مقابلہ خوب ہے
ہمارے شوق بھی عجیب ہیں، مہمات بھی منفرد۔ خوشیاں بھی جدا ہیں، غم بھی الگ۔ صبر بھی مختلف ہیں، بے چینیاں بھی وکھری۔ خوابوں کا بھی جواب نہیں، آرزوئیں بھی لاثانی۔ خواہشات بھی بے مثال ہیں، ترجیحات بھی لا جواب۔ رویوں کا بھی مول نہیں، اطوار کا بھی کیا کہنا۔
ہر بندہ خود بد دیانت ہے مگر دوسروں سے دیانت داری کی توقع رکھتا ہے۔ ذخیرہ اندوز سے جب سرکاری دفتر میں رشوت طلب کی جاتی ہے تو وہ تاسف سے کہتا ہے "آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟"۔ رشوت خور کو اگر کوئی ذمہ دار پکڑتا ہے تو شرمندہ ہونے کے بجائے بتاتا ہے "چَک پا گیا ہے"۔ ٹریفک قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جب کوئی اپنی گاڑی رواں ٹریفک میں گھسیڑ کر اسے بلاک کر دیتا ہے تو غصے سے کہتا ہے "ان لوگوں میں ڈرائیونگ کا سینس ہی نہیں"۔
دوسرے کی طرف سے لائن توڑنے پر مرنے مارنے کے لیے تل جانے والا خود یہ حرکت کرے تو فاتحانہ مسکراہٹ سے کہتا ہے " یہ پاکستان ہے، یہاں سب جائز ہے"۔ رات کو چوری کے لیے جانے والا ساتھیوں کو اپنی ناکامی کا فسانہ یوں سناتا ہے "وہ بے ایمان جاگ رہے تھے" (گویا یہ ایماندار تھا اور وہ بے ایمان)۔ زیادتی کے ملزم کے سرپرست جب مظلوم کے گھر راضی نامے کے لیے جاتے ہیں تو واپسی پر بتاتے ہیں "بے غیرت مان ہی نہیں رہے"۔
ڈاکو اپنی ناکامی کا ذمہ دار شکار کو ٹھہراتا ہے کہ اس نے مزاحمت کر دی۔ جس نے اپنی جڑوں کی سیرابی کرپشن سے کی ہوتی ہے، وہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔ آمروں کے حقے تازہ کرنے اور ان کے دستر خوان کی ہڈیاں چبانے والے خم ٹھونک کر اعلان کرتے ہیں "جمہوریت کے لیے تن من دھن نچھاور کر دیں گے"۔
مقصدیت اور معقولیت سے عاری دھرنا بازوں کو جب مطلوبہ تعداد میں "بھیڑ بکریاں" میسر نہیں آتیں تو وہ آپس میں کہتے ہیں کہ ان لوگوں میں شعور ہی نہیں۔ بنیادی حقوق کی سرکوبی پر مبنی منشور رکھنے والے جن نابغوں کو عوام اپنی نمائندگی کی بارگاہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے وہ صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں۔
کوئی ہمارا توہین رسالت ﷺ کے کسی واقعے پر سیخ پا ہونا بھی دیکھے اور پھر ناجائز کمائی سے ہماری مکے مدینے کی طرف آنیاں جانیاں بھی ملاحظہ کرے۔ کوئی دنیا کے در در پر پھیلے ہمارے کشکول کی زیارت کرے اور پھر اس میں خیرات ڈالنے والوں کو فتح کرنے کے ہمارے عزم بھی دیکھے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے ارباب اختیار کے بھاشن سنے اور پھر ہمارا شرمناک تعلیمی بجٹ بھی ملاحظہ کرے۔ لوگوں کو صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کی خوشخبریاں سنے اور پھر مارکیٹ میں جعلی ادویات کی بھرمار بھی دیکھے۔
جرائم کی بیخ کنی کے دعوے دیکھے اور مجرموں کی سرپرستی کی کہانیاں بھی سنے۔ افسروں اور وزیروں کی رشوت ستانی کے خلاف بڑھکیں سنے اور پھر ان کا معیار زندگی بھی ملاحظہ کرے۔ لیڈروں کی طرف سے ملک کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کے عزم دیکھے اور پھر ترقی کی تھک تھگڑیاں بھی تماشا کرے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کی خوشخبریاں سنے اور پھر لوڈ شیڈنگ کے عذاب بھی چکھے۔ ہماری پانی ملی دودھ فروشیوں سے لے کر ضمیر فروشیوں وملت فروشیوں پر نگاہ ڈالے اور پھر ہمارے بزعم خویش امہ کی قیادت کے دعوؤں پر دانتوں میں انگلیاں بھی دابے۔
غریب عوام کے غم میں رہنمائے ملت کے آنسوؤں کے درشن کرے اور پھر غریبوں کی کمائی سے ان کی عیاشیاں بھی دیکھے۔ دہشت گردی سے اڑتے انسانیت کے پرخچے دیکھے اور آپریشن ضرب عضب پر صالحین کی دل گرفتگی پر بھی سَر دھنے۔ اتحاد امت کے لیے ہماری تڑپ کا نظارہ کرے اور پھر کفر کے فتوے بھی سنے۔ اربوں کے بنگلوں میں مسکراتی زندگی دیکھے اور پھر کچی بستیوں میں سسکتی انسانیت کے درشن بھی کرے۔ "صفائی نصف ایمان" کے ہمارے لیکچرسنے اور پھر فکری جالے اور گندگی سے اٹے نالے بھی دیکھے۔
جمہوریت کے حق میں ہماری قوالیاں سنے اور پھراس کے خلاف ہماری مہمات بھی ملاحظہ کرے۔ منصفین کی ترجیحات اور مہمات پر ایک نظر ڈالے اور پھر انصاف کے لیے رلتی نسلیں بھی دیکھے۔ عوامی عدالت میں امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوتے دیکھے اور پھر خود کو عوامی امنگوں کا ترجماں گرداننا بھی دیکھے۔
ہم وہ پارہ صفت ہیں کہ بیک وقت شوقِ جمہوریت بھی پال رکھا ہے اورنظریاتی مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں۔ عوام کو اختیارات کا منبع کہتے ہیں اور ان کا فیصلہ بھی قبول نہیں۔ میڈیا کی آزادی کے قائل ہیں اور آزادی اظہار کا سلیقہ بھی نہیں۔ تنقید کو اپنا حق خیال کرتے ہیں اور تنقید کا قرینہ بھی نہیں۔ رواداری، برداشت، توازن اور وسیع القلبی کے لچھے دار خطبے عروج پر ہیں مگر بغل میں دبی بغض کی پوٹلیاں پھینکنی بھی نہیں۔ ہم احترام کرنے پہ آئیں تو آئین توڑنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھا لیں اور توہین پر آجائیں تو صبح شام عوامی مینڈیٹ کے سر پر جوتے توڑنے کو وطیرہ بنا لیں۔
محبت جوش مارے تو آمروں کی راہ میں پھول بچھا دیں اور نفرت زور کرے تو قائداعظم کو بھی کافر اعظم کہنے سے نہ شرمائیں۔ غیرت جوش مارے تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے زمین و آسماں ایک کر دیں اور صرف نظر کرنے پہ آئیں تو اپنے ارد گرد جبراً لڑکیاں اغواء کرنے والوں اورانہیں زندہ در گور کرنے کے واقعات سے آنکھیں بند کرلیں۔
کبھی فلم کا سائن بورڈ دیکھ کر فشار خون آخری بلندی کو چھو جائے، کبھی بھوک و افلاس اور بے انصافی سے مرتے لاکھوں انسان دیکھ کر بھی کانوں پر جوں تک نہ رینگے۔ احتساب کا جذبہ جنوں ستائے تو عوام کے منتخب نمائندوں کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے شروع کردیں اور منافقت پہ آئیں توبجلی چوروں، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں، رشوت خوروں، دہشت گردوں، منشیات فروشوں اور قاتلوں کی طرف سے آنکھیں اور کان لپیٹ لیں۔
دنیا 2018ء تک پولیو کے خاتمے کا تہیہ کر چکی اور ہم اسے فروغ دینے کے لیے اپنی تمام تر "صلاحیتیں" بروئے کار لارہے ہیں۔ ایشیا کی پہلی سو یونیورسٹیوں میں پاکستان کا نام نہیں مگر شیخ چلی اسے عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز بنائے بیٹھے ہیں۔ نو کروڑ افراد ان پڑھ ہیں، سات کروڑ خطِ غربت سے نیچے جی رہے ہیں، ڈیڑھ کروڑ کی جھونپڑیوں تک بجلی پہنچی ہی نہیں اوریہاں طبلے کی تال، ہارمونیم کے سُر اور پازیب کی جھنکار میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف دھرنے دیئے جا رہے ہیں۔
سچ، ایمانداری، قانون کی پاسداری، انصاف اور احترامِ انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ٹھہرے ہیں، ہم کج ادا ان سے دور بھی ہیں اور دنیا کو یہی اسباق پڑھانے پر مُصر بھی۔ مقابلہ خوب ہے کہ مہذب دنیا ہماری کرپشن، غربت، ناخواندگی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھوک کے اعدادو شمار بیان کرتی ہے اور جواب میں ہم ان کے ہاں زیادتی کے واقعات، پتہ نہیں عبدالحمید عدم نے کس موقع پر اور کیوں کہا تھا،
ہنستا تو ہوگا آپ بھی یزداں کبھی کبھی
لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔