کوئی ان سے نہیں کہتا۔۔۔
یادش بخیر! نوابزادہ نصراللہ خان سے کسی صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ نے ہر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ تو انہوں نے حقہ گڑ گڑا کر فرمایا
سبھی مجھ کو کہتے ہیں نیچی رکھ نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا، نہ نکلو یوں عیاں ہوکر
یہ لاجواب، جواب اپنے اندر اتنی فصاحت و بلاغت سمیٹے ہوئے ہے کہ اس "زمین" میں پوری "غزل" کہی جا سکتی ہے۔
کوئی ان سے نہیں کہتا، دو دو کروڑ کے لگژری بلٹ پروف کنٹینروں اور گاڑیوں میں لانگ مارچ اور دھرنے دینے کو تو خوب عیاں ہوکر نکلتے ہو، ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے مطالبات کا کھلے آسمان تلے گرمی میں جلتی اور بارش میں بھیگتی، تمہارے پیچھے چلنے والی مخلوق کے مسائل سے بھی کوئی تعلق ہے؟
کیا عوام کا مسئلہ چند سیٹوں پر ہونے والی دھاندلی ہے یا جان لیوا لوڈ شیڈنگ؟ حکمرانوں کے استعفے ہیں یا خون چوس مہنگائی؟ الیکشن کمیشن کی تحلیل سے غریب سکھ کا سانس لے گا یا عزت سے دو وقت کی روٹی ملنے پر؟ وسط مدتی انتخابات عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں گے یا دہشت گردی کا خاتمہ؟ کیا عوام کے دامنِ صد چاک کی رفوگری کا راز آمریت میں پنہاں ہے یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت میں؟ کیا سول نافرمانی ان کے دکھوں کا مداوا ہے؟ یہ مطالبات اور کوششیں ریاست کو بچانے کے لیے ہیں یا اس کو ناکام بنانے کا حربہ؟ آخر تم بدنصیبوں کے اصل مسائل پر لانگ مارچ یا دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ دھرنے باز رہنماؤ! تم ہمہ وقت تازہ بہ تازہ کیوں ہو اور تمہارے حکم پر دھرنا دینے والے سادہ دلوں کے چہرے مرجھائے ہوئے کیوں ہیں؟ مگر کوئی ان سے نہیں کہتا۔
کوئی ان سے نہیں کہتا، شہادت کی بڑی آرزو کرتے ہو مگر حلوے سے موت واقع نہیں ہوتی اور شہادت پروف کنٹینروں پر بم اثر نہیں کرتا، پھر شہادت کیسے نصیب ہو؟ شہید تو ضرب عضب آپریشن میں خون آشام مخلوق کے ساتھ نبرد آزما فوجی جوان ہو رہے ہیں۔ ریاست تو وہ بچا رہے ہیں جو ٹی وی سکرینوں پر جلوہ افروز ہوکر شہادت پانے کے دعوے کیے بغیر خاموشی سے میدان جنگ میں اتر آئے ہیں۔ تمہارے قبیل کے تمام سرخیلوں نے تو ان سے یوں پیٹھ پھیری ہوئی ہے جیسے وہ انڈیا کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہوں۔ مگر کوئی ان سے نہیں کہتا۔
کوئی ان سے نہیں کہتا، تین تین اور پانچ پانچ سو کنال پر محلات بنانے والو! تمہاری رعایا کی کچی جھونپڑیاں بارشوں میں ٹپکتی ہیں، بار بار گر جاتی ہیں اور وہ بال بچوں سمیت ملبے تلے دب کر مر جاتے ہیں۔ وہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اپنے بچوں املاک اور جمع پونجیوں سمیت سیلاب میں غرق ہو جاتے ہیں۔ دو دو کنال کے کچن تعمیر کرانے والو! تمہارے ملک میں آج بھی بچے، ہاں انسانوں کے بچے بھوک سے مرتے ہیں یا ان کی مائیں بھوک سے تنگ آ کر ان سمیت نہروں اور دریاؤں میں ڈوب مرتی ہیں۔
قومی خزانے سے یورپ اور امریکہ میں علاج کرانے والو! تمہارے ووٹروں کو سرکاری ہسپتالوں میں اسپرین بھی خالص دستیاب نہیں۔ عوامی ٹیکسوں سے خاندانوں کے ہمراہ غیر ملکی دوروں، حج اور عمروں کے لیے عیاں ہوکر اڑانیں بھرنے والو! تمہارے عوام کسمپرسی کے عالم میں یوں زندگی گھسیٹ رہے ہیں جیسے عوامی گزرگاہوں پر تمہارے لگائے گئے کنٹینروں کے نیچے سے بچے ، بوڑھے اور عورتیں رینگ رینگ کر گزرتے دیکھے گئے۔ روٹ لگوا کر ہوٹروں کے شور میں اپنی شاہی سواریوں کے قافلے گزارنے والو! ان رستوں کے کھلنے کے انتظار میں حاملہ عورتیں شاہراہوں کے کنارے گاڑیوں اور رکشوں میں تمہارے مستقبل کے ووٹروں کو جنم دیتی ہیں۔
ٹھنڈے ٹھار کمروں میں تھری پیس سوٹ پہنے لوڈ شیڈنگ اور غربت مکاؤ پروگراموں کے خالقو! بخدا، غریبوں کے بچے بجلی کی بندش کی بنا پر رات رات بھر جاگ کر تمہیں بد دعائیں دیتے ہیں اور ہم گرمی میں پانچ پانچ کلومیٹر لمبی لائنوں میں لگ کر سی این جی کی " خیرات" لیتے ہیں۔
ملکی خزانے کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والو! اس مملکت کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے غرق ہو رہی ہے اور انسانی ترقی کے متعلق اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان صحت، تعلیم اور کم آمدنی کے اعتبار سے خطے کا غریب ترین ملک بن گیا ہے۔
ریڈ زون کے محفوظ باسیو! ہمیں دہشت گردوں، ڈاکوؤں، چوروں، اغواکاروں، تمہاری افسر شاہی اور پولیس سے تحفظ دینے والا کوئی نہیں۔ اپنے نیم خواندہ بچوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور وفاداروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے والو! یہاں ہر روز کئی تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری سے تنگ آ کر خود کشیاں کرتے ہیں۔ مگر کوئی ان سے نہیں کہتا۔
کوئی ان سے نہیں کہتا، ۔سادہ لوح مخلوق خدا کو فرقہ واریت پر اکساتے ہو، ان کو آپس میں باہم دست و گریباں کرتے ہو، ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہو، کافر گری کے کارخانے چلاتے ہو، امن کے داعی دین کے نام پر شر انگیز تقریریں کر کے اپنی دکانیں چمکاتے ہو، معاشرے میں فساد پھیلاتے ہو، خود پر تعیش زندگی گزارتے ہو اور ہمیں اپنے اسلاف کی طرز پر سادگی کے درس دیتے ہو، آخر تم سب، تم سب روزِ حساب کیا جواب دو گے؟ مگر کوئی ان سے نہیں کہتا، ہاں مگر رئیسؔ امروہوی کہتا ہے؛
موسم کے حوادث سے عبث ہے ہیبت
کچھ اور حوادث کا ہے خطرہ حضرت
سب سے بڑا طوفان شعورِ جمہور
سب سے بڑا سیلاب عوامی طاقت
یاد رکھو، تم سب یاد رکھو! تمہاری ساری عیاشیاں، تمہارے محلات، تمہاری دولت، تمہاری جائیدادیں، تمہارے کروفر اس غریب ملک کے عوام کے لاغر سیاسی شعور کے طفیل قائم ہیں، جو ہر دفعہ تمہاری طرف سے دکھائی جانے والی ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔
جس دن ان میں شعور کا طوفان آ گیا، اور تم ان کی نظروں میں عیاں بلکہ عریاں ہو گئے، تو تم سب عوامی طاقت کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاؤ گے۔ ڈیرے اجڑ جائیں گے، آستانے برباد ہوں گے اور یہ جاگیریں، ملیں اور فیکٹریاں ملک و قوم کے تصرف میں ہوں گی۔ ہم تمہاری کھودی ہوئی تاریک سرنگوں سے نکلیں گے تو پھرتم میں سے کوئی شاہ ایران کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھاتا گمنامی میں راہی عدم ہوگا، کسی کو حسنی مبارک کی طرح پنجرے میں بند کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے گا، اور کوئی صدام حسین کی طرح قابل رحم حالت میں کسی گڑھے سے گھسیٹ کر تختہ دار تک لایا جائے گا۔
تاریخ تو تمہیں اپنے کوڑے دان کی نذر کرے گی ہی، جن کے اصل مسائل سے منہ موڑ کر ان کی گردنوں پر سواری کی باری لینے کے لیے آپس میں دست و گریباں ہو، وہ بھی تمہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔
لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔