نقطہ نظر

سول سروس میں اصلاحات کی ضرورت

سول سروس میں غیر ضروری بھرتیوں، تبادلوں، اور اسپیشلسٹ لوگوں کی کمی کی وجہ سے خدمات کی فراہمی شدید متاثر ہورہی ہے۔

اگر حکومت کی مالیاتی صحت پر تنخواہوں کی وجہ سے پڑھنے والے منفی اثرات کو دیکھا جائے، تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سول سروس میں اصلاحات کی ضرورت کیوں ہے۔ پبلک سیکٹر میں ملازمین کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے۔ یہ وہ کام بھی کر رہی ہے، جو کسی بھی حکومت کی مرکزی ذمہ داریوں کے دائرہ کار سے باہر ہونے چاہییں۔ پھر اس کو چلانے والی بیوروکریسی میں نااہل لوگ بھی ہیں، کرپشن اور سیاست کی زیادتی جبکہ احتساب کی شدید کمی ہے۔

ہمارے ملک میں حکومت ایک ایمپلائمنٹ ایجنسی کا کردار ادا کر رہی ہے، حالانکہ حکومت کا کام ملازمتیں فراہم کرنا نہیں، بلکہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ سرکاری اداروں کی راہداریوں میں چپڑاسیوں، چوکیداروں، اور کلرکوں کی فوجیں پائی جاتی ہیں۔ غیر ضروری بھرتیوں کا یہ عالم ہے، کہ صرف ٹوائلٹ صاف کرنے کے لیے تین قسم کے ملازم رکھے جاتے ہیں، ایک فرش صاف کرنے کے لیے، ایک واش بیسن صاف کرنے کے لیے، اور ایک کھڑکیاں صاف کرنے کے لیے۔

کئی ادارے ایسے ہیں، جو ایک دوسرے کے اختیارات اور مینڈیٹ رکھتے ہیں، اور ایک ہی جیسے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ بلو ایریا کا صرف ایک چکر لگائیں، اور آپ کو بے شمار بلڈنگز نظر آئیں گی، جن کے بڑے ہی خوشنما نام ہوں گے، لیکن اسلام آباد کے بہت کم ہی لوگوں کو ان اداروں کی ذمہ داریوں کا علم ہے۔

اوور اسٹافنگ کا مسئلہ اس لیے بھی شدید ہوگیا ہے، کیونکہ موجودہ پوسٹوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے، غیر ضروری بھرتیوں کو فٹ کرنے کے لیے نئی پوسٹین بنائی جارہی ہیں، اور کنٹریکٹ اسٹاف کو مستقل کیا جرہا ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری اہلکاروں کے احتساب کے مکینزم، جیسے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، یا شکایتوں کے ازالے کے سسٹم غیرفعال یا غیر اطمینان بخش ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب میں 1985 سے لے کر 2000 تک صرف 102 حکومتی اہلکاروں کو بے ضابطگیوں پر سزا دی گئی، جو کہ داخل کی گئی درخواستوں کے 20 فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں کئی سالوں کا عرصہ لگا۔ سسٹم حکومتی اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جو لوگ ڈیوٹی پر سرے سے حاضر ہی نہیں ہوتے، ان کے خلاف اقدامات کرنا مشکل ہے، تو جو لوگ آ کر بھی کام نہیں کرتے، ان کے خلاف کیا ہوگا۔

قانونی اور انسٹیٹوشنل سیٹ اپ ان اداروں کو کئی حقوق دیتا ہے، جس سے وہ شہری بہت متاثر ہوتے ہیں جن کی خدمت کے لیے انہیں بھرتی کیا گیا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ سسٹم بھی سیاسی اسٹرکچر میں ایسا گھل مل گیا ہے، کہ اب قابلیت، غیر جانبداری، اور آزادی پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔ ٹرانسفر کے سسٹم نے بھی سیاستدانوں کو بیوروکریٹس پر اچھا خاصہ اختیار دے رکھا ہے، جس کی وجہ سے اکثر ایسا اتحاد بنایا جاسکتا ہے، جو کسی بیوروکریٹ کے پورے کریئر تک چل سکتا ہے، جس میں سیاستدان کسی بھی چیز کی خود ذمہ داری لیے بغیر مختلف چیزوں کی سرپرستی جاری رکھ سکتے ہیں۔

کسی بھی سسٹم میں پالیسی تجزیہ ٹاپ پوزیشن پر موجود لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن پاکستان کا سسٹم کچھ اس طرح کا ہے، کہ پالیسی سازی کا فن کچھ خاص ترقی نہیں پا سکا ہے۔ یہ اس لیے ہے، کہ ٹاپ پوزیشنوں پر زیادہ تر لوگ جنرل کیڈر کے ہیں، جو اس پوسٹ کی مہارت نہیں رکھتے۔ اسپیشلائیزیشن کے اس دور میں انگریزی ادب کی ڈگری رکھنے والے شخص کو صبح میں سیکریٹری تعلیم، دوپہر میں سیکریٹری صحت، اور شام میں سیکریٹری فنانس بنا دیا جاتا ہے۔

یہ بالکل چنی ہوئی نسل کی طرح ہیں، اور ان کو ڈاکٹروں، سائنسدانوں، اور حکومت کے دوسرے نچلے اداروں کے ملازمین سے برتر سمجھا جاتا ہے، اور ان کو وقتاً فوقتاً ترقیوں کی گارنٹی ہوتی ہے۔ ملک ایسے نظام کو بچانے کی بھاری قیمت ادا کرتا ہے، جس میں کوئی بھی سول سروس کے اونچے عہدوں پر فائز نہیں ہوسکتا۔

فیصلہ ساز عہدوں پر جنرل کیڈر کے لوگوں کی تعیناتی سے پیدا ہونے والے مسائل بار بار کے تبادلوں کی وجہ سے اور بھی شدید ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف سسٹم میں کمزوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں، بلکہ سول سرونٹس کا کبھی بھی پرفارمنس کی بناء پر احتساب نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ تنخواہوں کے ایک جیسے گریڈز نے اور بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت گریڈ 20 کے کسی بھی شخص کی تنخواہ اتنی ہی ہوگی، جتنی کہ اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری رکھنے والے فنانس سیکریٹری کی۔ یہ بے منطق کا اسٹرکچر تبدیل ہونا چاہیے۔ کنٹریکٹ بیس پر بھرتیوں سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔

پبلک سیکٹر میں زیادہ تر ملازمین کو کنٹریکٹ بیس پر رکھنا چاہیے تاکہ ٹرانسفروں سے جان چھڑائی جاسکے، اور ان کو ان کی قابلیت کے حوالے سے موزوں محکمے میں ہی تعینات کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹروں کو صرف ہیلتھ سیکٹر ہی میں تعینات کرنا چاہیے، اور ان کی ٹرانسفر پر پابندی ہونی چاہیے۔ صرف کچھ لوگوں کو اسپیشلائزیشن کی بناء پر مستقل کیڈر اور پرکشش تنخواہیں ملنی چاہییں، لیکن وہ بھی مراعات مثلاً گاڑیوں، اور رہائش کے علاوہ۔

حکومت کی کئی اچھی اور بہتر سمت والی پالیسیوں کے نفاذ میں بھی اکثر اوقات صرف اس لیے کمی رہ جاتی ہے، کیونکہ قدیم ریگولیشنز اور انتظامی سسٹم ان نئی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ مختلف انتظامی طریقہ کاروں پر کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوتیں، جبکہ قواعد و ضوابط کو غیر شفاف انداز میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سسٹم میں ہر طرف ویٹو پاور کی مثال نظر آتی ہے، جہاں کوئی بھی کسی بھی مرحلے پر کام میں رخنہ ڈال سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔