شعبے میں ترقی کی شرح پانچ فیصد سےزائد اضافہ، افراطِ زر میں 6.8 فیصد تک کمی اور ریونیو کی پیدوار میں 16.4 فیصد کا اضافے پر بھی روشنی ڈالی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے مالی خسارے کو 8.5 فیصدکی قابلِ قبول حد میں رکھا تھا، جبکہ ترقیاتی بجٹ کےلیے 451 ارب روپے کی ایک اضافی رقم مختص کی تھی۔
اس کے علاوہ انہوں نے حکومتی قرضوں میں کمی، برآمدات میں صحت مندانہ اضافے اور پاکستانی بونڈز کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بے مثال کامیابی کی بھی نشاندہی کی۔
وزیرِ خزانہ نے ترسیلاتِ زر کے ذریعے تارکین وطن پاکستانیوں کی مثبت شراکت پر اُن کا شکریہ ادا کیا، جس میں اس سال 13.7 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا، اور ملک کو 15.8 ارب ڈالرز کا زرِمبادلہ حاصل ہوا۔
اسحاق ڈار نے فورجی لائسنس کی کامیاب نیلامی کا بھی حوالہ دیا، جس سے نو لاکھ ملازمتوں کے پیدا ہونے کی توقع ہے۔
تاہم ایک حالیہ بیان میں بین الاقومی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا ہے کہ معاشی عدم توازن اور ترقی میں طویل عرصے سےقائم رکاوٹوں نے پاکستان کی حقیقی ترقی کو روک رکھا ہے۔
آئی ایم ایف جس نے پچھلے سال پاکستان کو چھتیس مہینوں کی اضافی قرضے کی سہولت دیتے ہوئے 6.86 ارب ڈالرز فراہم کیے تھے، یہ بھی واضح کیا تھا کہ بجلی کے شعبے کے مسائل، سیکورٹی خدشات اور سرمایہ کاری کے ماحول میں مشکلات کے منفی جھٹکوں نے مشترکہ طور پر پچھلی دہائیوں سے معاشی کارکردگی کو کمزور بنائے رکھا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے خبردار کیا تھا کہ ’’جس کے نتیجے میں جی ڈی پی شرح گزشتہ چند سالوں سے صرف تین فیصد کے اوسط پر قائم ہے، جو بڑھتی ہوئی لیبر فورس کے لیے ملازمتیں فراہم کرنے اور غربت میں کمی کی ضرورت سے انتہائی نیچے ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں اس بات کا حوالہ بھی دیا گیا تھا کہ پاکستان کی مسلسل اور تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی نے فی کس آمدنی میں اضافے کو روک دیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان بہت سی اُبھرتی ہوئی معیشتوں سے بھی بہت پیچھے ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی یاد دلایا تھا کہ ٹیکس کے ناقص نظام، بجلی کے شعبے میں سبسڈیز اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں اضافے سے پاکستان کا مالیاتی خسارہ وسیع ہوا ہے۔
تاہم وزیرِ خزانہ نے معیشت کی ایک دل خوش کن تصویر دکھانے کے باوجود یہ تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں نے اقتصادی بحالی کی رفتار میں اضافہ کرنے کے لیے حکومتی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔
انہوں نے آئی ایم سے پچپن کروڑ ڈالرز سمیت لگ بھگ 2.6 ارب ڈالرز کی تاخیر سے وصولی کا حوالہ دیا، جسے کئی ہفتے پہلے جائزے کی تکمیل پر جاری کیا گیا، اس سے بھی معیشت کو نقصان پہنچا تھا۔
انہوں نے کہا ’’دھرنوں کی وجہ سے روپے کی قیمت میں چار فیصد تک کی گراوٹ آئی ، جس سے ملک کو تقریباً 250 ارب روپے کانقصان پہنچے گا۔‘‘
وزیرِ خزانہ نے نشاندہی کی کہ ان احتجاجی دھرنوں نے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار اورغیرملکی سرمایہ کاری کو بھی متاثر کیا ہے۔