راولپنڈی: مذہبی پیشوا کا قتل، فرقہ وارانہ فسادات کے زخم پھر تازہ
راولپنڈی: اتوار کے روز ایک دیوبندی مذہبی پیشوا کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد ایک امام بارگاہ کو نذرِ آتش کیے جانے کے واقعہ نے بدقسمتی سے شہر میں فرقہ وارانہ زخموں کو دوبارہ تازہ کردیا۔
پیر کے روز لیاقت باغ میں مقتول مفتی امان اللہ خان کی نمازِ جنازہ کے موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت نے کشیدگی میں اضافہ کردیا۔
واضح رہے کہ لیاقت باغ مدرسہ دارالعلوم تعلیم القرآن سے زیادہ دور نہیں ہے، جہاں مفتی امان اللہ درس و تدریس کا کام کرتے تھے۔
یہ مدرسہ راجہ بازار میں تعلیم القرآن مسجد کمپلیکس کا حصہ ہے، جو گزشتہ سال نومبر میں ہلاکت خیز فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز تھا، جس میں دونوں مذہبی برادری شامل تھی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر اس وسیع و عریض بازار کو جانے والی تمام سڑکوں کو بند کردیا تھا، جبکہ راجہ بازار بھی مفتی امان اللہ کے یومِ سوگ کی وجہ سے بند تھا۔
اسی دوران نذرِ آتش کیے جانے والی امام بارگاہ شہیدانِ کربلا کے ایک منتظم جو قریبی مارکیٹ میں ٹائرز کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں، شکایت کی جب امام بارگاہ پر حملہ ہوا تو پولیس اور ریسکیو کے ادارے ان کی کال پر فوری طور پر نہیں پہنچے۔
مسجد شاہِ نجف کی دیکھ بھال کے کاموں سے منسلک مولانا ملک جلال حیدر نے ڈان کو بتایا کہ ’’گنج منڈی پولیس اسٹیشن یہاں سے چند گز کے فاصلے پر ہے، لیکن وہ ہماری مذہبی مقام کو بچانے کے لیے نہیں آئے، اور تقریباً چھ سو برس قدیم مقدس کتابیں اور دستاویزات جل کر راکھ ہوگئیں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’ہم نے پولیس اور انتظامیہ سے متعدد بار درخواست کی تھی کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے، لیکن وہ دو گھنٹے بعد پہنچے۔ یہاں تک فائرفائٹرز ہمارے بلانے پر پہنچے تو ہجوم امام بارگاہ کو نذرِ آتش کرچکا تھا۔‘‘
مولانا ملک جلال حیدر نے کہا ’’ہم نہیں جانتے کہ تعلیم القرآن مسجد کے رہنما کو کس نے ہلاک کیا، لیکن ہمارے علاقے کو کبھی فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا۔‘‘
انہوں نے اس کی خصوصیت پر زور دیتے ہوئے کہا ’’شیعہ فرقے کی یہ امام بارگاہ اور سنی فرقے کی مسجد کے دروازے ساتھ ساتھ ہیں، دونوں کو دو حقیقی بھائیوں نے تعمیر کروایا تھا۔‘‘
ڈان نے ضلعی رابطہ افسر سجاد ظفر ڈال سے ان کے موبائل فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
جمیعت التوحید والسنت کے سربراہ سید ضیاء اللہ شاہ نے مفتی امان اللہ کی نمازِ جنازہ لیاقت باغ میں پڑھائی۔
مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالموں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اراکین، مدرسے کے طلباء اور علاقے کی دیگر اہم شخصیات نے اس نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
ان اہم شخصیات میں اہلِ سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی، جمیعت اشاعت التوحید والسنت کے امیر مولانا محمد طیب طاہری، مقتول مفتی امان اللہ کے والد اور دارالعلوم تعلیم القرآن کے نگران اور مذہبی پیشواؤں کے سربراہ مولانا اشرف علی، دارالعلوم کے ترجمان حافظ محمد صدیقی، جمیعت علمائے اسلام-فضل کے صوبائی امیر ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان اور عوامی مسلم لیگ کے صدر اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے بھی شامل تھے۔
نمازِ جنازہ کے بعد مفتی امان اللہ کی میت کو اٹک لے جایا گیا، جہاں تدفین سے پہلے مولانا اشرف علی نے ایک مرتبہ پھر نمازِ جنازہ پڑھائی، جس میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جمیعت اشاعت التوحید والسنت کے ناظم اعلٰی سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ان لوگوں میں نمایاں تھے۔
اس سے پہلے راجہ بازار میں ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس میں اہلِ سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی، مقتول مذہبی پیشوا کے والد مولانا اشرف علی اور دیگر افراد نے خطاب کرتے ہوئے مفتی امان اللہ کے قتل کی سختی کے ساتھ مذمت کی۔
مولانا اشرف علی نے کہا کہ انہیں اور ان کے بیٹے کو دھمکیاں مل رہی تھیں، اور وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
دیگر مقررین نے کہا کہ حکومت پچھلے سال یومِ عاشورہ کے موقع پر راجہ بازار کے واقعہ میں مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دے دیتی تو اس سانحے کو ٹالا جاسکتا تھا۔
مولانا احمد لدھیانوی نے کہا کہ حکومت کو ان ٹارگٹ کلرز کو فوری طور پر گرفتار کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا ’’ہمیں اپنے کارکنوں کو مفتی امان اللہ کے سفاکانہ قتل کے ردعمل سے روکنا مشکل ہوگا۔ ہم کتنے عرصے تک انہیں روکیں گے؟ حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ کارروائی کرنی چاہیے۔ ورنہ اگر کوئی غلط ردعمل ہوا تو پھر حکومت ہی ذمہ دار ہوگی۔‘‘
یاد رہے کہ مفتی امان اللہ ایک موٹرسائکل پر اپنے ایک طالبعلم کے ساتھ چکری روڈ پر مدرسے سے واپس آرہے تھے، تو ان کو بکرامنڈی پر واپڈا آفس کے نزدیک نامعلوم حملہ آوروں نے شدید فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا۔