تحریک انصاف کا نیا پاکستان
14 اگست 2014 سے ن لیگ حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انصاف کی مہم کئی مراحل سے گزرتی ہوئی ان دنوں موبائل دھرنوں کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دن کو کہیں نہ کہیں بھٹکتی ہوئی رات کو اسلام آباد پہنچتی ہے۔ دن گزرتے جا رہے ہیں اور مایوسیوں کے بعد نئی امنگیں ایک بار پھر اس مہم میں جان ڈال دیتی ہیں۔
لاہور سے لانگ مارچ کی صورت میں شروع ہونے والی یہ مہم سول نافرمانی، دھرنے اور "گو نواز گو" کے نعرے لیتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ آج ملک کی عوام کا ایک حصہ یہ سوچ رہا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب استعفیٰ دے دیں گے اور دوسرا حصہ اندازہ لگا رہا ہے کے اپنے ہاتھ سے اپنے اقتدار کا گلا کوئی کیسے دبوچ سکتا ہے۔ وہ بھی اس وقت کہ جب پارلیمنٹ میں موجود ایک جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہوں۔
اس مہم کے ابھی تک طے کرنے والے سفر میں ہم روزانہ جو خطابات سن رہے ہیں وہ یقیناً سبز باغ تو ہیں لیکن ان پر عمل بھی ہونے کا یقین واقعی ایک اہم نقطہ ہے۔ ان تمام تر سبز باغات کے پورے نہ ہونے کی مثالیں ہماری تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ انتخابی مہم میں بھی بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوتے ہوئے بھی عوام گزشتہ 65 سالوں سے کئی لوگوں کو دیکھتے آئے ہیں۔
عمران خان صاحب نے لاہور سے نکلتے وقت جو تقریر رٹی تھی وہی تقریر ابھی تک خان صاحب کے ذہن میں ہے۔ تقریباً 45 دن سے وہی کھٹی میٹھی چیزیں سننے کو مل رہی ہیں۔
پرانے سانچے سے نئے مال کی امید بالکل ایسے ہی ہے جیسے گدھے کے ہاں ہرن کی پیدائش۔ خان صاحب بھی سیاسی لاوارثوں اور لوٹوں کی فوج سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں اور اس ٹیم کو بہترین ٹیم کے القابات سے نواز رہے ہیں۔ اگر شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، شفقت محمود، اعظم خان سواتی، جہانگیر ترین، پرویز خٹک سمیت ایک طویل فہرست اتنی بہترین ٹیم ہیں تو یہ ٹیم پرویز مشرف، پیپلز پارٹی، ن لیگ یا جماعت اسلامی کے لیے کارآمد کیوں نہ ثابت ہو سکی؟
خان صاحب فرماتے ہیں کہ اسٹیٹس کو کا خاتمہ کریں گے، تو خان صاحب اس کی شروعات دائیں بائیں سے کیوں نہیں کرتے؟ دائیں بائیں لوٹوں، سیاسی یتیموں، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں اور اسٹیٹس کو کے علمبرداروں کی بھرمار ہے اور خان صاحب ان تمام کریکٹروں کو دوسری بوگیوں میں تلاش کر رہے ہیں۔
وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بلند و بانگ دعوے بھی اس وقت اچھے لگیں گے جب دعویٰ کرنے والا خود بھی "ہیلی کاپٹر" اور بلیٹ پروف V8 میں سفر نہ کرے۔ VIP کلچر کے خاتمے کے دعوے کرنے والوں کو پہلے اپنی ذات سے VIP کلچر کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
اگر خان صاحب کو عوامی خزانے کے لٹنے کا واقعی دکھ ہے تو اسلام آباد میں خیبر پختونخواہ ہاؤس کا استعمال ذاتی معاملات کے لیے کیوں ہو رہا ہے؟ پہلے دھرنوں میں شریک ہونے والی اہم شخصیات کے لیے مسافر خانہ بننے والے خیبر پختونخواہ ہاؤس کو خالی کروایا جائے پھر دکھ بانٹے جائیں تو یقیناً ان کے دعوے اثر انداز ثابت ہوں گے۔
ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے یقیناً خان صاحب کو اس نقطے کو زیر بحث لانا چاہیے لیکن اس سے پہلے اپنے بچے بھی پاکستان لانے چاہیئں اور کم از کم وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی یہی نصیحت کرنی چاہیے۔
خان صاحب باریاں لینے کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں کہ تیری باری اور میری باری کا کھیل چل رہا ہے، خان صاحب سے عرض ہے کہ اسٹیج پر جمع مجمعے پر غور کریں تو آپ کو گزشتہ 3 دہائیوں سے باریاں لینے والے ملیں گے اور جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ ہمیشہ اپنی باریاں چھینتے ہوئے پائے گئے ہیں، چاہے وہ PNA کی شکل میں ہوں، IJI یا GDA کے روپ میں ہمیشہ ان کو وکٹ پر کھڑا کر کے گیند کرائے بغیر ہی آؤٹ قرار دے دیا جاتا ہے، جیسا کہ اس بار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خلفاء راشدین کے طرز کی سادگی اپنانے کے دعوے کرنے سے پہلے ایئر کنڈیشنڈ اور بلٹ پروف کنٹینر، پرائیویٹ جیٹ، ہیلی کاپٹر اور V8 یا لیکسس کا استعمال ترک کرکے عوامی ٹرانسپورٹ میں عوام کے ساتھ سفر، منرل واٹر کے بجائے عام پانی اور کنٹینر کے بجائے عوام کے ساتھ خیموں میں رہنے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے کراچی اور لاہور میں کامیاب جلسے کیے، مگر ان جلسوں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد کو ووٹرز کی تعداد سمجھنا خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا، اور سیاست میں سب سے مشکل کام بھی جلسے جلوسوں میں شریک تعداد کو ووٹرز میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
دسمبر 2012 میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ میں لائے گئے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف ایک جلسہ منعقد کیا تھا، جس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔ وہ جلسہ اتنا کامیاب تھا کہ سندھ کے کئی اہم سیاستدانوں نے اس جلسے سے متاثر ہو کر یا تو فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی یا پارٹیاں چھوڑ کر آزاد حثیت میں انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر ڈالا تھا اور کچھ تو جلسے سے ایسا متاثر ہوئے کہ پیپلز پارٹی میں شمولیت کے کچھ دن بعد ہی پیپلز پارٹی چھوڑ گئے تھے۔
ان تمام تر سیاسی وڈیروں کا خیال تھا کہ اس بار فنکشنل لیگ سندھ میں حکومت بنائے گی۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اس بات کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا۔ میں یہاں ان کے نام لے کر ان کے زخموں پی نمک پاشی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ اس کے علاوہ جنوری 2012 میں کراچی میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے بھی ایک کامیاب جلسہ منعقد کیا گیا تھا مگر جلسے کے شرکاء کو ووٹرز میں تبدیل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
ایسے لاتعداد جلسے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جو کہ جلسوں کی حد تک تو بہت کامیاب نظر آئے، لیکن انتخابات میں کامیابی کا سبب نہیں بن پائے۔
عمران خان صاحب کے جلسے میں آنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ڈسکو پارٹی ایک اہم وجہ ہے۔ ظاہر ہے جس ملک میں انٹرٹینمنٹ کے مواقع دستیاب نا ہوں گے وہاں اگر جلسے جلوسوں میں ہلہ گلہ ملے تو جانے میں کیا حرج ہے؟ اور ٹکٹ کی جگہ "گو نواز گو" کا اسٹیکر یا گال پر پی ٹی آئی کا جھنڈا بنوانے سے مسئلہ حل ہو جائے تو اس سے سستا سودا اور کیا ہو سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے پاس اس وقت سنہری موقع ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ میں اپنی بہترین ٹیم کے دعوے کو ثابت کریں اور کارگردگی کی بنیاد پر اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کر کے اقتدار میں آئیں، نا کہ رسہ کشی کا استعمال کر کے خود کو متنازعہ بنائیں اور عوام میں اپنی مقبولیت کو کم کریں۔
اس طرح سے اقتدار میں آنے کا فائدہ ان کی پارٹی کو نہیں بلکہ ان قوتوں کو ہوگا جو وقتاً فوقتاً دیگر پارٹیوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایسے استعمال سے تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالے گئے سیاسی مفاد پرست ٹولے کو تو فائدہ ہو گا مگر عوام کے کسی فائدے کا نہیں سوچا جا سکتا۔
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔