نقطہ نظر

کچھ حل

افرادی قوت اور وسائل عسکریت پسندی مٹانے کیلیے کافی نہیں بلکہ مشنری جوش، تیاری، جدت اور عوامی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔

ہر پاکستانی دہشت گردی کا حل ڈھونڈنا چاہتا ہے، اس چیلنجنگ صورتحال میں اس حقیقت کو سمجھنا کہ امن کتنا اہم ہے ایک امید کی کرن ہے اور قیادت کو اسے پیشرفت کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔

اس تاثر میں توسیع کہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی) مکمل طور پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس کی ذمہ داری ہے ٹھیک نہیں، یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، ہر ایک یعنی عام افراد، مذہبی حلقے، ہماری سیاسی قیادت، بیوروکریسی اور میڈیا کو انسداد دہشت گردی کی طویل المعیاد حکمت عملی کا حصہ بننا چاہئے۔

انسداد دہشت گردی قانون سازی، صلاحیت میں اضافہ، انٹیلی جنس شیئرنگ اور عملدرآمد کے لیے ہم عصر سوچ کی ضرورت ہے، کسی سرگرم انسداد دہشت گردی باڈی کے بغیر اس معاملے پر مثالی قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں، اس کے لیے سخت عملدرآمد کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس جنگ کو صرف قانون نافذ کرنے والے افسران کے خون سے نہیں ختم کیا جاسکتا، بلکہ اس کے لیے بہتر انٹیلی جنس، موثر فنانسنگ، پیشہ وارانہ صلاحیت، عملدرآمد اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی۔

ملکی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی میں انسانی پہلو پر مرکزی توجہ دی جائے جس میں انتہاپسندانہ سوچ اور ان کے دوبارہ اتحاد کی روک تھام بھی شامل ہونا چاہئے، شہریوں کی رجسٹریشن میں مزید سختی کی ضرورت ہے اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شفافیت کے عمل کی ضرورت ہے۔

فارنرز ایکٹ 1946 پر پارلیمانی نظرثانی کی ضرورت ہے اور ملک بدر کرنے کے عمل کو سادہ بنایا جانا چاہئے، غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والوں کی بے دخلی کے لیے کثیر فریقی انتظامات پر کام کیے جانے کی ضرورت ہے اور غیرملکیوں کی نگرانی کو زیادہ منظم طور پر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی کو اپنا تفویض کردہ کردار ادا کرنا چاہئے جیسا کہ نادرا نے 2010 میں کیا اور گیارہ ہزار چار سو غیرملکیوں کی شناختی کارڈز کے حصول کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔

دہشت گردی کے معاملے میں گاڑیوں کی نقل و حرکت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے، جب ایک گاڑی دھماکہ خیز مواد سے لیس ہو تو اسے جان لیوا ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسی گاڑیاں جنھیں چھین لیا گیا ہو یا جن کی ڈیوٹیز ادا نہ کی گئی ہوں، وہ مالاکنڈ ڈویژن، فاٹا اور بلوچستان میں باآسانی دستیاب ہیں، چونکہ وہ رجسٹرڈ نہیں ہوتی تو جب انہیں بم دھماکے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو تفتیش کاروں کے لیے تفتیشی عمل کو آگے بڑھانا لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے۔

ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے کے لیے متعدد گاڑیوں کے مالکان اوپن ٹرانسفر لیٹر کو اپنے پاس رکھتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی گاڑیوں کو تین ماہ کی رعایتی مدت کے بعد ضبط کرلے اور ان کی واپسی اسی وقت کی جائے جب ان پر عائد ٹیکس ادا کردیا جائے اور وہ اصل مالکان نے نام پر منتقل ہوجائیں، اس طرح کے اقدامات سے نا صرف قومی خزانے کو بھرنے میں مدد ملے گی بلکہ ایسی گاڑیوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کے واقعات کی شرح بھی کم ہوگی۔

بلاشبہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہوتی ہے مگر حساس مقامات جیسے سفارتخانوں، اسکولوں، ایئرپورٹس، فوجی تنصیبات اور پولیس کی عمارات میں آٹومیٹک نمبر پلیٹ کو شناخت کرنے والے نظام کو نصب کیا جانا چاہئے۔

کمیونیکشن کے بغیر کسی بھی دہشت گرد مشن کو مکمل نہیں کیا جاسکتا، حکومت نے حال ہی میں ملکی ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کو فاٹا اور کے پی کے مختلف حصوں میں افغان ساختہ سموں کے خاتمے کے آپریشن کی ہدایت کی، یہ ایک مثبت اقدام ہے کیونکہ اس وقت چالیس ہزار غیرقانونی افغان سمیں پاکستان میں آپریٹ ہورہی ہیں، غیرقانونی سموں کے استعمال میں کمی لانے کے لیے ان کی رجسٹریشن شناختی کارڈ نمبرز، بائیومیٹرک نقوش اور پوسٹل ایڈریس کے ذریعے کی جانی چاہئے، ہر فرد کے لیے استعمال میں سموں کی تعداد دو تک محدود کردی جانی چاہئے۔

تمام صوبوں کے اپنے انسداد دہشت گردی ونگز ہیں مگر ان کے درمیان تعاون کی سطح موثر نہیں، اگرچہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے انتظامی سطح پر متحد کمانڈ اسٹرکچر کے ماڈل کی ضرورت ہے، ایک ملکی سطح کا ادارہ تمام صوبوں کی نمائندگی کرسکتا ہے جس پر حدود کے اندر رہنے کی پابندی بھی نہیں ہوگی۔

فوجی آپریشن کے آغاز سے قبل فاٹا دہشت گردی کے لیے لانچنگ پیڈ اور پناہ گاہ تھا، جہاں سے شہری علاقوں کو بار بار ہدف بنایا جاتا تھا، فاٹا میں انتظامی اصلاحات ضروری ہیں اور اسے سی ٹی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہئے، قبائلی افراد کو جو مختلف علاقوں میں بکھر گئے ہیں انہیں واپس فاٹا لائے جانے کی ضرورت ہے، کمیونیکشن، تعلیمی اور طبی سہولیات کی فراہمی کا دوبارہ آغاز اقتصادی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرے گی، اگر بڑی اصلاحات ممکن نہیں تو کم از کم روایتی سیکیورٹی میکنزم اور اس کے ساتھ بلدیاتی حکومت کے اداروں کے ذریعے قبائلی افراد میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے۔

پولیس کی تربیت کی رفتار بھی درپیش چیلنجز کے مقابلے میں کم ہے، عسکریت پسند اپنی ضروریات کے مطابق سخت اور مقاصد کے حصول کی تربیت حاصل کرتے ہیں، مگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے افسران کی تربیت کا ماڈل وہ برطانوی سامراج کے عہد کا ہے، تربیتی ماڈلز میں ممکنہ خودکش بمباروں کا سامنا، آئی ای ڈیز، مغویوں کی صورتحال وغیرہ سے نمٹنا شامل کیا جانا چاہئے، اور اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں، نادرا اور موٹر رجسٹریشن اتھارٹیز کے درمیان معلومات شیئرنگ کو منظم کیا جانا چاہئے۔

فوجداری نظام انصاف میں موجود خلاءکو بھرا جانا چاہئے، اس وقت دہشت گردی کے مقدمات میں سزاﺅں کی شرح افسوسناک تصویر پیش کرتی ہے جس میں ہنگامی بنیادوں میں بہتری کی ضرورت ہے، پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کے مالیاتی وسائل کی روک تھام کو بھی یقینی بنانا چاہئے، افرادی قوت اور وسائل عسکریت پسندی کو مٹانے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے لیے مشنری جوش، تیاری، جدت اور عوامی تعاون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک پولیس افسر ہیں۔

محمد علی باباخیل

لکھاری ’پاکستان: ان بٹوین ایکسٹریم ازم اینڈ پیس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔