فائرنگ کی زد میں
سیاسی طور پرمنقسم اور انتقام کی جانب رجحان رکھنے والے معاشرے میں پولیس کا کام بےحد مشکل اور خطرات سے بھرا ہوتا ہے۔ اس قوم کے لیے بڑے افسوس کا مقام ہے جہاں اقتدار کی راہداریوں میں جھگڑے کی سیاست اوربدعنوانی کا دور دورہ ہو۔ پولیس کی قیادت کا ایک ایسے ماحول میں کام کرنا، جو شائستگی، تہذیب، برداشت اور انسانی حقوق کے احترام سے عاری ہو، تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے ۔
گذشتہ تین مہینوں میں عدم برداشت، تشدد کے رجحان، دھوکے، فریب اور پولیس کے بے جا استعمال کی کوششوں کا دہشت ناک مظاہرہ نہ صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بلکہ اہم ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کے لیے بھی دیکھا گیا ہے۔ دارالحکومت میں شارع دستور پر دھرنے اورمارچ حکومت کی بےبسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس کی ابتدا 17 جون کو لاہور میں ماڈل ٹاؤن سے ہوئی۔ جوش سے پر، دہری شہریت رکھنے والی ایک انقلابی، مذہبی شخصیت کو سبق سکھلانا اس کا مقصد تھا۔ اور ایک ضدی امام مسجد کو سبق سکھانے کے لیے جو پہلے شریف خاندان کے گن گاتا تھا، پنجاب کی دہشت پھیلانے والی پولیس سے بہتر اورکون ہوسکتا تھا؟ اس میں اتنے بڑے مینڈیٹ والی سیاسی حکومت کو گرانے کی جرات اوروہ بھی کسی کے ہاتھ میں کھیل کر کیسے ہوئی؟ اس کے قلعہ بند دفتر اور رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹادی جائیں تاکہ اسے اپنے غیر محفوظ ہونے کا مزید احساس ہو۔
یہ فیصلہ اس دن کیا گیا جب ایک آئی جی پولیس کی او ایس ڈی کے عہدہ پر تنزلی کی گئی، اور پنجاب پولیس کا ایک نیا چیف مقرر کیا گیا۔ سیاسی اورسرکار کے منظورنظر افسروں نے اس بات کا بھی انتظار نہیں کیا کہ پنجاب پولیس چیف اپنے عہدے کا چارج لے کراس طےشدہ آپریشن کی تفصیلات کا علم ہی حاصل کرلیں۔ کیونکہ لاہور کے وفادار پولیس چیف اور ان کے سینئر افسروں کی حمایت اس کام کے لیے ان کو حاصل تھی۔
کیا آپ کسی فوجی کمانڈرکے بارے میں ایسا سوچ سکتے ہیں کہ وہ اپنے افسر کواعتماد میں لیے بغیر کوئی آپریشن شروع کرسکے؟ یہ تو پولیس کے سلسلہ اختیارات کا حال ہے، جو حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے اتنی پستی پر اتر آئے۔
اور اس دن جو ماڈل ٹاؤن میں ہوا وہ اتنا وحشیانہ عمل تھا جس کی بڑے پیمانے پرمذمت کی گئی۔ پنجاب پولیس نے اس دن ایک تلخ سبق سیکھا جب اس خونی کھیل کی پوری ذمہ داری اس کے سر ڈال دی گئی۔ اگرچے کہ پولیس افسروں سے تحقیقات کی گئی، انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمے بھی چلائے گئے لیکن صرف کچھ سیاستدان اوراعلیٰ افسران وزارتوں اور اپنے عہدوں سے ہٹائے گئے جبکہ ان کی مراعات برقرار رہیں۔
خادم اعلیٰ نے صرف افسوس کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے اس خونریزی، جو ان کے منتخب کردہ سیاسی، سرکاری اورپولیس کی شخصیات نے کی، کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جب اپنے ذاتی تحفظ کا معاملہ ہو، تو جمہوری اصول اورروایات کی اہمیت ثانوی ہوجاتی ہے۔
14 اگست کو دوبارہ پنجاب پولیس اس امتحان میں ڈالی گئی جب سیاستدان اور مذہبی رہنما لاہور سے اسلام آباد اپنے مارچ پر روانہ ہونے والے تھے۔ حکمرانوں کا ابتدائی منصوبہ تو یہ تھا کہ سیاستدانوں کو مارچ کرنے کی اجازت دے دی جائے، لیکن مذہبی رہنما کو ان کے ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ سے نہ نکلنے دیا جائے۔
اگرچے کہ نئے نامزد صوبائی پولیس چیف اس علاقے کی کنٹینرز کے ذریعے ناکہ بندی کرنے کو تیار ہو گئے تھے، پر جب یہ محسوس کیا گیا کہ یہ حکمت عملی خون خرابے کے دوسرے واقعے کو جنم دے سکتی ہے، تو پولیس نے مبینہ طور پر حکومت سے تحریری احکامات جاری کرنے کے لیے کہا، اور ایسی صورت حال میں طاقت کے استعمال کے نتائج کا ذکر کیا۔ یہ اور چند دوسرے سیاسی اور سیکیورٹی شخصیات کے دانشمندانہ مشوروں کی وجہ سے وہ دن خون خرابے سے محفوظ رہا۔
اس کے بعد اسلام آباد کی پولیس کمان کا امتحان تھا۔ ڈی چوک کی جانب مارچ اور دھرنے پرامن تھے، جس کی وجہ سے پولیس نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ تب پولیس چیف سے کہا گیا کہ وہ احتجاجیوں کو احتیاط کے طور پر حراست میں لے کر طاقت کے ذریعے وہاں سے ہٹائیں، اگرچے کہ انہوں نے اس وقت تک کوئی پر تشدد حرکت نہیں کی تھی۔
اس کے جواب میں آئی جی اسلام آباد نے طاقت کے استعمال کے خلاف مشورہ دیا، جو ان کے خیال میں صورت حال کو مزید بگاڑ سکتی تھی۔ دوسرا کوئی چارہ نا دیکھ کر، انہوں نے کوئی کارروائی نہ کرکے چھٹی پرجانے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً وہ دوسرے آئی جی تھے جنہوں نے بے مقصد تشدد سے انکار کیا۔
اسلام آباد پولیس کے قائم مقام سربراہ دوسرے فرد تھے جنہوں نے عزم اورمستقل مزاجی کا مظاہرہ اس وقت کیا جب پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے قائدین نے احتجاج کرنے والوں کو قومی اسمبلی اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ کی طرف لے جانا شروع کیا۔ اسلام آباد پولیس نے بہادری کے ساتھ ان قائدین کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا جو ریاست کی ان علامتوں پر حملہ کرنے کے لیے ہجوم کو اکسا رہے تھے۔ آنسو گیس اور ربر کی گولیاں بالکل صحیح حکمت عملی تھی۔
اگر اتنی زیادہ آنسو گیس کی شیلنگ اور ربر کی گولیوں کا بلاامتیازاستعمال نہ ہوتا تو کم لوگ زخمی ہوتے، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کئی پولیس اہلکار جن میں ایس پی بھی شامل ہیں، مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہوئے، جو غلیل اورکیلیں جڑے ہوئے مہلک ڈنڈوں سے مسلح تھے۔ تشدد کا یہ پورا منظرنامہ انتہائی غیر ضروری تھا، اور اس سے بچا جاسکتا تھا، لیکن اس پر مجبور دھرنے کے قائدین نے کیا۔
پولیس ایک گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھی۔ اگر وہ طاقت کا استعمال نہیں کرتے، تو حکمرانوں کی ناراضگی مول لیتے ہیں، اور ان کے افسروں کی نوکریاں خطرے میں پڑتی ہیں۔ اگر وہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں یا تشدد میں ملوث لوگوں کو حراست میں لیتے ہیں، تو احتجاجی پارٹی کے لیڈران اقتدار میں آنے کے بعد 'ان کی ٹانگیں توڑ دینے' یا جیل میں ڈالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، حکمران ان کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں اوراحتجاجی چاہتے ہیں کہ انہیں سب کچھ کرنے کی آزادی ہو۔
یہ قانون کی حکمرانی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ایک آزاد عدلیہ اور ایک نہایت متحرک میڈیا کی موجودگی میں، پولیس کی قیادت کو آخرکار اس کا ادراک ہوا ہے، کہ اسے صاحب اختیارلوگوں کے غیر قانونی مطالبات کو نا کہنے کی ہمت دکھانے کی ضرورت ہے، ان شہریوں کو بچانے کے لیے جو ان دیکھی طاقتوں کے شکار ہوتے ہیں۔
اس نا آسودگیوں کے موسم میں، تمام شراکت داروں کے لیے سبق موجود ہے: ملک کے حاکموں کو حکمرانی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے؛ احتساب بلا کسی امتیاز کے یقینی بنانا چاہئے؛ پولیس غیر سیاسی ہونی چاہئے؛ جمہوریت طاقتورہونی چاہیے نا کہ جب چاہیں پٹری سے اتار دی جائے؛ پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات لانی چاہیئں؛ عدلیہ آئین کو تحفظ فراہم کرے؛ اور افواج پوری قوم کی حمایت سے دہشت گردوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جو اس ریاست کو توڑنے کے درپے ہیں۔
خدا کرے کہ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت اس موجودہ تعطل سے فتح یاب ہوکر نکلے۔ یہ ہر ایک کی فتح ہوگی کہ پاکستان کے لوگ خود اپنے پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ مستقبل کو یقینی بنائیں۔
ترجمہ: علی مظفر جعفری
لکھاری ایک ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔