پل پل رنگ بدلتے کپتان شاہد آفریدی
شاہد آفریدی کے بارے میں سوچیں اور پھر کامک بک ہیروز کو ذہن میں لائیں، اگرچہ بیشتر مواقعوں پر وہ حقیقی زندگی کے ہیرو ثابت نہیں ہوتے جو تمام تر مشکلات کے خلاف جہدوجہد میں کامیاب ہو، تاہم پھر بھی وہ اسپائیڈر مین، سپرمین اور بیٹ مین کا بدترین مجموعہ ضرور لگتے ہیں۔
لگ بھگ ہمیشہ ہی ہم نے انہیں ریسکیو کے مراحل سے دور ہوتے دیکھا ہے، یعنی جیسے کوئی ہیرو سیدھا اس وقت دیوار سے جاٹکرائے جب وہ سو منزلہ عمارت سے غلط طریقے سے چھلانگ لگا دے یا اغوا کرنے والے ولن کا مقابلہ کرتے ہوئے مارکھائے، اگرچہ پاکستانی کپتان کا خطاب شاہد آفریدی پر سجتا ہے خاص طور پر اس وقت جب وہ واقعی کیپٹن بن چکے ہیں۔
یاکیا انہیں تاریخ کا ایک شخص سمجھا جاسکتا ہے، یعنی ایسا رابن ہڈ جو تفریح سے محروم غریبوں کی دنیا کو بدل دے جن پر اسلام آباد کے شریفوں کو غلبہ حاصل ہے؟ کیا وہ پاکستان کرکٹ کے ایسے پل پل رنگ بدلتے سدا بہار پودے ہیں جنھیں سب کے ناکام ہونے پر اس حقیقت سے واقفیت کے باوجود طلب کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آجروں کا بہت کم ہی احترام کرتے ہیں، جو کہ آگے بڑھتی فوج سے اکیلا لڑتا ہے اور ٹیم میں اپنے تحریر کردہ کردار سے الگ اپنی خفیہ صلاحیتوں کو بروئے عمل لاتا ہے؟
ان سب سے قطع نظر کہ ان کی کارکردگی ناقص ہے یا حکام ان کے ساتھ زیادہ اطمینان محسوس نہیں کرتے، ایک بار پھر یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ حقیقی شخصیت سے زیادہ افسانوی لیجنڈ لگتے ہیں، یعنی وہ ایسے واحد کرکٹر ہیں جو دونوں ٹیموں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
تو آخر شاہ آفریدی کون ہے اور کیا ہے؟ آخر وہ ایسے فرد کیوں ہے جو اگر پہلی گیند پر ہی اپنی وکٹ گنوا دے تو ان کے جانے کے بعد اسٹیڈیمز خالی ہوجاتے ہیں؟
وہ ایسے ہیں جن کے مخالفین بھی ان کے پیچھے کسی راک اسٹار یا سینما اسٹار کی طرح دیوانے ہیں؟ درحقیقت انہوں نے ایک قوم اور گھرانوں کو تقسیم کردیا ہے، ایسا فرد جو اپنے اقدار اور صلاحیتوں کی بناءعوامی رائے پر اثرانداز ہوتا ہے بالکل جیسے ذوالفقار علی بھٹو یا آج عمران خان ہورہے ہیں؟ آپ یا تو ان سے محبت کرسکتے ہیں یا نفرت۔
اگر آپ کسی ماہر نفسیات سے پوچھیں تو وہ سیدھا کہہ دے گا کہ شاہد آفریدی پہلے انٹرٹینر ہیں اور پھر پرفارمر ہیں، آپ اسے جتنی جلد قبول کریں گے اتنی ہی برق رفتار سے اپنے بلڈ پریشر کا علاج بھی کرسکیں گے، وہ جدید دور کے کھیل کا ایک ایسا مجموعہ ہیں جو بالکل اس طرح ہے جو ماضی میں کلوزیم میں پرجوش لوگوں کو مزید خون کے نعرے لگانے پر مجبور کردیتا تھا، انسانی اقدار کمزور دلوں اور اولڈ فیشن ہیں۔
شاہد آفریدی بین الاقوامی کرکٹ میں ایک دھماکے کے ساتھ داخل ہوئے یعنی سری لنکا کے خلاف 1996 میں 37 گیندوں میں سنچری، جس سے ٹیم میں ان کا کردار لیگ اسپنر سے بلند و بالا چھکے مارنے والے آل راﺅنڈر میں تبدیل ہوگیا، وہ اس وقت سولہ سال کے تھے، ایسی عمر جب ہر کسی کو لگتا ہے کہ وہ دنیا کو تنہا تبدیل کرسکتا ہے اور جب آپ کو اس سے برعکس سمجھانے اور بتانے کی کوشش کی جائے تو آپ ان کی نااہلی، ان کے خوف اور ان کے احمقانہ قنوطیت کا مذاق اڑاتے ہیں، زندگی کے اس دور میں ٹائپ اے شخصیات کسی کاک ٹیل کی طرح ہوتی ہیں۔
اس دور سے اپنی قاتلانہ شخصیت صرف کرکٹ کے میدانوں میں نہیں بلکہ ڈریسنگ رومز، چیئرمین کے کمروں، سلیکشن میٹنگز اور میڈیا کے سامنے آفریدی چھاگئے، وہ پرجوش شخصیت کی حیثیت سے سامنے آئے، جسے احتیاط سے ہینڈل کرنا ہوتا ہے اور جو ان سے تعلق میں ہوتے ہیں انہیں ہی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اختلاف ان کی خوبی ہوتی ہے۔
گزشتہ اٹھارہ سال کے دوران آفریدی اس بات سے واقف ہیں وہ ایسے فرد ہیں جس کے بارے میں دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، جتنا جلد سلیکٹرز، کپتان، انتظامیہ، ساتھی کھلاڑی، تماشائی اسے جتنی جلدی سمجھیں گے اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔
ان کی گزشتہ برسوں کے دوران اپنے کپتانوں سے اختلاف رائے کی سوچ نے انہیں اپنی شعلہ بیانی کو ذہنی طاقت سے جوڑنے پر مجبور کردیا، جس سے ان کی بطور بلے بازی کی صلاحیت ہوگئی اور ان کے جیسے کھلاڑی جیسے اینڈریو سائمنڈز اور حال ہی میں کورے اینڈرسن(جنھوں نے آفریدی کا تیز ترین سنچری کا ریکارڈ توڑا) اہم مراحل میں زیادہ موثر کھلاڑٰی بن کر سامنے آئے۔
آفریدی نے ٹیسٹ کرکٹ سے اس وقت منہ موڑ لیا جب ان کا ستائیس میچز میں 1700 سے زائد رنز کا کیرئیر 36.51 کی اوسط اور 86.91 کے اسٹرائیک ریٹ سے سجا ہوا تھا، جس میں پانچ سنچریاں بھی شامل ہیں، اور جہاں تک بات ہے محدود اوورز کے فارمیٹ کی(جو کہ ان کے طرز کھیل کے لیے زیادہ موزوں ہے) تو وہ واحد کرکٹر ہیں جس نے 381 میچز میں پچیس سے بھی کم کی اوسط کے ساتھ ساڑھے سات ہزار رنز سے زائد بنارکھے ہیں جس میں چھ سنچریاں بھی شامل ہیں۔
وہ خود کہتے ہیں کہ وہ محدود اوورز کے مقابلوں میں خود کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو دونوں کا تجزیہ آپ خود کریں۔
شاہد آفریدی کے بارے میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر بات کی جاسکتی ہے جیسے کھیل کے دوران وہ بظاہر کسی وجہ کے بغیر ہربھجن پر چڑھ دوڑتے ہیں یا گوتم گھمبر کی جانب ہوائی بوسہ اچھالتے ہیں، وہ 26 کیمروں کی نظروں سے بچ کر کرکٹ گیند کو چبانے کی کوشش کرتے ہیں،اپنے اوورز کے دوران درمیان میں کھڑے ہوکر اپنے نوکیلے جوتوں سے پچ کو اکھاڑتے ہیں، اور پھر بھی گیم کے وقار کی جنگ لڑتے ہیں۔
وہ اپنے پاس کوئی اتھارٹی نہ ہونے کے باوجود اپنی قسمت پر کنٹرول کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں پی سی بی کی جانب سے نوٹیفکیشن ملتا ہے کہ وہ اپنی بولنگ کے دوران بے تابی سے فوری ڈی آر ایس اپیلز کرنے سے گریز کریں، کیونکہ یہ کپتان مصباح الحق کی اتھارٹی ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کریں۔
وہ اپنے شعبے میں سب سے بہتر نظر آنے کے خبط میں مبتلا ہیں، وہ دوسروں کے سامنے نیچا نظر آنا پسند نہیں کرتے، مثال کے طور پر 2008 میں آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن میں جب وہ دکن چارجرز کی جانب سے تاخیر سے ایونٹ کا حصہ بنے، جس کی وجہ پاکستان کی بنگلہ دیش کی میزبانی تھی۔
اس ایونٹ کے افتتاحی میچ میں جب برینڈن میککولم نے کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی جانب سے 73 گیندوں پر 158 رنز اسکور کیے تو پاکستان میں آفریدی کا پہلا ردعمل تھا کہ وہ اس سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
مگر دکن چارجرز کی جانب سے آفریدی نے پورا ٹورنامنٹ ہر میچ میں پہلی گیند پر وکٹ گنواتے ہوئے گزارا حالانکہ انہوں نے اپنا مخصوص انداز بدلنے کی بھی کوشش کی۔
دکن چارجرز کی جانب سے خرچ کیے گئے چھ لاکھ 75 ہزار ڈالرز ہر بار کچھ ہی منٹوں میں پویلین واپس لوٹ آنے پر ضائع ہوگئے، اور ٹورنامنٹ کے اختتام تک وہ ٹیم میں کافی غیرمقبول ہوگئے۔
متعدد افراد حیران ہوسکتے ہیں کہ پل پل رنگ بدلنے والے کسی شخص کو قائدانہ کردار کیسے سونپا جاسکتا ہے، مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاہد آفریدی ایک دلیر شخص ہیں، وہ لاپروا ضرور ہوسکتے ہیں مگر ان کے عزم کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
ان کا پلان بہت سادہ ہوتا ہے جو کہ بنیادی طور پر بس کسی طرح بھی کامیابی کا حصول ہوتا ہے، بالکل عمران خان کی طرح، وہ ایسے کھلاڑیوں کی قدر کرتے ہیں جو اپنی سو فیصد صلاحیتیں ٹیم کی کامیابی پر لگادیتے ہیں اور ٹیم میں شامل نوجوان کھلاڑی بھی آفریدی کی جانب ہی دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے کھڑے ہوکر انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ میری طرح وہ ناکامی سے کبھی خوفزدہ نہ ہو۔
اس طرح کرکے وہ قیادت کے اصل جوہر کو پالیتے ہیں یعنی خود پر یقین، ہوسکتا ہے کہ ان کی متعدد غلطیوں نے ٹیم کا مورال گرایا ہو مگر یہ مت بھولیں کہ 2011 کے ورلڈکپ میں جب وہ کپتان تھے تو انہوں نے تن و تنہا اپنی بولنگ سے ٹیم کو آگے بڑھایا، ان کے بغیر اس ٹیم کا سیمی فائنل تک پہنچنا آسان نہ ہوتا، اور سب سے اہم یہ کہ انہوں نے خود پر اس وقت بھی کنٹرول رکھا جب پانچ کیچز کو چھوڑ دیا گیا، اس طرح انہوں نے اپنی منفرد باشعور شخصیت کا مظاہرہ کیا۔
ایک سال قبل آفریدی نے بیٹھ کر روتے کراہتے سعید اجمل کا حوصلہ بڑھایا جو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل میں اپنے آخری اوور میں بیس رنز دینے کے باعث پاکستان کی شکست پر ہمت ہار چکے تھے، اس وقت قومی ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع کررہی تھی، کتنے کپتان ایسا کرتے ہیں؟
اگرچہ کھیل نے انہیں وہ بنایا جو وہ آج ہیں، مگر آفریدی اب کرکٹ سے بھی آگے نکل کر لوگوں کی تفریح کے لیے اہم بن چکے ہیں، انہیں کرکٹر کی حیثیت سے نہ دیکھیں، اگر آپ اس کی کوشش کریں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے آخر وہ یہ سب کیوں کرتے ہیں، اور کرکٹ کے میدان میں وہ کیا کچھ کرچکے ہیں، تو اس پر کامیابی حاصل کرنے پر آپ نوبل انعام کے حقدار بھی بن سکتے ہیں۔
وہ کرکٹ کے اطالوی سپراسٹار فٹبالر ماریو بیلوٹیلی ہیں جو کچھ بھی کرسکتے ہیں اور اپنے کوچز کو دیوار پر سر مارنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر معروف فٹبال کوچ جوز مورینو کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ آفریدی کی شخصیت کی وضاحت میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
جوز مورینو کے اپنے الفاظ میں"مجھے وہ وقت یاد ہے جب ہم کازن میں چیمپئنز لیگ میچ کھیلنے گئے، اس میچ سے قبل میرے تمام اسٹرائکرز زخمی ہوچکے تھے، میرے پاس نا تو ڈیاگو میلٹو تھا اور نا سموئیل ایٹو، میں سخت مشکل میں تھا اور ماریو اکیلا بچا ہوا تھا"۔
وہ مزید بتاتے ہیں" میچ کے 42 ویں منٹ میں ماریو کو ایک یلو کارڈ دکھایا گیا، تو ہاف ٹائم پر ڈریسنگ روم میں میں نے دستیاب پندرہ میں سے چودہ منٹ ماریو کو سمجھانے میں گزار دیئے"۔
مورینو کے مطابق"میں نے اسے کہا : ماریو میں تم کو تبدیل نہیں کرسکتا کیونکہ میرے پاس بینچ پر کوئی اور اسٹرائکر نہیں، تو کسی سے لڑائی مت کرو اور صرف گیند کے ساتھ کھیلو، اگر گیند چھین جائے تو کوئی ردعمل مت دکھانا، اگر کوئی تم کو چھیڑے تو کوئی ردعمل مت دکھانا، اگر ریفری کوئی غلطی کرے تو کچھ مت کرنا"۔
اس کا جواب ماریو کی جانب سے " چھیالیسویں منٹ میں ریڈ کارڈ" کی شکل میں سامنے آیا۔
اور ایسے ہی شاہد آفریدی ہیں، تاہم ماریو کے برعکس وہ کسی کی حکومت کے اندر کام کرنے کی بجائے خوفزدہ انتظامیہ کے ساتھ ہوتے ہیں جو انہیں ہر چیز کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔
جوکہ بہتر بھی ہے کیونکہ اگر وہ ناکام ہوگے تو اس سے نوجوان کھلاڑیوں کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔
پاکستان کرکٹ میں یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے شاہد آفریدی ہر طرح کے خراب حالات سے ٹیم کو جیتنے کی پوزیشن میں لے جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ میدان میں کسی شیر کی طرح گھومتے ہیں جسے اپنی آزادی پر فخر ہو اور ایسے لوگوں کو اپنی جانب کھینچے جو اس کی طرح آزاد ہونا چاہتے ہوں۔