کراچی: حکمران سب، ذمہ دار کوئی نہیں
کراچی کے زیادہ تر لوگوں کا روزانہ کا روٹین کچھ اس طرح کا ہوتا ہے۔
وہ روز صبح اٹھتے ہیں، اور کام پر جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ خوش قسمت لوگوں کے پاس نہانے کے لیے پانی ہوتا ہے، لیکن بہت ساروں کو بہت کم پانی میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ اگر گیس ہوتی ہے، تو چولہا جلتا ہے، اور گرما گرم چائے پراٹھا مل جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد بس کی امید میں بس اسٹاپ کا رخ کیا جاتا ہے تاکہ کام پر وقت پر پہنچا جاسکے۔ اور جب بس آجائے، تو انسان اس میں اس طرح ٹھنس جاتا ہے، جس طرح آم کی پیٹی میں اوپر نیچے دائیں بائیں آم ٹھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔
دن کے اختتام پر یہی روٹین الٹا چلتا ہے۔ اور اس کے علاوہ جو لوگ کام پر جاتے ہیں، یا جو لوگ گھر پر رہتے ہیں، انہیں اپنے اپنے کام کرنے کے لیے بجلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر خوش قسمت ہوں، تو کچھ دیر کے لیے مل جاتی ہے۔
شہری زندگی کے لیے ضروری یہ تمام چیزیں کون فراہم کرتا ہے؟
صبح سے شروع کرتے ہیں۔
پائپ میں پانی نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے مہنگے داموں ٹینکر اور کین خریدے جاتے ہیں۔
اگلی باری ٹرانسپورٹ کی، اور یہاں بھی شہری حکومت کی کوئی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ ٹوٹی پھوٹی اور انسانوں سے لدی ہوئی پرائیویٹ بسیں ہی لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہوتی ہیں۔
گیس اور بجلی کا بھی انتظام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔
چاہے کسی کچی آبادی میں جھونپڑی حاصل کرنی ہو، اپنے بچے کو واجبی سی تعلیم دلانی ہو، یا ڈاکٹر کے پاس جانا ہو۔ سب کچھ پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے، جن کا مقصد صرف اور صرف منافع کمانا ہوتا ہے۔
یہ سروسز فراہم کرنے والے گروپوں اور افراد کو عام طور پر مافیا کہا جاتا ہے۔ عام لوگ جو یہ سروسز استعمال کرتے ہیں، انہیں ان مافیاؤں سے مذاکرات کرنے پڑتے ہیں، اور پھر یہی مافیائیں شہری حکومت اور سیاسی جماعتوں سے ڈیل کرتی ہیں۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئیں ہم آکسفورڈ ڈکشنری میں سیاست کے معانی تلاش کریں۔
"کسی بھی ملک، یا علاقے کی گورننس سے متعلق سرگرمیاں، خاص طور پر طاقت رکھنے والوں کے درمیان مباحثے"۔
اب دیکھتے ہیں کہ کراچی کا ایک عام شہری، جس کی زندگی کا روٹین ہم اوپر دیکھ چکے ہیں، سیاست کی اس تعریف پر کتنا پورا اترتا ہے۔
کیا وہ "طاقت رکھنے والوں کے درمیان مباحثے" کا حصہ ہے؟ بالکل نہیں۔
تو پھر "کسی عملک یا علاقے کی گورننس سے متعلق سرگرمیوں" کے بارے میں کیا خیال ہے۔
ایک بار پھر جواب نا ہی میں آئے گا۔
مثال کے طور پر ٹرانسپورٹ کا مسئلہ دیکھیں۔ کراچی میں شہری حکومت کے زیرِ انتظام ٹرانسپورٹ ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا، کہ سٹی گورنمنٹ نے اس کو پرائیویٹائز کرکے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔
کیا اس معاملے میں سروس استعمال کرنے والوں کی رائے جانی گئی؟
اسی طرح سے بجلی، پانی، زمین، تعلیم، صحت، اور سیکیورٹی کے معاملات ہیں۔
سیاست اور شراکت والی جمہوریت تب تک صرف ایک دکھاوا ہے، جب تک منتخب کرنے والے لوگوں کا فیصلوں میں کوئی عمل دخل نا ہو۔ جبکہ اس وقت جمہوری نظام میں لوگوں کی شراکت صرف "سب سے کم برے" کو ووٹ دینے تک محدود ہے۔ اور جیسے ہی ووٹ ڈال دیا جائے، ان کی شراکت ختم۔
کبھی کبھی تو وہ اتنا بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کا ووٹ پہلے ہی چوری ہوچکا ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں جاری دھرنا، جس میں بڑی شدت سے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، سیاست اور شہریوں کے بیچ عدم تعلق کی بہترین مثال ہے۔ کچھ ہزار لوگوں کا دھرنا پوری توجہ حاصل کیے ہوئے ہے، جبکہ اقتدار میں اور اقتدار سے باہر موجود تمام عوامی نمائندوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس ٹسل سے فتح یاب ہو کر باہر آیا جائے۔
دھرنے میں کیے جانے والے مطالبات اور اس میں شامل لوگوں کا دھرنے کے اثر کے ساتھ تناسب بالکل بھی میچ نہیں کرتا۔ دھرنے کی اہمیت صرف مخصوص مفادات رکھنے والے گروپوں، یعنی سویلین سیاستدانوں اور آرمی کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے ہے۔ کسی کو بھی اپنا آئینی کردار، یعنی پاکستان کے شہریوں کی فلاح، بہتری، اور حفاظت، ادا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اقتدار اور عوام کے درمیان اس عدم تعلق سے صرف اور صرف معاشرے کی مکمل تباہی ہی ہوگی، اور کچھ نہیں۔
پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے، اور اس کی مثال کراچی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر سٹی گورنمنٹ کے زیرِ انتظام نہیں ہے۔ کراچی کئی مافیاؤں کے قبضے میں ہے۔ ان مافیاؤں کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے شہر چل رہا ہے۔ سٹی گورنمنٹ جیسے جیسے کمزور اور کرپٹ ہوتی جارہی ہے، ویسے ویسے مافیائیں اس خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں طاقت کی جنگ چھڑ رہی ہے۔
اور طاقت کی اسی جنگ کی وجہ سے ہمیں روزانہ بوریوں اور کچرا کنڈیوں میں لاشیں مل رہی ہیں۔
کراچی کے کچھ علاقوں مثلاً لیاری میں مافیاؤں کے درمیان موجود معاہدہ ٹوٹ گیا، جس کی وجہ سے گینگ وار بھڑک اٹھی، اور وہاں کے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ چاروں طرف سنسناتی ہوئی گولیوں کی وجہ سے ان کا باہر نکلنا، روزگار کمانا، تعلیم حاصل کرنا، ہسپتال جانا سب بند ہوچکا ہے۔
تو اس طرح کے ماحول میں، جہاں سیاست کا مطلب صرف پیسے والوں اور طاقتور لوگوں، اور طاقتور لوگوں اور پیسے والوں کے بیچ جنگ ہو، وہاں کس طرح یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ایک عام آدمی بہتری لانے کے لیے اس سب میں کود پڑے گا؟
اس وقت عام آدمی کے پاس تو صرف دو ہی آپشن باقی بچ گئے ہیں۔ یا تو مافیا میں شمولیت اختیار کر لے، یا خاموشی سے بس کی چھت پر چڑھے، کام پر جائے، اندھیرے گھر میں واپس آئے، اور اگر زیادہ غصہ آئے تو روڈ پر ایک ٹائر جلا کر خود کو تسکین دے لے۔
وقار احمد انجینئر اور پارٹ ٹائم جرنلسٹ ہیں، جنہیں مزاروں، ریلوے اسٹیشنوں، اور بس اسٹاپوں پر گھومنا پسند ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔