ایک پاکستانی کے لیے انڈیا میں 6 سرپرائز
جیسے ہی آپ واہگہ بارڈر کراس کریں گے، تو آپ کو دونوں ممالک میں اتنی حیران کن مماثلت ملے گی، کہ شاید آپ گوگل میپس کے ذریعے یہ یقین کر لینا چاہیں کہ آپ بارڈر کراس کر کے انڈیا پہنچ چکے ہیں۔
لیکن انڈیا میں 6 چیزیں ایسی ہیں، جو کسی بھی پاکستانی کو حیران کرنے کے لیے کافی ہیں۔
1: وقت کی پابند ٹرینیں۔
میری عمر کے کسی بھی پاکستانی کے لیے ٹرین کا سفر بچپن کی سنہری یادوں کا حصہ ہے۔ ٹرین ہمیشہ وقت پر آتی تھی اور کسی وی آئی پی کے لیے بھی نہیں رکتی تھی۔ بچے آپس میں کھڑکی والی سیٹ کے لیے لڑتے تھے، ہر تھوڑی دیر بعد کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے گزرتے تھے، باوردی ٹکٹ چیکر، سگنل، اور کراسنگ۔ یہ سب کچھ ایک انتہائی خواشگوار تجربہ ہوتا تھا۔
ٹرین وسیع میدانوں، دریاؤں، پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی تو مجھ جیسے تمام مسافر تیزی سے بدلتے مناظر کو دیکھ کر حیرانی میں ڈوب جاتے۔ سب سے زیادہ مزہ تو تب آتا تھا، جب کسی تکنیکی فالٹ کی وجہ سے ٹرین کو کسی جنگل، میدان، یا ویرانے میں رکنا پڑ جاتا تھا۔
لیکن اس کے بعد پاکستانی ٹرینیں ایک ایسے سرخ سگنل پر آ پہنچی، جو اب تک گرین نہیں ہوا ہے۔ 20 سال تک کی عمر کے بہت سارے بچوں نے کبھی بھی ٹرین کے سفر کا لطف نہیں اٹھایا ہے۔
لیکن انڈیا میں ریلوے نہ صرف زندہ ہے، بلکہ اب بھی بہت بہتر حالت میں ہے۔ ٹرینیں ٹائم پر آتی ہیں، اور ٹائم پر روانہ بھی ہوتی ہیں۔ کالونیل دور کے اختتام پر جو ٹرین نیٹ ورک دونوں ملکوں کو وراثت میں ملا تھا، انڈیا نے اسے اچھی طرح ترقی دی ہے۔ کئی جگہوں پر تبدیلی بھی کی گئی ہے۔ کچھ تبدیلیاں بہت اچھی لگتی ہیں، جبکہ کچھ آپ کو ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔
میں چاٹ چھولے والے کا بے صبری سے انتظار کرتا رہا، لیکن اس کے بجائے ہر 20 منٹ مییں ایک ویٹر آتا، اور ٹرے بھر کر کھانے پینے کی چیزیں میرے سامنے رکھ جاتا۔ پورے سفر میں کھاتے پیتے رہنے کی وجہ سے میں شاید ہی اپنے ساتھی مسافروں سے کچھ بات کرسکا۔ مجھے اپنے بچپن میں ٹرین کے کرداروں کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ اب وہ چٹپٹے کھانے صفائی سے پیک کیے گئے کھانے کے پیکٹوں سے تبدیل ہوچکے ہیں۔
انڈین ریلوے کی حد سے زیادہ سخاوت کے متضاد انڈیا کی پرائیویٹ ایئر لائنز ہیں، جن کے مینو میں ہر آئٹم کی قیمت آسمان پر پہنچی ہوئی ہوتی ہے، اور ویٹر سے پانی کا ایک گلاس مانگنے پر بھی آپ کو ندامت ہی ہوگی۔
میرے کچھ انڈین دوستوں نے مذاقاً کہا کہ بہت جلد یہ ایئر لائنز اپنے مسافروں سے ٹوائلٹ کے استعمال کے لیے بھی چارجز وصول کریں گی، اور پرائس لسٹ ٹوائلٹ کے دروازے پر لٹکا دی جائے گی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ پرائس لسٹ میں کیا کیا آئٹمز موجود ہوں گے۔
2: خواتین، ہر جگہ
پاکستان سے انڈیا میں داخل ہوتے ہی ایک اور حیران کن فرق جو آپ کو خوش آمدید کہے گا، وہ ہے خواتین کی عوامی مقامات پر موجودگی۔
وہ ہر جگہ نظر آتی ہیں، ٹرینوں میں، بسوں میں اکیلے سفر کرتے ہوئے، چھوٹے بڑے کاروبار، چائے کافی کے اسٹال، دکانیں، اور موٹرسائیکلیں چلاتے ہوئے۔
ان کا تعلق ہر کلچر اور کمیونٹی سے ہوتا ہے۔ میں نے لدھیانہ میں چھوٹی بچیوں کو سائیکل پر اسکول سے گھر واپس آتے ہوئے دیکھا۔ میں نے حیدرآباد میں برقعے میں ملبوس دو خواتین کو اسکوٹی چلاتے ہوئے بھی دیکھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خوشگوار نظارہ وہ تھا، جب تقریباً سفید بالوں والی ایک معمر خاتون بنگلور میں موٹرسائیکل پر تیزی سے میرے پاس سے گزریں۔
لوگوں سے بھر چکے شہروں، اور کھچا کھچ بھری سڑکوں پر سفر کرنے کے لیے کروڑوں افراد موٹرسائیکل کو ترجیح دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ پاکستان میں ہے۔ لیکن پاکستان کے برخلاف انڈیا میں خواتین کے لیے موٹرسائیکل چلانا کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں ہے۔
احمدآباد میں میرے کچھ دوستوں نے پروگرام بنایا، کہ ایک پوائنٹ پر اکٹھے ہوکر شہر گھومنے کے لیے نکلا جائے۔ لیکن ہر کسی کو وہاں تک پہنچنے میں کچھ مشکلات تھیں، اس لیے میزبان نے بہت مشکل سے دستیاب گاڑیوں کے حساب سے گروپ بنا دیے۔
جب میں بہت مشکل سے ایک گاڑی میں بیٹھ ہی گیا، تو میں نے ساتھ بیٹھے میزبان سے کہا کہ بھابھی (ان کی اہلیہ) تو اب تک آئیں نہیں۔ جواب ملا کہ میں نے اپنی بائیک انہیں دے دی ہے، اور وہ بچے کو اسکول سے اٹھانے کے بعد ہم سے ملیں گی۔ حیرت کے مارے میں خاموش ہی ہوکر رہ گیا۔
اس لیے اگر آپ انڈیا جائیں اور ٹریفک سگنل پر کوئی لڑکی جینز پہنے موٹرسائیکل پر سوار آپ کے پاس آکر رکے، تو اسے گھوریے گا مت، وہاں یہ نارمل ہے۔
3۔ کھانے میں کیا ہے؟
پاکستانیوں کے لیے یہ حیرانی سے بڑھ کر شاک بھی ہوسکتا ہے۔
جب میں واہگہ بارڈر کی انڈین جانب پہنچا، تو مجھے انڈیا میں داخلے کی اجازت عطا ہونے سے پہلے ایک حلف نامے پر دستخط کرنے پڑے، جس میں مجھ سے اقرار کرایا گیا کہ میں کوئی بھی ممنوعہ اشیاء جیسے کہ اسلحہ یا منشیات نہیں لے جارہا۔ یہ تو چلیں عام بات ہے۔ لیکن حلف نامے میں ایک اور چیز بھی تھی، "بیف یا بیف سے بنی چیزیں"۔
میں سوچنے لگا، کہ صبح ناشتے میں کیا کھا کر آیا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بیف کی تلاش کے لیے مجھے ہی اسکینر سے گزرنا پڑے اور….
بہرحال، یہ سرپرائز یا شاک انڈیا کے پورے سفر کر دوران الگ الگ طریقوں سے میرے راستے میں آتا رہا۔
کئی ریسٹورینٹ ایسے ہیں، جو مکمل طور پر ویجیٹیرین کھانا فراہم کرتے ہیں، جبکہ کچھ ریسٹورینٹ نان ویج بھی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن پھر کئی مضبوط عقیدے والے لوگ ایسے کچن سے سبزی کھانا پسند نہیں کرتے، جہاں گوشت بھی پکتا ہو۔ اس لیے وہ ایسے ریسٹورینٹ کا رخ کرتے ہیں جہاں صرف اور صرف ویجیٹیرین کھانا ملتا ہے۔ کئی جگہوں پر ویج اور نان ویج ریسٹورینٹ قطار در قطار پر الگ الگ گلیوں میں نظر آتے ہیں۔
کھانے کے معاملے میں یہ تقسیم پھر رہائش کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے، جہاں ویجیٹیرین مالکان اپنے گھر گوشت خور لوگوں، یعنی مسلمانوں، کرسچنوں، بنگالی ہندوؤں، اور دلت ذات والوں کو کرائے پر نہیں دیتے۔
لیکن اگر آپ کا خاندانی نام ویجیٹیرین طرح کا لگتا ہے، تو آپ اس طرح کی مشکل سے بچ سکتے ہیں۔ ویجیٹیرین کالونیاں اور پلازہ وغیرہ میں کسی بھی نان ویج شخص کو رہائش اختیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے، اور اس پر نظر بھی رکھی جاتی ہے۔ اس لیے اگر آپ کسی سے یہ پوچھیں، کہ رات کو کھانے میں کیا ہے، تو پورے علاقے کے کھانے کے رجحانات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔
گوشت کے علاوہ جین مت کے ماننے والے ادرک اور پیاز کھانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ اس لیے جین لوگوں کے بازار اور کالونیاں بھی الگ ہوتی ہیں۔
پاکستانیوں کے لیے باہر کھانا کھانے کا مطلب گوشت کھانا ہوتا ہے۔ لیکن بوٹیوں کے عاشق پاکستانیوں کے لیے انڈین معاشرے کے اس رخ کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔
اگر آپ ایک گروپ کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں اور گروپ میں موجود نچلی ذات کے حقوق کا کارکن بیف تکہ آرڈر کرے، تو کیا آپ اسے انقلابی سمجھیں گے؟ شاید اس نے بیف تکہ یہی سوچ کر آرڈر کیا ہو، کہ وہ اونچی ذات کے برہمنوں کی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے، جو بیف پر مکمل پابندی کے حق میں ہیں۔
لیکن ایک اچھی خبر یہ ہے، کہ پاکستان میں برے مسلمانوں سے زیادہ انڈیا میں برے ہندو موجود ہیں۔ آپ کو بوٹیوں سے انصاف کرنے کے لیے ساتھی مل جائیں گے۔
پاکستانیوں کو گوشت سے کتنا پیار ہے، اس کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں، کہ جب بھی ویزا پراسس میں آسانیاں ہوں گی، تو واہگہ بارڈر پر کڑاہی اور تکوں کے ریسٹورینٹس کی ایک بڑی قطار وجود میں آئے گی، جن کے بورڈز پر لکھا ہوگا، "گھر واپس آنے پر خوش آمدید"۔
4۔ کرایہ میٹر کے حساب سے
انڈیا میں بہترین ریلوے کے علاوہ اور بھی طرح کی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہیں، جن سے آپ اندرونِ شہر آسانی سے سفر کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں اسے رکشہ کہا جاتا ہے، جبکہ انڈیا میں اسے اس کے پہلے نام یعنی "آٹو" سے یاد کیا جاتا ہے۔
دھواں یہ بھی شاید اتنا ہی چھوڑتے ہیں جتنا پاکستانی رکشے، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں کرائے کا میٹر ضرور ہوتا ہے۔
آپ ان پر اعتماد کر سکتے ہیں، اور دوستوں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ فلاں جگہ تک مناسب کرایہ کتنا ہے۔ کچھ میٹر حکومت کے نئے ریٹس کے حساب سے سیٹ نہیں ہوئے ہوتے، اس لیے آٹو والا آپ کو ایک چارٹ دکھائے گا، جس میں لکھا ہوگا کہ پرانے ریٹ اور نئے ریٹ کس طرح میچ کرتے ہیں۔
آپ انڈیا کے شہروں میں حکومتی رِٹ کی وہ مثالیں بھی دیکھ سکتے ہیں، جنہیں پاکستان میں ہم نے بھلا ہی دیا ہے۔
میں نے سڑک کنارے ایک بک اسٹال کی تصویر لی، تو اس کا مالک پریشان حالت میں بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ پرائیویسی کا مسئلہ نہیں، بس اتنا ہے کہ وہ کتابوں کی نقل بھی فروخت کرتا ہے، جس سے اسے پھنسنے کا اندیشہ ہے۔
"صاحب، میں مانتا ہوں میرے پاس پائریٹڈ کتابیں موجود ہیں"۔ اور مجھے فوراً احساس ہوا کہ پاکستان میں کس طرح کھلے عام کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا یہ کاروبار کیا جاتا ہے، جس سے میں خود بھی کتنی بار مستفید ہوچکا ہوں۔
میرے کچھ انڈین دوستوں نے کہا، کہ "سب چلتا ہے"، اور یہ کہ اس طرح کے اقدامات صرف نمائشی سطح تک محدود ہیں۔ لیکن ایک ایسے ملک کا باشندہ ہونے کے تحت، جس نے نمائشی سطح بھی برقرار نہیں رکھی، میرے لیے یہ "نمائشی اقدامات" نہایت حیرانی کا باعث تھے۔
5۔ ڈیڑھ ارب لوگ، لاتعداد گروپس
میں پاکستانی پنجاب میں پیدا ہوا، پلا بڑھا، اور جب میں نے ٹین ایج سے آگے قدم بڑھایا، تب تک میں صرف اردو اور پنجابی اسپیکنگ، اور کچھ پختونوں کو جانتا تھا۔ میں نے پہلی بار ایک سندھی شخص کو تب دیکھا اور دوست بنایا، جب میں نے فیڈرل کالج میں داخلہ لیا۔
پاکستان کے کلچر میں اتنی وسعت نہیں۔ اس کے مقابلے میں انڈیا تو کلچروں کا ایک سمندر ہے، جس میں بے انتہا وسعت پائی جاتی ہے۔
آپ لدھیانہ میں ایک کناڈیگا سے، حیدرآباد میں منی پوری سے، اور بنگلور میں کسی بہاری سے مل سکتے ہیں۔ انڈیا میں بے شمار زبانیں، لب و لہجے، کلچر اور ذیلی کلچر، مذاہب، فرقے، ذاتیں، ذیلی ذاتیں، اور طبقے پائے جاتے ہیں۔
ان سب چیزوں کے اتنے کامبی نیشن بنتے ہیں، کہ انسان کا دماغ چکرا کر رہ جائے۔
گوا کے ایک کرسچن نے اڑیسہ کی ایک ہندو سے شادی کی، اور احمد آباد میں رہائش اختیار کی۔ جبکہ جس کمپنی میں وہ کام کرتا ہے، وہ گجرات کے ایک بوہری مسلم کی ملکیت ہے۔ اب ایسا خاندان اپنی شناخت کیسے بیان کرے گا؟
لیکن یہ سمندر ہر جگہ ہر وقت بالکل پرسکون بھی نہیں ہے۔ ہر کچھ وقت کے بعد کسی نا کسی گروپوں کے درمیان کشمکش ہوتی رہتی ہیں۔ سماجی، اقتصادی، اور سیاسی گروہ اکثر اس سب کو ہوا دیتے ہیں، جس سے ایک منافع بخش تماشہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
میں اس بات پر تبصرہ نہیں کروں گا کہ انڈیا اپنی ثقافتی وسعت کو ٹھیک سے ہینڈل کر رہا ہے یا نہیں۔ میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ انڈیا میں ہر طرح کے لوگ اور گروپ پائے جاتے ہیں۔
انسان کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں، یہ چیز ایک پاکستانی کے لیے بہت حیران کن ہوسکتی ہے۔ یقین مانیے، بنگلور میں اپنی پنجابی شناخت چھپانے کے بجائے پنجابی بولنے کا اپنی ہی الگ مزہ ہے۔
6۔ نیو ورلڈ آرڈر
شروع میں تو میں نے جب پہلی بار اس چیز کا سامنا کیا، تو نظر انداز ہی کیا۔ لیکن اس کے بعد مجھے پوری بات سمجھ آگئی۔
پاکستان میں اگر کوئی شخص مثال کے طور پر اپنا نام جے پرکاش بتائے، تو ایک عام پاکستانی کا اگلا سوال ہوگا، "کیا آپ پاکستانی ہیں؟"۔
لیکن انڈیا میں یہ نہیں ہوگا، بھلے ہی آپ کا نام طاہر مہدی کیوں نہ ہو۔
انڈیا میں جب تک آپ کسی کو اپنی شہریت نہ بتائیں، تب تک کوئی نہیں جان سکتا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔
نہ ہی آپ کی بول چال سے کوئی اندازہ لگا سکتا ہے، اور نہ ہی تب، جب آپ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات پر بحث کریں۔
اور یہ چھپی ہوئی شناخت کبھی کبھی دلچسپ صورت حال بھی پیدا کردیتی ہے۔
ایک آٹو رکشہ والا بڑے فخر سے بتا رہا تھا، کہ کس طرح انڈیا نے پاکستان کو تمام جنگوں میں "سبق سکھایا"۔ ہم ایک اسٹیڈیم کے پاس سے گزر رہے تھے، جہاں کبھی دونوں ممالک کے درمیان ایک کرکٹ میچ ہوا تھا۔ لیکن وہ ایشیا کپ 2014 میں انڈیا کی پاکستان کے ہاتھوں شکست پر انڈین کھلاڑیوں کو قصوروار سمجھتا تھا۔
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے بارے میں اس طرح کی باتیں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہیں۔
لیکن مزہ تب آتا ہے، جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک پاکستانی سے بات کر رہے ہیں۔ اسی وقت لہجے اور موقف میں نرمی آجاتی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم تو بھائی ہیں۔
لیکن کچھ لوگ اس کو اگلے لیول تک بھی لے جاتے ہیں۔
"سنو، ادھر، اپنا کان آگے کرو، آپ کو معلوم ہے یہ امریکہ کی سازش ہے۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے۔ یہ ہمیں اس لیے لڑواتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر انڈیا اور پاکستان اکٹھے ہوگئے، تو انہیں پوری دنیا پر حکومت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا"۔
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔