تبدیلی آگئی ہے
ایک مہینہ ہونے کو ہے، اور یہ لوگ اب بھی ڈی چوک پر موجود ہیں۔ ان دو شعلہ بیان لیڈروں کے ذاتی مقاصد کے بارے میں آپ کچھ بھی کہیں، لیکن ان کے حامیوں کا مقصد واضح ہے، اور وہ ہے تبدیلی، پھر بھلے وہ کسی بھی شکل و صورت میں آئے۔
ملک کے باقی حصے میں اس بات پر بحث جاری ہے، کہ عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے الفاظ اور طریقوں سے کس طرح کی مثال قائم کی ہے۔ کبھی سول نافرمانی کی کال، کبھی ٹیکس اور بل ادا کرنے سے روکنا، کبھی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ، کبھی سرکاری عمارات پر حملہ، سادہ الفاظ میں کہیں تو قانون کی کئی دفعہ مختلف انداز میں دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔
اگر اس وقت دارالحکومت کی سڑکوں پر موجود جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک یہ سمجھتی ہیں کہ صرف سڑکوں پر بڑی تعداد میں لوگوں کو لاکر حکومت سے کسی بھی قسم کا مطالبہ منوایا جا سکتا ہے، تو کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے کہ کل کوئی دوسرا گروپ، جو نا سیاسی جماعت ہو، نا جمہوری سسٹم کا حصہ ہو، اور غیر قانونی بھی ہو، اس طرح کا طریقہ استعمال کر کے اپنے مطالبے تسلیم نہیں کروالے گا؟
ایسے کسی گروپ کو، جو یہ مطالبہ کرے کہ ملک میں ایک سخت گیر مذہبی حکومت قائم کی جائے، جس میں خواتین کو چار دیواری کے پیچھے محدود کر دیا جائے اور تمام اسکولوں کو بند کر دیا جائے، روکنے کے لیے ہم کیا وجہ پیش کریں گے اگر پہلے ہم اسی طریقے سے دوسرے مطالبات مان چکے ہوں گے؟
پورا پاکستان یہ جانتا ہے کہ اس طرح کے گروپ ملک میں وجود رکھتے ہیں، اور ملکی امن و سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
لیکن ان دونوں جماعتوں کی جانب سے قائم کی گئی مثال کے خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ آئیں تھامس ہوبز کے سماجی معاہدے (Social Contract) کی تھیوری کا ایک بار پھر جائزہ لیں، جو پچھلے تین سو سالوں سے ہمارے پاس موجود ہے۔
اس تھیوری کے مطابق حکمرانی پر مبنی سیاسی نظام میں شہری حقوق نا ہی فطری حقوق ہوتے ہیں، اور نا ہی یہ مستقل اور دائمی ہوتے ہیں۔ ہوبز کہتے ہیں کہ انسانی فطرت کا تقاضہ یہ ہے، کہ ایک سیاسی حکومت کی غیر موجودگی میں ہر دوسرے شخص سے وسائل کے حصول کے لیے لڑا جائے۔
اس طرح ایک ریاست اور شہریوں کے بیچ ایک طرح کا غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے۔ ریاست شہریوں کو حقوق فراہم کرتی ہے، جس میں بنیادی سہولیات جیسے کہ معاشی وسائل، انفراسٹرکچر، تحفظ، انصاف شامل ہیں۔ اس کے بدلے میں شہری ریاست کی جانب سے بنائے گئے قوانین کی پاسداری کرنے، اور بے قانون رہنے کی اپنی فطرت پر قابو پانے کے پابند ہوتے ہیں، تاکہ معاشرے میں مجموعی طور پر امن امان قائم ہو سکے۔
اس طرح شہری حقوق اس معاہدے کی پاسداری کا نتیجہ ہیں۔ جو افراد اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور جرائم وغیرہ کرتے ہیں، وہ اپنے حقوق سے بھی دستبردار ہوجاتے ہیں، اور انہیں اس جرم کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سماجی معاہدے کا یہ تصور جمہوری سیاسی نظام میں ایک مرکزی مقام رکھتا ہے، کیونکہ جمہوریت میں ریاست کو قانونی اختیارات صرف عوامی فیصلے سے ہی ملتے ہیں۔
کیا ریاست پاکستان، جس کی نمائندگی کئی سول اور ملٹری حکومتوں نے کی، نے اپنی پوری تاریخ میں معاہدے کی ان ضروریات کو پورا کیا ہے جو معاہدے کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں؟
زیادہ تر لوگ نا میں جواب دیں گے۔ ملک میں محرومی بے حد بڑھ گئی ہے، جبکہ ایک عام آدمی کے لیے حالات بد سے بدترین ہو چکے ہیں، جب کہ ان مسائل کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب، شاید ایک فریق کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں، شہری بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ معاشرے میں جرائم، عسکریت پسندی، اور علیحدگی پسند نظریات بڑھ رہے ہیں۔ تو پاکستان میں ہمارے پاس اب ایسی صورتحال ہے، جہاں شہری حقوق کی عدم موجودگی میں عوام اب وسیع تر بھلائی کا سوچنے کے بجائے اپنے اپنے مفاد کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔
لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کا طرز عمل چیزوں کو ایک بالکل مختلف سطح پر لے گیا ہے۔ ہوتا اس طرح تھا، کہ قانون شکن کو، اس کے اعمال کے جواز سے قطع نظر، ایک قانون شکن کے طور پر ہی جانا جاتا تھا۔
لیکن پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے قانون شکنوں اور قانون کی پاسداری کرنے والوں کے درمیان تفریق کو اس طرح دھندلا دیا ہے، کہ غیر قانونی اقدامات کا بوجھ ریاست پر پڑ رہا ہے، جبکہ ان کے اقدامات کو صحیح قرار دیا جارہا ہے۔
سادہ الفاظ میں کہا جائے، تو اس ملک میں پہلے سے کمزور سماجی معاہدے کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔
اس کے نتیجے میں انارکی اور ہوس کتنی بڑھے گی، صرف وقت ہی بتائے گا۔ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایک دوسرے سے لڑیں گے، اور وسیع تر مفاد یا مجموعی مفاد بے معنیٰ الفاظ بن جائیں گے۔ ایسی صورت میں صرف افسوس ہی کیا جاسکے گا، اور افسوس کرتے رہنے کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہوگا۔
لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔ hajrahmumtaz@gmail.com
یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔