جمہوریت، اسکاٹ لینڈ اور پاکستان
ایک زمانے سے ہم تین الفاظ تواتر کے ساتھ سنتے آرہے ہیں، "جمہوریت کا حسن''۔ لیکن یہ حسن کچھ ایسے پردے میں ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود دکھائی نہیں دیتا۔ غالباً نظرِبد سے بچانے کے لیے سات پردوں میں پوشیدہ کردیا گیا ہے۔
البتہ جمہوریت کے حسن کے نام پر یہاں دن رات کردارکشی کی جاتی ہے، دشنام طرازی ہوتی ہے، ضرورت پڑنے پر مخالفین ایک دوسرے کے اتحادی بن جاتے ہیں اور یہ سب کچھ جمہوریت کو بچانے کے نام پر ہوتا ہے۔ جمہوریت کے حسن کے نام پر ہم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو غصے میں للکارتے اور منہ سے جھاگ اڑاتے دیکھ چکے ہیں۔
لیکن اسکاٹ لینڈ میں جمہوریت کی فتح دیکھ کر یقین ہوگیا کہ جتنا حسین اسکاٹ لینڈ ہے، اتنی ہی حسین اس کی جمہوریت۔
307 برس پرانی برطانوی یونین داؤ پر لگی تھی۔ اسکاٹ باشندوں کو 'ہاں' یا 'نا' میں جواب دینا تھا کہ وہ برطانوی یونین سے الگ ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔
اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کے فرسٹ منسٹر ایلکس سیمنڈ اور ان کی اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) ایک طرف آزادی کے حق میں اپنی مہم چلارہی تھی تو دوسری طرف برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ہوش اڑے ہوئے تھے کہ اگر اسکاٹ لینڈ آزاد ہوگیا تو انھیں تاریخ میں ایک ایسی شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے برطانوی یونین کو توڑ دیا۔
برطانیہ کی مستحکم جمہوری روایات نے برطانوی پارلیمنٹ کو آمادہ کیا کہ وہ اسکاٹ لینڈ کو ریفرینڈم کی صورت میں اس بات کا حق دے کہ وہ یونین میں رہنے یا نا رہنے کا فیصلہ کرسکیں۔ حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ نے بھی اس کی تائید کی، اگرچہ بعد میں جب آثار یہ دکھائی دینے لگے کہ اسکاٹ لینڈ علیحدہ بھی ہوسکتا ہے تو انھوں نے دبی دبی آواز میں کہا کہ اسکاٹ لینڈ کو چاہیے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔
اسکاٹ لینڈ کی آزادی اسکاٹ پارلیمنٹ کے فرسٹ منسٹر ایلکس سیمنڈ کا خواب تھا جو ایس این پی کے سربراہ بھی ہیں۔ 18 ستمبر کو ریفرینڈم ہوا اور جب 19 ستمبر کو نتائج کا اعلان ہوا تو انھوں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ نومبر میں اپنے عہدے سے دستبردار ہوجائیں گے اور فرسٹ منسٹر کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیں گے۔
کیا اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک ختم ہوجائے گی؟ شاید نہیں۔
انسٹھ سالہ سیمنڈ کہتے ہیں کہ تحریک جاری رہے گی اور ان کے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سیمنڈ کی شکست اپنی جگہ پر، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی جدوجہد نے ایک نئی برطانوی یونین کی بنیاد رکھ دی ہے۔
ریفرینڈم سے پہلے کے سروے کے مطابق علیحدگی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آزادی کی مہم کامیاب ہوجائے گی۔
سروے کے نتائج نے برطانیہ کی تینوں سیاسی جماعتوں، حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی، اور لبرل ڈیموکریٹس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیمرون نے تینوں سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے یہ اسٹریٹیجی بنائی، کہ اگر اسکاٹ لینڈ نے یونین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تو برطانوی یونین اسکاٹ پارلیمنٹ کو مزید اختیارات دے گی۔
چنانچہ Better Together (ساتھ رہنا بہتر ہے) کی مہم چلائی گئی، اور کامیاب رہی۔ ریفرینڈم میں 85 فی صد عوام نے حصہ لیا، جس میں سے 54 فیصد نے یونین کے حق میں اور 45 فیصد نے مخالفت میں ووٹ دیے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ریفرینڈم کے نتائج نے یوں تو ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کو محفوظ کردیا ہے، لیکن انھیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
2015ء میں جب وہ دوبارہ اپنے عہدے کے لیے انتخابات لڑیں گے تو اس سے پہلے انھیں نا صرف اسکاٹ لینڈ کو، بلکہ ویلز، آئرلینڈ اور خود انگلینڈ کو نئی مراعات دینا ہوں گی، جس کے نتیجے میں برطانوی یونین کی مرکزیت کمزور ہوجائے گی۔
خود ان کی پارٹی کے اراکین کہتے ہیں کہ کیمرون اپنے وعدوں میں کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئے ہیں۔
انھوں نے مستقبل میں اسکاٹ لینڈ کے فنڈز میں اضافہ کرنے کا وعدہ کیا، نئے ٹیکسوں اور مالیاتی نظام میں مزید اختیارات دینے کا وعدہ بھی کیا۔ انھیں آئین میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی جس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔ اور اگر اسکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات دیے جاتے ہیں تو پھر انگلینڈ کے قانون ساز بھی جو برطانیہ کی 83 فی صد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں اپنے لیے مزید اختیارات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کے ریفرینڈم کے یورپ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اندیشہ یہ ہے کہ اس سے اسپین، بیلجیئم اور فرانس میں علیحدگی پسندوں کو تقویت ملے گی۔ بلکہ جرمنی سے بویریا نے بھی اپنے مبصرین اسکاٹ لینڈ روانہ کیے تھے۔
اسکاٹ لینڈ میں اگرچہ آزادی کے حامیوں کو شکست ہوئی لیکن عالمی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ علیحدگی پسند اتفاق رائے سے کامیاب ہوئے۔ مثلاً 1993 میں چیک اور سلواک کی علیحدگی، جبکہ ناروے بھی 1995 میں ووٹ کے ذریعہ سوئیڈن سے علیحدہ ہوا تھا۔
لیکن ہر جگہ ووٹ کی طاقت سے آزادی حاصل نہیں کی گئی۔ سری لنکا نے تامل علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا، جبکہ ہندوستان میں کشمیر کے علاوہ اور بھی علیحدگی پسندی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں تشدد کا عنصر واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
خود یورپی یونین میں بھی بحث جاری ہے۔ اگر اسکاٹ لینڈ آزاد ہو بھی جاتا تو ضروری نہیں تھا کہ اسے یورپی یونین میں رکنیت مل جاتی۔ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جو طویل عرصے سے کوششوں کے باوجود ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
اسکاٹ لینڈ میں جمہوریت کی فتح میں پاکستان کے لیے بھی سبق موجود ہے۔ اپنے غیر جمہوری طرز عمل کی بنا پر ہم اپنا ایک حصہ گنوا بیٹھے۔ جبکہ ماضی میں لمبے عرصے تک نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں محرومی کا احساس موجود ہے۔ اس احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اختیارات کی مناسب تقسیم ہو۔ اس سے وفاق بھی مضبوط ہوگا، اورجمہوریت بھی مستحکم ہوگی
لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔