نقطہ نظر

اصلاحات کی جانب پہلا قدم

حکومت کو اب سمجھ جانا چاہیے کہ دھرنے اور مظاہرے سسٹم سے عوامی بیزاری کا اشارہ ہیں، اور اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔

پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں سے دو سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت یہ سمجھ سکتی ہے کہ وہ اتنی زخم خوردہ اور کمزور ہوچکی ہے، کہ اس کے پاس سخت معاشی اور اسٹرکچرل اصلاحات لانے کی ہمت اور عزم باقی نہیں بچا۔ ان اصلاحات کی وجہ سے جن لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی، ان کی جانب سے رد عمل اور مظاہرے فیصلہ سازوں کو مزید غیرفعال کردیں گے۔ اور اگر متاثر ہونے والے ان لوگوں میں حکومت کے اتحادی اور حامی شامل ہوں، تو مسئلہ بڑھے گا۔

ایک امید یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ حکمران جماعت اور دیگر اتحادی جماعتوں نے اب معاملات سے عوام کی ناراضگی اور مایوسی کا اندازہ لگا لیا ہے، اور اب وہ کافی عرصے سے ٹھہرے ہوئے کام کرنے کے لیے اقدام کریں گی۔ انہوں نے اصلاحات نہ لانے کے نقصانات کو سمجھ لیا ہے۔ مظاہرے اور عوامی تاثرات سے سیاسی لیڈرشپ کو یہ اندازہ ضرور ہوجانا چاہیے، کہ اسٹیٹس کو اب لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہوتا جارہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کو جمہوریت کے تحفظ کے لیے ساتھ ملا لینے کا منطقی نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ اب یہ دونوں دھڑے مل کر گورننس کے تباہ شدہ ڈھانچے اور کمزور اداروں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر کے دوبارہ کھڑا کریں۔ کیونکہ بہرحال جمہوریت مضبوط اداروں اور گڈ گورننس کے بغیر صحیح معنوں میں قائم نہیں ہوسکتی۔ اب چونکہ یہ اصلاحات طویل مدتی ہیں، اس لیے ان اصلاحات کی مخالفت کرنے والوں کے پریشر کا مقابلہ کرنے کے لیے اپوزیشن کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے، تو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں خواجہ آصف کیس میں دائر کی گئی اپیل بہت مایوس کن ہے۔ فیصلے کے تحت ماہرین کا ایک آزاد کمیشن ریگولیٹری کے چیف ایگزیکٹو اور دیگر اہم ریاستی اداروں کے لیے ایک شفاف طریقہ کار کے تحت تین افراد کو نامزد کرے گا۔ یہ تمام نامزدگیاں اسکریننگ اور اسکروٹنی کے بعد ہی طے پائیں گی۔ لیکن ایسا کرنے سے وزیر اعظم کے اختیارات بالکل بھی کم نہیں ہوں گے، بلکہ انہیں اس نامزد شدہ پینل میں سے انتخاب کرنے میں آسانی ہوگی۔

وزیر اعظم کے پاس کمیشن کے نامزد کردہ پینل کو مسترد کر کے ایک نئے پینل کی نامزدگی کا کہنے کا مکمل اختیار ہوگا۔ یہ طریقہ کار وزیر اعظم کی پوزیشن کو بھی مستحکم کرے گا، کیونکہ اس طرح سے کوئی بھی ان پر اقربا پروری، ذاتی پسندیدگی، یا وفاداری کی بنا پر تعیناتی کا الزام عائد نہیں کرسکے گا۔

زیادہ تر کیسز میں، کسی بھی ادارے کا سربراہ جو اس طریقہ کار کے تحت میرٹ پر منتخب ہوا ہوگا، وہ اپنی ٹیم بھی انہی بنیادوں پر منتخب کرے گا۔ اسی طرح سے تعینات کردہ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز نتائج کے لیے چیف ایگزیکٹو کو ذمے دار ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر اس نظام کو ایمانداری سے نافذ کردیا جائے، تو ریاست کے اہم ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں، اور ان کی پرفارمنس کافی حد تک بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

سوچا جائے تو اگر ایس ای سی پی، نیپرا، اوگرا، سی سی پی، پیمرا، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، جینکوز اور ڈسکوز کے سربراہان کو اس طرح منتخب کیا جائے، تو اس طرح ان اداروں کے تقدس پر اعتماد بحال ہوگا، ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا، اور ان کو قانونی جواز بھی مل سکے گا۔ لیکن اگر اختیارات کو ایک مرکز تک محدود رکھا جائے، جس میں فیصلہ سازوں کو تمام تعیناتیاں کرنے میں اپنی مرضی کا اختیار حاصل ہو، تو پھر یہ ادارے کبھی بھی صلاحیت اور کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکیں گے۔

دھرنے اور مظاہرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں، کہ 67 سالوں سے ملک جس طرح چلایا گیا ہے، لوگ اب اس سے بیزار ہوچکے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ ریاستی اداروں سے لوگوں کی بیزاری کو بتدریج ختم کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اب ریاست کا رخ مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے موڑ کر ایسا کردیا جائے، جس میں ترقی کے فوائد تمام لوگوں تک برابری کے ساتھ پہنچیں۔ یہ صرف تب ہوسکتا ہے، جب فیصلہ سازی کا حالیہ طریقہ کار، جس میں ذاتی پسند ناپسند کو خاصی اہمیت حاصل ہے، تبدیل کیا جائے، اور اس کی جگہ مشاورت، چیک اینڈ بیلنس، اور ضوابط کے تحت ایک نظام وضع کیا جائے۔

یہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ اس کے لیے بہت وقت، کوششیں، اور تحمل درکار ہوگا۔ اس ایجنڈے کی تکمیل میں پہلا قدم تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق کرنا ہے۔ مظاہرین کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے، اور اس کے علاوہ تمام جماعتوں کا حالیہ اتحاد بھی اس سفر کے آغاز کے لیے صحیح وقت ہے۔

ایسی تبدیلی لانے کے لیے اصلاحاتی ایجنڈا جامع ہونا چاہیے، جس میں عدالتی، انتخابی، پارلیمانی، سول سروس، بلدیاتی، معاشی، اور معاشرتی سیکٹرز کو شامل کیا جائے۔ کئی کیسز میں تفصیلی روڈ میپ موجود ہیں، جن کو کابینہ اور پارلیمانی کمیٹیاں استعمال کرسکتی ہیں، جبکہ دوسرے کیسز، جیسے انتخابی اصلاحات وغیرہ پر کام جاری ہے۔

کچھ سیکٹرز کے لیے نئے ڈیزائن تیار کرنے پڑیں گے۔ انڈیا سمیت دیگر جمہوریتوں میں ایک چیز جس نے اس سمت میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے، وہ ہے بلیو ربن کمیشن، جس میں ماہرین، عملدار اور اہلکار، منتخب نمائندے، سول سوسائٹی کے نمائندے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ان کمیشنوں کو اس بات کا مینڈیٹ دیا جاتا ہے، کہ تمام شراکت داروں (سول سوسائٹی) کے اشتراک سے ایک فریم ورک اور ایکشن پلان وضع کیا جائے۔ ان کمیشنوں کے کام تک میڈیا اور عوام کو رسائی دی جائے۔

لیکن پاکستان میں اب تک کا تجربہ یہ رہا ہے کہ ان تمام کمیشنوں کی رپورٹیں سرد خانے کی نذر ہوگئیں ہیں۔ وجہ؟ فیصلہ سازوں نے "اسٹیٹس کو" کو برقرار رکھنا چاہا ہے، اور اپنی طاقت، مراعات، اثاثوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ لیکن اب نئے اور تبدیل شدہ حالات میں جب ایک بار تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے سفارشات تیار ہوجائیں، تو فیصلہ سازوں کے پاس دیانتداری سے ان کو نافذ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہونا چاہیے۔

آئیں امید کرتے ہیں، کہ ہم اس سیاسی بحران کا پاکستان کی تبدیلی کی جانب پہلا قدم بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے، ایسا پاکستان جس کی سیاسی لیڈرشپ روشن خیال، اور بیوروکریسی میرٹ کا خیال رکھنے والی اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری The Economy of an Elitist State کے مصنف ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

عشرت حسین

لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک، اور ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں پبلک پالیسی فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔