نقطہ نظر

سسٹم کی اصلاح کی ضرورت

کم ہوتی ہوئی ترقی اور بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں نے عوام میں نفرت اورغصہ کو ابھارا ہے جو مہنگائی اور بیروزگاری سے دوچار ہیں۔

ہماری سیاسی، زرعی، صنعتی اورفوجی-بیوروکریٹک اشرافیہ نے جن سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچوں کو فروغ دیا ہے، ان میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ زوال پذیر اداروں میں زندگی کی روح پھونکنے کے لیے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو معاشی ترقی کا محرک بنیں۔

زیر نظر مضمون میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

تاریخی اسباب کی بناء پر ہمارا انتظامی ڈھانچہ پیداواری صلاحیت کو فوقیت دینے کے بجائے صرف دیکھ بھال سے ہی کام چلائے رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ گو کہ اس کی سمت اور حاکمانہ طرز عمل سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ مکمل کنٹرول میں ہے، پر اس میں اب اتنی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ دن بہ دن زوال پذیر ریاستی ڈھانچہ کو سنبھالنے کے لیے کچھ اقدامات کرسکے۔

یہ محض یہی کرسکتا ہے کہ اندرون ملک جو اضافی پیداوار حاصل ہو اس سے اپنے روزمرہ کا کام چلائے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرنے والے حقیقی شعبے کے مقابلے میں انتظامی امور اور دفاع پرزیادہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اسی لیے جہاں جی ڈی پی میں پیداواری شعبے کا حصہ 2006۔2005 میں 41 فی صد سے گھٹ کر 2014۔2013 میں 40 فی صد ہوا، وہاں اسی مدت کے دوران دفاع اور انتظامی امور پر قومی آمدنی میں سے ہونے والے خرچے 5.2 فی صد سے بڑھ کر 6.7 فی صد ہوگئے۔

سیکیورٹی اسٹیٹ اور اس سے متعلقہ اداروں کی شدید ضروریات نے وسائل کی تقسیم پر بر اثر ڈالا ہے اور بجائے اس کے کہ انھیں اہم سماجی خدمات پر صرف کیا جائے، انتظامی اور مالیاتی اختیارات اور وسائل کی تقسیم میں مزید مرکزیت پیدا ہو گئی ہے، جس نے وفاق کی اکائیوں میں جمہوری قوتوں کے درمیان مسلسل تنازعات کو جنم دیا ہے۔

ایک خود غرض جاگیرداری، صنعتی اور فوجی۔بیوریوکریٹک اشرافیہ تشکیل کے عمل پر اور ایک ایسے معاشی ڈھانچے پر قابض ہے جو چیزوں سے کرایہ حاصل کرنے کے عمل کی سرپرستی کرتی ہے، اور جس کی نظریں خود تک محدود ہیں اور جسے باقی دنیا سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو نہیں چاہتا کہ ایک بہتر اور برابری پر مبنی معاشرہ قائم ہو جہاں کم حیثیت افراد کو میرٹ کی بنیاد پر سماجی اور معاشی نقل و حرکت کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔

اشرافیہ نہیں چاہتی، حالانکہ یہ خود اس کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ایک منصفانہ سماج کی تعمیر کے لیے وسائل کا بوجھ برداشت کرے۔ اس کے برعکس اس نے ایک ایسے سماجی نظام کو جنم دیا ہے جو جاگیرداری اقدار کا حامل ہے، جو بجائے اس کے کہ غیر شخصی تجارتی تعلقات اور دیگر معیشتوں میں مقابلے کے کلچر کو فروغ دے، سرپرستانہ اور ذاتی تعلقات کے کلچر کو فروغ دیتا ہے۔ اقربا پروری اور قانون شکنی کی پشت پناہی، اور عدل و انصاف کے اصولوں سے انحراف کے کلچر کی ہمت افزائی کرتا ہے، اور ان اداروں کو تباہ کرتا ہے جو اس طرح کی زیادتیوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔ بلکہ اشرافیہ کا پس منظر نہ رکھنے والے درمیانی طبقہ بھی جو آہستہ آہستہ ابھر رہا ہے یہی طور طریقہ اختیار کررہا ہے جس کے نتیجے میں ریاست اور اس کی منصوبہ بندی متاثر ہورہی ہے جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ریاست اور اداروں کے لیے قانونی جواز کا بحران پیدا ہورہا ہے۔

اس کے علاوہ ان اداروں کو مضبوط بنانے کا عزم سست روی کا شکار ہے جبکہ بیوروکریسی اپنے مفادات کا تحفظ کررہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نظم و نسق کا معیار متاثر ہورہا ہے اور معاشی اور سماجی منصوبہ بندی متاثر ہورہی ہے جس پر ترقی کا دارو مدار ہے۔

اثاثوں کے مالک یا کرایوں پر چلنے والے سیاستدانوں کا ویژن اور عقل محدود، ذہنی صلاحیت کم اور اہلیت مشتبہ ہے، یہ لوگ نہ صرف "اسٹیٹس کو" کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر ذاتی مفاد کے لیے سرکاری وسائل کا بے دردی سے استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کے اردگرد کے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔

ان کے بارے میں تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ اپنی جیبیں بھرتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں جن کی پشت پناہی بیوریوکریسی کرتی ہے، ملک کو انہوں نے اپنی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے اور سیاست کو یہ بزنس سمجھتے ہیں جس کی خرید و فروخت ہوسکتی ہے۔

اختیارات اور مراعات کا غلط استعمال معمول بن چکا ہے۔ اگر معیشت تیزی سے ترقی کرتی اور خوشحالی سے سب کو فائدہ پہنچتا تب یہ چیزیں مسئلہ نہ بنتیں۔ لیکن ترقی کی کم ہوتی ہوئی شرح اور بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں نے عوام میں نفرت اور غصہ کو ابھارا ہے جو افراط زر کے تباہ کن اثرات سے دوچار ہیں، جنھیں روزگار کے کم سے کم مواقع حاصل ہیں جبکہ مذکورہ بالا گروہ ان حالات کو سدھارنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایک طرف سماج کا اعلیٰ طبقہ تو پھل پھول رہا ہے جبکہ غریب کو ترقی کے دائرہ سے باہر نکالا جارہا ہے۔ غریب اس لیے بھی تکلیفوں کا شکار ہے کہ اسے جو سہولتیں حاصل ہیں وہ ناکافی اور گھٹیا نوعیت کی ہیں۔ نہ ہی حقداروں کو سہولیات مل پاتی ہیں، جس کی وجہ یا تو بدعنوانی ہے یا پھر فنڈز کو ان لوگوں کی سمت موڑ دیا جاتا ہے جو ان کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہیں یا ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مراعات یافتہ طبقے اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق بڑھ گیا ہے، اور اس کی وجہ سے سماج کے دونوں طبقوں کے درمیان فاصلے انتہائی حد کو پہنچ گئے ہیں۔

تو اب کیا کیا جائے، کیونکہ یہ واضح نہیں کہ حالیہ سیاسی واقعات نے دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا ہے یا نہیں، یا پھر طوفان کے ٹل جانے کے بعد وہی کچھ ہوتا رہے گا؟ جگہ کی تنگی کی وجہ سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

1: انتخابات، عدالتی نظام، اور سول سروس میں فوری طور پر اصلاحات کی جائی۔ ان پر آئندہ مضامین میں علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی جائے گی۔

2: پنجاب کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے اسے مزید صوبوں میں تقسیم کردیا جائے، جس کے نتیجے میں وفاق میں صوبوں کی شراکت داری مضبوط ہوگی۔

3: لوکل گورنمنٹ کا مؤثر نظام قائم کیا جائے اور اس کی نشو و نما کی جائے۔

4: صوبوں کو ان کے قدرتی وسائل مثلاً، معدنیات، تیل، گیس اور ساحلی علاقوں پر مکمل اختیار دیا جائے۔

5: ٹیکسوں کا مساوات پر مبنی نظام قائم کیا جائے، جس کے تحت آمدنی کے ذرائع کا لحاظ کیے بغیر ہر قسم کی آمدنی پر مساوی ٹیکس لگایا جائے۔

6: سرکاری عہدوں کو کم پرکشش بنایا جائے تاکہ مشتبہ کردار کے افراد ان عہدوں کو حاصل کرنے کے خواہشند نہ ہوں۔ شفافیت، نظم و نسق، احتساب و جوابدہی بڑھانے کی خاطر تمام قانون سازوں، اور سرکاری عہدہ دار، جو مسلح افواج کے سربراہ ہوں، یا کسی سرکاری ایجنسی کے سیکریٹری یا اس کے سربراہ ہوں اور ان کے اہل خاندان( جن میں شادی شدہ بیٹیاں بھی شامل ہیں) انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس گوشوارے داخل کریں اور اسے ان کی ملازمت کی مدت کے دوران اور اس کے تین سال بعد تک سرکاری دستاویز قرار دیا جائے۔

7: تمام اہم عہدوں مثلاً، آڈیٹر جنرل، اٹارنی جنرل، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین نیب، گورنر اسٹیٹ بینک وغیرہ پر تقرریوں کی پارلیمنٹ سے توثیق کروائی جائے۔

8: تمام صوابدیدی اختیارات کو ختم کردیا جائے، خاص طور پر جن کا تعلق قوانین کوکم اثر کرنے یا ٹیکس میں مراعات دینے سے ہو، جنہیں آج کل عوامی نمائندوں اور ریاستی اہلکاروں کو فراخ دلی سے دیدیا گیا ہے۔

9: معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا ایک مضبوط قانون نافذ کیا جائے جس کے تحت پارلیمنٹ اور عوام کو حق ہو کہ وہ حکومت کے فیصلوں کا کڑا جائزہ لے سکیں۔

10: عام لوگ یقین کی حد تک سمجھتے ہیں کہ سرکاری عہدہ دار انھیں کبھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ انھیں صرف نقصان ہی پہنچاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ کے اہلکاروں کی تعداد کم کی جائے، اور ابتدائی طور پر وفاقی حکومت کے اہلکاروں کی تعداد میں نمایاں کمی کیجائے جو بہرحال اٹھارہویں ترمیم کے تحت ضروری ہے۔

11: سب سے آخر میں یہ کہ تمام سرکاری مالیاتی اداروں کی اور ان اداروں کی نجکاری کی جائے جنھیں معیشت کے دیگر شعبوں میں اجارہ داری حاصل نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ


لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔