نقطہ نظر

ماؤں اور بچوں کے قاتل ہم

پاکستان سے کم فی کس آمدنی رکھنے والے ممالک پیدائش کے دوران ماؤں اور بچوں کی اموات پر قابو پا چکے ہیں۔

ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 2014 کے مطابق جہاں سری لنکا میں پیدا ہونے والے ہر 1000 بچوں کے مقابلے میں 8 بچوں کی موت واقع ہوتی ہے، تو پاکستان میں یہی تناسب 1000 کے مقابلے میں 69 ہے۔ اگر ہم اندازاً اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو سالانہ دو فیصد بھی رکھیں، تو اٹھارہ کروڑ کے اس ملک میں ہر سال 36 لاکھ بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، اور اس میں سے تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار بچے پیدائش کے ساتھ ہی یا کچھ دن بعد ہی موت کا شکار بن جاتے ہیں۔

سادہ لفظوں میں کہیں تو پاکستان میں سری لنکا کے مقابلے میں 61 زیادہ بچے جان سے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سری لنکا فی کس 9250 ڈالر سالانہ آمدنی کے ساتھ پاکستان سے کافی آگے ہے، جہاں فی کس آمدنی صرف 4652 ڈالر ہے۔ لیکن یہ مسئلہ زیادہ یا کم آمدنی کا نہیں ہے۔ ویتنام کی فی کس آمدنی ہم سے کافی قریب ہے، لیکن وہاں 1000 کے مقابلے میں صرف 18 بچوں کی موت ہوتی ہے، بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 2713 ڈالر ہے، لیکن وہاں 1000 کے مقابلے میں صرف 33 بچوں کی موت ہوتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس سب کا تعلق صرف آمدنی سے نہیں ہے۔

یہ ضرور سچ ہے کہ آمدنی انسانی ترقی جانچنے کا ایک اچھا اشاریہ ہے، لیکن آمدنی اور ترقی میں تعلق سادہ اور براہ راست نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں انسانی ترقی کے اشاریے پاکستان سے بہتر ہیں، بھلے ہی اس کی آمدنی ہم سے کم ہے۔ ویتنام میں فی کس آمدنی ہم سے صرف تھوڑی زیادہ ہے، لیکن پھر بھی وہاں انسانی ترقی کا معیار ہم سے کافی بہتر ہے۔

پاکستان کے جتنی یا اس سے تھوڑی اوپر نیچے آمدنی رکھنے والی تمام اقوام میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہم سے کافی کم ہے، اور وہاں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہترین اور قابل قدر اقدامات کیے گئے ہیں۔

میں پاکستان کا موازنہ کسی ترقی یافتہ اور زیادہ آمدنی والے ملک سے نہیں کر رہا، ورنہ فرق حد سے زیادہ واضح ہوتا، اور لوگ بھی یہی کہتے کہ پاکستان کا ایسے ممالک سے موازنہ درست نہیں ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بھی ہماری پرفارمنس کچھ خاص بہتر نہیں رہی ہے۔

ہر 100،000 زندہ پیدائشوں کے مقابلے میں سری لنکا میں 35، اور ویتنام میں 59 مائیں ہلاک ہوجاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ تعداد 260 ہے۔ اگر اسی طرح حساب لگایا جائے، تو پاکستان میں حاملہ ہونے والی خواتین کی تعداد کے حساب سے یہ تعداد سال میں 10،000 بنتی ہے۔

دہشت گردی اور دوسرے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ماؤں اور بچوں کی اموات کی تعداد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ہم زچہ و بچہ کی صحت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ہر سال جب بھی پاکستان میں انسانی ترقی کے اعداد و شمار کی بات ہو، تو ہمیں ایک افسردہ تصویر نظر آتی ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں، اس پر رائے دیتے ہیں، اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔

آمدنی کی جس سطح پر ہم لوگ ہیں، وہاں ہم اس بارے میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ لیکن نا کرنا پالیسی سازوں، پالیسی کا نفاذ کرنے والوں، اور شہریوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔

ہم ہر سال 2 لاکھ بچوں اور 10،000 ماؤں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسا پھر بھی نہیں کرنا چاہتے۔

اس بارے میں کافی تحقیقی شواہد موجود ہیں کہ صاف پانی، صفائی کے اچھے انتظامات، پیدائش سے پہلے اور فوراً بعد کی توجہ، ماں اور بچے کے لیے اچھی غذا، بچوں کے لیے ویکسی نیشن، اور ڈائریا کی صورت میں پانی کی کمی دور کرنے کے اقدامات کرنے سے ماؤں اور بچوں کی اموات میں کافی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

ہاں ان سہولیات کی فراہمی پر پیسہ لگتا ہے، لیکن زیادہ آمدنی ان سہولیات کی فراہمی کی گارنٹی نہیں دیتی۔ کئی ممالک کم آمدنی ہوتے ہوئے بھی ان سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں، جس میں واضح مثال ویتنام کی ہے۔

تو اصل سوال پالیسیوں اور پالیسی سازی کے متعلق ہے۔ کیا ریاست کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہے یا نہیں؟ کیا غریبوں کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ اور پاکستان میں اس بات کا سیدھا جواب یہ ہے، کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ ممالک اپنے شہریوں کی ضروریات کے بارے میں دوسرے ممالک سے بہتر عمل کرتے ہیں۔

وہ ممالک جنہوں نے تعلیم، سوشل ویلفیئر، پانی، صفائی، بنیادی صحت، اور پبلک ہیلتھ کے شعبوں پر توجہ دی ہے، وہ بھلے ہی بہت زیادہ ترقی کرنے والے ممالک ہوں یا نہیں، لیکن وہ انسانی ترقی کے اشاریوں پر اچھا پرفارم کرتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ ترقی کرنے والے تمام ممالک نے تیز ترقی نہیں کی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے، کہ پالیسیوں کا محور عوام نہیں ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں اکثریت غریبوں کی ہے، اور ان کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔

سیوریج اور کچرے کو ٹھکانے لگانا ابھی تک بڑے شہروں میں بھی بخوبی نہیں ہوپاتا۔ شہرِ لاہور کے بیچوں بیچ موجود ایک کافی مہنگی ہاؤسنگ کالونی اب بھی سیوریج خالی پلاٹوں میں پھینک دیتی ہے، کیونکہ وہ اب بھی لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی بچھائی گئی سیوریج لائنوں سے متصل نہیں ہیں۔

کئی دیہات اب باقاعدہ کچرہ کنڈیوں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں، کیونکہ پلاسٹک اور اسی طرح کا دوسرا کچرہ، جو قدرتی طور پر ختم نہیں ہوسکتا، دہائیوں سے جمع ہوتا جارہا ہے۔ کئی دیہاتوں میں سیوریج نظام کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔

اب تک تو یہ صرف کچھ معیارات ہیں، جن پر پاکستان پیچھے ہے۔ ہم بالغوں کو صحت کی خدمات کی بہتر فراہمی نا ہونے کے نتائج پر بھی بات کرسکتے ہیں، یا نقص کے ساتھ ہونے والی پیدائش کے بارے میں بھی۔ ہر معیار پر جواب ایک ہی جیسا آئے گا۔

اب وقت ہے کہ حکومت کو موٹروے کے مقابلے میں پانی اور صفائی، انڈرپاسز کے مقابلے میں غریبوں کے لیے ہسپتال، اور میٹروبسوں کے مقابلے میں اسکول قائم کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

پانی، صفائی، اور صحت میں سرمایہ کاری نا کرنے کا مطلب یہ ہے، کہ مزید ماؤں اور بچوں کی اموات ہوں گی۔ مرجانے والے زیادہ تر بچے اور مائیں غریب خاندانوں کے ہوتے ہیں، تو کیا اس سے مسئلہ غیر اہم ہوجائے گا؟ جب ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی حل نا کریں، تو ہم ان ماؤں اور بچوں کے قاتل کہلائیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔