دنیا

آسٹریلین خواتین کا مسلم خواتین سے اظہارِ یکجہتی

عیدالاضحیٰ کے موقع پر کینبرا کی غیرمسلم خواتین کے ایک گروپ نے اسکارف پہن کر مسلم خواتین کو گلدستے پیش کیے۔

کینبرا، آسٹریلیا: ابھی یہاں اسلام مخالف بیانات میں شدت دیکھی جارہی تھی، اب اس کے ایک ہفتے بعد یہاں کی غیر مسلم خواتین کے ایک گروپ نے مسلمان خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنے سروں پر اسکارف باندھ کر مسلمانوں کے تہوار میں شرکت کی اور مسلم خواتین کو گلدستے پیش کیے۔

پچھلے ہفتے کینبرا میں تین مختلف مقامات پر مسلم کمیونٹی نےعیدالاضحیٰ یا قربانی کا تہوار منایا۔ اس موقع پر مسلم گھرانوں نے نماز ادا کی اور ضیافت میں شرکت کی۔

کینبرا ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس موقع پر آسٹریلین غیر مسلم خواتین کے ایک گروپ کی طرف سے یہ خیرسگالی کا رویہّ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پوری مغربی دنیا سمیت آسٹریلیا میں بھی اسکارف کے خلاف مہم جاری ہے۔

چھبیس برس کی انابیلے لی نے حمایت کے اظہار کے لیے اس پروگرام کی تیاری میں مدد کی، ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں کا ابتدائی ردّعمل بہت محتاط تھا، لیکن جلد ہی وہ خوشگواریت میں تبدیل ہوگیا۔

انہوں نے کہا ’’ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں افسوس ہے کہ آپ کے ساتھ میڈیا میں بہت بُرا سلوک کیا جارہا ہے، اور ہم آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اظہارِ یکجہتی کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم آپ کے ساتھ نفرت کے بجائے محبت کا اشتراک کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

انابیلے لی نے کہا ’’اور جب انہوں نے ہماری باتیں سنیں تو ان میں سے بہت سی خواتین نے ہمیں بڑھ کر گلے لگالیا، بہت سی خواتین نے مسکرا کر جواب دیا، اور کچھ کے تو آنسو نکل آئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’ہم نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو پھول پیش کیے اور بعد میں بروس سٹیڈیم میں نماز عید میں بھی شرکت کی، اس موقع پر بعض مسلمان مردوں نے ہم سے کہا کہ ہم ان کی اہلیہ کو بھی پھولوں کا تحفہ دیں۔‘‘

اسلامک سوسائٹی کے نائب صدر حسن وارثی کا کہنا ہے کہ غیرمسلم خواتین کے اس طرزعمل نے یہاں کینبرا کی مسلم برادری کے خواتین و حضرات کے دل پر اثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’وہ لوگ آگے بڑھے اور اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھ کر کہنے لگے، دیکھیے ہم یہاں آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کو جانتے ہیں کہ آپ اچھے لوگ ہیں اور ہمارے ہی جیسے ہیں۔ ہم سے ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے اور ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہونا چاہیے۔‘‘

کینبرا کے ایک اور مسلم شہری، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، کا کہنا تھا کہ انابیلے لی اور ان کی سہیلیوں نے جو کچھ کیا، ہر ایک کو اس کی تعریف کرنی چاہیے۔

انابیلے لی نے بتایا کہ انہیں اور ان کی سہیلیوں کو یہ خیال اپنی مسلم دوست رادیہ سے بات چیت کے بعد آیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’رادیہ نے ہمیں بتایا کہ اس پر ذاتی طور پر تو کوئی حملہ نہیں ہوا تھا، لیکن وہ خود کو بہت زیادہ تنہا محسوس کررہی تھی۔ اس کو ڈر تھا کہ جب وہ کسی دکان پر گئی تو کوئی بھی اس سے بات نہیں کرے گا، اور اس وقت وہ خود کو بہت زیادہ غیرمحفوظ تصور کررہی تھی۔‘‘

’’لہٰذا ہم نے سوچا کہ ہم اس صورتحال میں کچھ نہ کرنے کے بجائے کوئی مثبت اقدام کیا کرسکتے ہیں، تاکہ ان خواتین کو اس طرز کی سوچ سے دور رکھا جائے۔‘‘

حسن وارثی کہتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اس اعلان کے بعد سے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ سے لڑائی میں مدد کے لیے اپنے جہاز بھیج رہا ہے، تو کینبرا میں ان کے خاندان یا مسلم برادری کے رویے میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کینبرا کے لوگ بہت کشادہ دل ہیں۔ ’’میں یہاں طویل عرصے سے مقیم ہوں اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کینبرا میں دنیا کے بہت سے دوسرے شہروں کی نسبت کہیں زیادہ کشادگی ہے۔‘‘