پکوان کہانی: بگھارے بینگن
بچپن سے میں نے اپنے خالو کے مونہہ سے بینگن کو ایک بے گُن سبزی کہتے سنا، لیکن مجھے ان سے اختلاف ہے- بینگن ایک مزیدار سبزی ہے جسے جیسے چاہے پکائیں ہر بار ایک مختلف ذائقہ دے گی، چاہے وہ بینگن کے پکوڑے ہوں، بینگن کا بھرتا، آلو بینگن، بینگن کے پراٹھے، بادام جان ہوں یا ان سب کا بادشاہ حیدرآباد کے بگھارے بینگن-
برصغیر اور حیدرآبادی کھانوں میں بینگن کی اہمیت پر جتنی بات کی جاۓ کم ہے، جتنی میڈیٹرینین اور مشرق وسطیٰ کے کھانوں میں یہ جامنی سبزی پسند کی جاتی ہے تقریباً اتنی ہی یہاں بھی آفاقی حیثیت کی حامل ہے-
ولیم ڈالریمپل اٹھارہویں صدی کے حیدرآباد پر لکھی اپنی کتاب، 'دی وائٹ مغلز' میں جامنی سبزی کی اہمیت پر کہتے ہیں 'ایک پھلتا پھولتا سبزیوں کا باغ بھی جیمز کے اہداف میں شامل تھا: اپنے ایک کلکتہ کے دوست سے اس نے مٹر، فرنچ بینز، پالک، ہندبا اور اجوائن کے بیج مانگے، جس میں اضافہ بند گوبھی اور گوبھی کے بیجوں کا بھی کر دیا، بدلے میں دینے کو ان کے پاس فقط بینگن کے بیج تھے، جو ظاہر ہے اٹھارہویں صدی کے حیدرآباد کی پسندیدہ سبزی تھی-'
مجھے اپنی تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا کہ حیدرآبادی کھانوں کا جھکاؤ جنوبی کوکنگ کی طرف زیادہ ہے- ان کی سبزیاں، بیسن، املی، ناریل کا دودھ اور مونگ پھلیاں پکانے کے انوکھے طریقے مل کر ایسے ذائقے تیار کرتے ہیں جو منفرد اور لذیذ حیدرآبادی ہیں-
ایک فوڈ رائٹر چتریتا بنرجی، اپنی کتاب 'اِیٹنگ انڈیا' میں بگھارے بینگن کے بارے میں لکھتی ہیں:
'عرصہ دراز سے بطور مقامی سبزی، برصغیر کے پکوانوں میں اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا- تمام ہی خطّوں میں بینگن سے مختلف پکوان تیار کیے جاتے ہیں، لیکن ذائقے اور نفاست کے لحاظ سے حیدرآباد بازی لے گیا ہے-
بگھارے بینگن، حیدرآبادی بریانی کی طرح مشہور ہیں- یہ پکوان نظام اور عام عوام دونوں کو ہی مرغوب رہی ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ پکوان ترکی کے امام بیالدی (ایک برواں بینگن ڈش) پر بھی سبقت لے گیا ہے-
بگھارے بینگن کی اپنی تاریخ تھوڑی مبہم ہے تاہم یہ عام خیال ہے کہ بھگارے بینگن نے سترہویں صدی میں جنم لیا، مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے دکن کو فتح کرنے کے لئے قلعہ گولکنڈہ کا محاصرہ کیا-
دکن کے شہری، آٹھ ماہ تک مزاحمت کرتے رہے اور مغل فوج قلعہ کے باہر انتظار کرتی رہی- اس دوران دونوں اطراف کے باورچیوں نے یہ حیدرآبادی عجوبہ تخلیق کیا-
بنرجی کہتی ہیں: 'شدید بے چینی کے عالم میں، مغل فوج کے باورچی قلعے کے آس پاس کے علاقے میں مقامی سبزیوں اور مویشیوں کو پکانے کا طریقہ سیکھنے نکل پڑے تاکہ فوجیوں کے لئے کھانے پکاۓ جاسکیں- '
بینگن کوئی چار ہزار سال پہلے اس خطّے میں دریافت کیا گیا، بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ ایک سبزی ہے لیکن ماہر نباتات اسے پھل میں شمار کرتے ہیں، شملہ مرچ، ٹماٹر اور آلو کا دور کا کزن- برصغیر اور میڈیٹرینین میں بینگن کو ایک ٹھنڈی تاثیر والی سبزی سمجھا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح قدیم چینی کلچر میں بھی اسے پانی پر مشتمل سبزی کہا جاتا تھا جو کہ زود ہضم اور اپنے اندر ٹھنڈی اور نم توانائی رکھتی ہے-
جب میں نے لذیذ بگھارے بینگن بنانے کا سوچا تو اپنی حیدرآبادی دوست ارم ربّانی اشرف سے رابطہ کیا جس کے پاس حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والی اپنی ایک عزیزہ کی ریسیپی موجود تھی، ثمینہ بہم کی یہ ریسیپی مستند، فوری تیار ہوجانے والی لذیذ حیدرآبادی ہے-
مجھے تو بگھارے بینگن گرم گرم نان کے ساتھ اچھے لگے مگر میری بیٹی نے انہیں ابلے ہوۓ چاولوں کے ساتھ پسند کیا تو میرے کچن سے آپ کی خدمت میں پیش ہے:
اجزاء
بینگن - چھوٹے چھ عدد
ناریل - کدوکش کیے ہوئے دو کھانے کے چمچ
تل - دو چاۓ کے چمچ
مونگ پھلی - دو کھانے کے چمچ
پیاز - ایک عدد درمیانی (کٹی ہوئی)
املی - دو سے تین انچ گرم پانی میں بھگو لیں
لال مرچ - حسب ذائقہ
نمک - حسب ذائقہ
زیرہ پاؤڈر - آدھے سے ایک چاۓ کا چمچ
ہلدی - ایک چوتھائی چمچ
ادرک - کٹا ہوا ایک کھانے کا چمچ
لہسن - کٹا ہوا ایک کھانے کا چمچ
ترکیب
تِل، ناریل اور مونگ پھلی کو بھون کر پیس لیں اور الگ رکھ دیں، ایک چوتھائی سے آدھا کپ تیل میں بینگن کو مسلّم تل لیں (خیال رہے کہ اس کی شکل نہ بگڑے اور آدھا گل جاۓ) تلنے کے بعد اسے الگ رکھ دیں-
اسی تیل میں پیاز سنہرا ہوجانے تک فرائی کریں، اسی میں ادرک اور لہسن بھی ڈال کر کوئی ایک منٹ تک فرائی کریں-
پسا ہوا مکسچر اور مصالحہ جات شامل کر کے کچھ منٹ تک بھونیں پھر اس میں املی کا پانی اور ساتھ ہی بینگن بھی ڈال دیں، دس سے پندرہ منٹ تک پکائیں یا جب تک بینگن گل نہ جاۓ اور تیل الگ نہ ہوجاۓ تب تک پکائیں-
ہرا دھنیہ گارنش کر کے کھانے کے لئے پیش کریں-
ترجمہ: ناہید اسرار
لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔
انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔