نقطہ نظر

زمین پر کتابوں کی جنت، دریاگنج

پرانی کتابوں کے اس بازار میں کلاسک لکھاریوں سے لے کر جدید لکھاریوں کی تمام کتابیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔

اگرکتابوں کے شوقین لوگوں کے لیے دنیا میں کوئی جنت ہے، تو وہ یہی جگہ ہے۔ اس جگہ کے بارے میں میں نے بہت پڑھا تھا، اور جب خود کو یہاں پایا، تو وہ تمام الفاظ وہ تمام تصویریں حقیقت سے کافی قریب معلوم ہونے لگیں۔

جی ہاں، یہ جگہ دہلی میں دریاگنج کا پرانی کتابوں کا بازار ہے۔ وہ فروری کی ایک سرد صبح تھی۔ اتوار کے دن جب باقی دکانیں بند ہوتی ہیں، تو یہاں پر ایک الگ ہی بازار وجود میں آجاتا ہے۔ بالکل صبح صبح پہلی خرید و فروخت سے لے کر یہ شام کو سورج ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔ کستربا ہسپتال مارگ اور نیتا جی سبھاش ناکے سے شروع ہو کر دہلی گیٹ تک پھیلے ہوئے اس بازار کی لمبائی تقریباً ایک کلومیٹر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بازار 1960 میں شروع ہوا تھا، اور اب تک جاری ہے۔

بہت ساری کتابوں کے ساتھ ساتھ وہاں بہت سارے لوگ بھی موجود تھے، الگ الگ انداز میں کھڑے ہوئے، مختلف کتابوں پر نظریں جمائے ہوئے۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا، میں نے نوٹ کیا کہ کتابوں کی قیمتیں بہت ہی مناسب تھیں۔ بازار میں پرانی، نئی، سیکنڈ ہینڈ، ہر طرح کی کتابیں موجود تھیں۔


پڑھیے: پرانی کتابیں


نئی کتابوں پر پرانی کتابوں کو ترجیح دینے والے شخص کی حیثیت سے میں فوراً سمجھ گیا کہ میرا یہاں پر اچھا وقت گزرنے والا ہے۔ ایک اسٹال پر رک کر میں نے کتابوں کا اچھی طرح جائزہ لینا شروع کیا۔ میں نے ایک لکھاری کی کتابوں کے بارے میں پوچھا، اور اسٹال کا مالک فوراً ہی اس لکھاری کی کئی کتابیں اٹھا لے آیا۔ جن جن کتابوں کا میں سوچ کر آیا تھا، وہ ساری کتابیں مجھے ایک ایک کر کے ملنے لگیں، اور وہ بھی بارگیننگ کے ساتھ۔

اچانک میری نظر ایک کلاسک ہارڈ کَور کتاب پر پڑی۔ یہ ایزرا پاؤنڈ کی شاعری کی کلیکشن تھی۔ ویسے میں نے انہیں زیادہ تو نہیں پڑھا ہے، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم تھا کہ میں نے انہیں پڑھنا ہے۔ میں نے اسٹال کے مالک کو کہا کہ میرے خریدے ہوئے ڈھیر میں اس کتاب کو شامل کردے۔

اچانک ہی مجھے خیال آیا کہ اگر اسی طرح خریداری جاری رہی، تو فوراً ہی جیب خالی ہوجائے گی۔ بوجھل دل کے ساتھ میں نے مزید کتابیں خریدنی بند کرتے ہوئے ادائیگی کی، اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔


مزید پڑھیے: 'جنّت وہ جہاں صرف کتابیں ہوں'


موبائل اور پرس کو جیب میں حفاظت سے رکھتے ہوئے جب میں آگے بڑھا، تو مجھے معلوم ہوا کہ اس بازار میں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ الیکٹرانکس آئٹمز، کھلونے، اور دیگر چیزیں بھی فروخت ہورہی تھیں۔ میں نے ایک بچہ دیکھا جو ڈاک کے پرانے ٹکٹ اور سکے بیچ رہا تھا۔ میں نے رک کر کچھ ٹکٹ خریدے۔ دکانیں تو بند تھیں، لیکن کھانے پینے کے اسٹال وغیرہ کھلے تھے، تو میں نے ایک کافی ہاؤس پر رک کر ایک کپ کافی پینے کا فیصلہ کیا۔

جین آسٹن اور چارلس ڈکنز جیسے کلاسک لکھاریوں سے لے کر جان گرین اور جھمپا لہری جیسے جدید لکھاریوں تک، سب ہی کچھ اس مارکیٹ میں دستیاب تھا۔ اس کے علاوہ پرانی کامک بکس، میگزین، اور کورس کی کتابیں بھی موجود تھیں۔ گاہکوں کی سہولت کے لیے ڈیل بھی ہیں، جس کے تحت آپ دو پیپر بیک کتابیں 100 روپے میں خرید سکتے ہیں۔ کچھ پاکستانی لکھاریوں کی کتابوں پر بھی میری نظر پڑی، جس میں محسن حامد کی کتاب Mothsmoke جگہ جگہ فروخت ہوتی نظر آئی۔ سب سے زیادہ مزے کی بات جو ہے، وہ یہ کہ مارکیٹ آپ ہی کے جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے، سب کتابوں کے شوقین، کچھ خاموشی سے کتابیں دیکھتے ہوئے، کچھ دوسروں سے باتوں میں مصروف۔

ایک ہفتے بعد میں پھر سے مارکیٹ گیا، اور اس دفعہ میں نے کچھ اور کتابیں خرید لیں۔ سب سے بہترین بارگین وہ تھی، جب مجھے ولیم ڈیلرمپائل کی The Last Mughal دکھائی دی۔ ہارڈ کور میں پلاسٹک چڑھی ہوئی یہ خوبصورت کتاب مجھے اس دام میں مل گئی، کہ آپ کی سوچ ہے۔


جانیے: بچوں میں کمپیوٹر اسکرین پر کتابیں پڑھنے کا رجحان


کتابیں دیکھتے ہوئے ایک درمیانی عمر کے شخص نے ایک کتاب "امیر کیسے ہوا جائے" اٹھائی۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، "کیا واقعی اس کو پڑھ کر کوئی شخص امیر ہوسکتا ہے؟"۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس شخص نے سر ہلایا اور کہا، "میں نہیں جانتا تھا کہ امیر ہونا اتنا آسان ہے"، اور ایسا کہتے ہوئے اس شخص کی آنکھوں میں عجیب سی چمک دکھائی دی، جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔

اگر آپ دہلی میں ہیں، اور اتوار کا دن ہے، تو آپ کو ایک دفعہ اس تاریخی مارکیٹ ضرور جانا چاہیے۔ کتابوں کے چاہنے والوں کے لیے اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔

حوالہ جات:

http://www.thedelhiwalla.com/2014/02/02/city-hangout-sunday-book-bazar-daryaganj/

http://southasiabookblog.com/2012/12/23/daryaganj-sunday-book-market-delhi/

http://www.thealternative.in/lifestyle/the-penny-lane-of-books/

http://timesofindia.indiatimes.com/india/Why-does-Daryaganj-draw-known-and-aspiring-writers-alike/articleshow/30344208.cms

سید ذیشان احمد

ذیشان ٓاحمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔