وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
فیلڈ مارشل ایوب خان کو چکوال کے نواحی قصبے خان پور کی شکار گاہ بڑی پسند تھی۔ آنجناب دورانِ اقتدار دلجبہ کی خوبصورت پہاڑیوں میں کوئی چودہ مرتبہ شکار کے لیے تشریف لائے۔ چکوال اس وقت ضلع جہلم کی پسماندہ سی تحصیل تھی۔ جونہی صدر صاحب کے شکار کا بگل بجتا، ڈپٹی کمشنر جہلم نوابزادہ یعقوب خان ہوتی محکمہ مال چکوال کو انتظامات کا حکم صادر کرتے اور چکوال کے پٹواری اور تحصیلدار اس مملکت خداداد کی اعلیٰ ترین روایات کے عین مطابق اپنے سرکاری فرائض چھوڑ کر وی وی آئی پی شکار اور (ذاتی خرچے پر) کھانے کے انتظامات میں جُت جاتے، کیونکہ ماضی ہو یا حال، یہی وطن عزیز کے آئین اور قانون کا اصل چہرہ بھی ہے اور سرکاری ملازمین کی نوکریوں کی ضمانت بھی۔
کئی دن تک انتظامات کا سلسلہ جاری رہتا، کراچی کے فائیوسٹار ہوٹل سے کھانے کا انتظام کیا جاتا اور دیگر دور دراز کے شہروں سے وی آئی پی فرنیچر، کراکری، صوفے اور قالین وغیرہ کرائے پر حاصل کیے جاتے۔ صدر ایوب خان اپنے رفقاء کے لشکر کے جلومیں صبح سویرے پہنچ جاتے، ڈوہمن ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرتے، دن بھر شکار سے لطف اندوز ہوتے، کھانا تناول کرتے اور واپس چلے جاتے۔ یہ 1963ء کی بات ہے۔ ہمارے والد گرامی چوہدری شاہ نواز خان اس وقت موضع خان پور میں پٹواری تعینات تھے۔
ہمارے دیگر حکمرانوں کی طرح ایوب خان کو بھی ملک سے کرپشن کے خاتمے کا شوق پیدا ہوا۔ اس مقصد کے لیے ان کی قائم کردہ انسپکشن ٹیم کی بڑی کُوک تھی۔ یہ ٹیم اعلیٰ فوجی وسول افسران اور آڈیٹر جنرل پر مشتمل تھی۔ چند غیر ملکی صحافی بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔
اس ادارے نے قائم ہوتے ہی اپنی تیز دھاردرانتی سیدھی کرپشن کی جڑوں میں رکھ دی اور ملک سے بدعنوانی اور رشوت کو بالکل اسی طرح ختم کر دیا جیسے ہماری ہر حکومت ان خرافات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ یہ لوگ سرکاری دفتروں میں گھس جاتے اور اپنی چھڑیاں میزوں پر مار مار کر افسروں اور اہلکاروں سے سخت باز پرس کرتے اوران کو بے عزت کرتے۔ اس انسپکشن ٹیم نے ملک کے طول و عرض میں کھلی کچہریاں منعقد کیں، موقع پر لوگوں کی شکایات سنیں اور بدعنوانیوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کے علاوہ سرکاری ملازمین کو ہرموقع پر ذلیل بھی کیا۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اسی صدارتی شکار گاہ موضع خان پور میں اس "کرپشن دشمن" ٹیم نے کھلی کچہری کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ حسبِ روایت پٹواریوں نے مروجہ طریقہ سے ٹیم کے کھانے پینے وغیرہ کا بندوبست کیا۔ کھلی کچہری نے جلسہء عام کی شکل اختیار کر لی۔ پولیس، محکمہ مال اور دیگر سرکاری اداروں کے خلاف لوگوں نے شکایات کیں۔ بریگیڈیئر مظفر صاحب نے سرکاری افسران و اہلکاروں کے خوب لتے لیے اور برملا اعلان کیا کہ ہم سب کو سیدھا کر دیں گے۔
یہ کچہری بخیر و عافیت علاقے کو کرپشن سے پاک کر کے اختتام پذیر ہو جاتی ، اگر آخر میں غلام رسول نامی شخص اپنی شکایت نہ کرتا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ گاؤں کے قبرستان کی جگہ اب ناکافی ہو چکی ہے لہذٰا گاؤں میں ہندؤوں کی جو متروکہ پراپرٹی موجود ہے اس کو قبرستان کے لیے وقف کیا جائے۔ اس نے مزید کہا کہ مذکورہ پراپرٹی کے بارے میں حلقہ پٹواری صحیح نہیں بتائے گا، سو اس کو ذرا رگڑا دے کر پوچھیں۔
والد صاحب تب نوجوان عمر اور جذباتی طبیعت تھے، وہ خود ہی کھڑے ہوگئے اور اپنا تعارف کرایا کہ میں شاہ نواز خان حلقہ پٹواری خانپور ہوں۔ برگیڈیر موصوف نے پٹواریوں کی شان میں چند قصیدے پڑھے، انہیں چور اور رشوت خور قرار دیا، اور حکم دیا کہ غلام رسول کی بات کا جواب دو۔ والد بزرگوار نے پہلے تو عرض کیا کہ یہ زمین صوبائی حکومت کے فلاں حکم کے تحت، فلاں مہاجر کو الاٹ ہو چکی ہے۔ پھر ٹیم سے استفسار کیا کہ اب مجھے بتایا جائے کہ مجھے رگڑا کیوں دیاجائے گا؟
اب بریگیڈیئر مظفر اورسرکل پٹواری کے درمیان تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ بریگیڈیئر صاحب نے حکم دیا "بیٹھ جاؤ"۔ پٹواری صاحب نے کہا "نہیں بیٹھتا "۔ بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا "کیا کرو گے؟" انہوں نے جواب دیا "شکایت کروں گا، آپ بدعنوانی کے خلاف میری ایک شکایت نوٹ کریں"۔ بریگیڈیئر مظفر نے پوچھا کہ تم نے کس کے خلاف شکایت کرنی ہے؟ پٹواری سرکل نے کہا "صدر ایوب خان کے خلاف"۔
محفل میں سناٹا چھا گیا۔ بریگیڈیئر نے کہا "کیا صدر کرپٹ ہیں؟" ہمارے ابا جی نے کہا "جی ہاں! وہ بدعنوان ہیں، وہ بل نہیں دیتے۔ وہ اب تک بارہ مرتبہ اس علاقہ میں شکار کے لیے آچکے ہیں۔ ایک دفعہ ان کو کھانا سردار خضر حیات خان نے دیا اور بقول ان کے (اس زمانے میں) آٹھ ہزار روپے صرف کھانے کا خرچ آیا۔ مجھے بتایا جائے کہ باقی گیارہ دفعہ آٹھ ، آٹھ ہزار روپے کہاں سے آئے؟ کیا صدر ایوب ساتھ لائے تھے یا کسی سرکاری ادارے نے دیے تھے؟ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتاتا ہوں کہ کھانے کے یہ پیسے اور دیگر اخراجات ان بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے تھے"۔
جناب شاہ نواز خان نے مزید کہا کہ آپ کب سے رشوت رشوت کی رٹ لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ پٹواری چھوٹے چور ہیں اور آپ بڑے چور ہیں۔ ہمیں یہ اخراجات کرنے کا حکم اوپرسے آتا ہے۔ انہوں نے کہا "سو سنار کی، ایک لوہار کی" کے مصداق پٹواری تھوڑی تھوڑی رشوت اکھٹی کرتے ہیں اور صدر ایک ہی جست میں آ کر ساری چٹ کر جاتا ہے، نیز میں سرکاری ملازم ہوں کوئی رئیس زادہ نہیں کہ یہ رقم گھر سے لایا کروں۔
لوگ جو پہلے ہی حکومت کے خلاف بھرے بیٹھے تھے، انہیں اس بات سے حوصلہ ہوا اور انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ایس پی جہلم نے اپنی فورس کے ہمراہ آگے بڑھ کر والد صاحب کو قابو کر لیا مگر بریگیڈیئر صاحب نے حکم دیا کہ اس کو سٹیج پر آنے دیا جائے۔ سٹیج پر انہوں نے پٹواری سے کہا کہ یا تو تم پاگل ہو یا تمہارے گھر دانے زیادہ ہیں۔ ابا جی نے جواب دیا کہ دونوں باتیں غلط ہیں نہ میں پاگل ہوں اور نہ ہی امیر آدمی ہوں۔ آپ کب سے کرپشن پر لعنتیں بھیج رہے ہیں، اسی بارے ایک سچ بات تھی جو میں نے بھی کہہ دی۔
بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہوٹل اور دیگر اشیاء کے بلز میرے نام پر ہیں جو میں کسی بھی فورم پر پیش کرنے کو تیار ہوں۔ اس دوران غیر ملکی جو "پریذیڈنٹ اور کرپٹ" جیسے الفاظ بار بار سن کر کافی کچھ سمجھ چکے تھے پوچھتے رہے کہ یہ کیا کہتا ہے؟ ان کو اراکین ٹیم اور انتظامیہ ٹالتے رہے تاہم ایک بوڑھے انگریز نے اٹھ کر والد صاحب کا کندھا تھپتھپایا اور اپنی ڈائری پر ایک لمبا نوٹ لکھا۔
المختصر، کھلی کچہری نہایت بدمزگی کے عالم میں اختتام پذیر ہوئی اور انسپکشن ٹیم بغیر کچھ کھائے پیئے اٹھ کر چلی گئی کیونکہ وہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے آئے تھے، آئینہ دیکھنے نہیں۔
اسی شام والد بزرگوار کو ریسٹ ہاؤس میں افسروں نے طلب کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر چکوال کیپٹن سعید نے انہیں کہا کہ اگرچہ میرے اختیارات تھوڑے ہیں لیکن تم نے کام ایسا کیا ہے کہ مجھ سے جتنا ہو سکا تمہارا دفاع کروں گا۔ ڈپٹی کمشنر نوابزادہ یعقوب خان نے ابا جی کو الگ کمرے میں بلایا، اپنا پرس نکال کر میز پر رکھ دیا اور کہا کہ اگر میرے کسی دورے پر تم نے کچھ خرچ کیا ہو تو اس میں سے لے لو۔ انہوں نے انکار کیا تو ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمہارے ساتھ تو اب جو ہو گا سو ہو گا لیکن خدارا کہیں بھی میرا نام نہ لینا کہ میں شکار کے انتظامات کا حکم دیتا تھا۔
اگلے دن تمام انتظامی افسران بشمول ڈی سی، اے سی، ایس پی اور تحصیلدار وغیرہ کے تبادلے کر دیئے گئے۔ اب ابا جی کے لیے انکوائریوں اور مصیبتوں کا عذاب شروع ہوا۔ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ نئے اسسٹنٹ کمشنر اے۔ کے خالد نے ان کی لائسنسڈ بندوق ضبط کی اور اس "مقدمے" میں ان کی عبوری ضمانت دینے والے چوہدری جہان خان ایڈوکیٹ نے جب اے سی سے پوچھا کہ مچلکے میں کون سا جرم لکھنا ہے تو صاحب بہادر نے کہا کہ آپ مچلکہ فِل کر دیں، میں کوئی جرم خود ہی لکھ دوں گا۔
چکوال کے سردار اشرف خان مرحوم اس وقت پارلیمانی سیکرٹری تھے لیکن ہمارے سردار ایسے موقعوں پر "اللہ خیر کریسی" تک ہی محدود رہتے ہیں۔ البتہ راجہ محمد افضل آف کالس کی سفارشوں پر اے سی نے بتایا کہ مجھے اوپر سے حکم ہے کہ اس پٹواری کو کسی نہ کسی مقدمے میں لمبی قید کی سزا سناؤں، تاہم مجھ سے جتنا ہو سکا مقدمات کو لمبا کرتا رہوں گا۔
اس واقعہ کے دوسرے دن امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب نے اپنے معتمد خاص امیر جماعت اسلامی لائلپور (فیصل آباد) کو ہمارے والد صاحب کے پاس خان پور بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے آپ کا فوٹو منگوایا ہے اورجابر حکمران کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ قدم بڑھائیں جماعت کے تمام وسائل آپ کے لیے حاضر ہیں۔ ابا جی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ایک جذباتی قدم تھا۔ میں معمولی سرکاری ملازم ہوں اور میرا مزید " قدم بڑھانے" کا ارادہ نہیں۔
مولانا مودودی نے بعد میں ابا جی کو تفصیلی خط لکھا اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ خط ایجنسیوں نے پکڑ لیا۔ انکوائریوں کا رخ اس طرف مڑ گیا تاہم ان کا کسی بھی جماعت وغیرہ سے تعلق ثابت نہ ہو سکا۔ بات اخباروں میں بھی پھیلنی شروع ہو گئی۔ سنا ہے کہ جب انکوائری رپورٹس صدر ایوب خان تک پہنچیں تو انہوں نے مزید رسوائی کے ڈر سے پٹواری کو نہ چھیڑنے اور معاملے پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا اور یوں والد صاحب کی گلو خلاصی ہوئی۔
ایوب خان اس کے بعد دو دفعہ مزید شکار کے لیے چکوال آئے مگر اس طرح کہ پٹواریوں سے خرچہ تو نہ لیا گیا البتہ گورنر امیر محمد خان کا حکم آ گیا کہ خبردار پٹواری خان پور شکار گاہ کی طرف نہ جانے پائے۔ سو ایس پی سیکورٹی نے ان کو دونوں دفعہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبدالکریم کنڈی اس وقت چکوال میں سول جج تعینات تھے۔ انہوں نے ناطق زیدی صاحب ایڈوکیٹ کے ذریعے اباجی سے ملاقات کی۔ ان کی جرأت پر شاباش دی اور پیشکش کی کہ اگر آپ چاہیں تو صدر کے خلاف میری عدالت میں خرچے کا دعویٰ کردیں اور ثبوت پیش کریں تومیں صدر کے خلاف ڈگری جاری کردوں گا۔ والد صاحب نے ان کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے ناجائز طور پر مطعون کیا اس لیے میں نے کھری کھری سنا دیں۔ میں "اکیلا" آدمی ہوں مزید بات بڑھانا میرے بس کی بات نہیں۔
سابق گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمن اس وقت راولپنڈی میں لیفٹیننٹ جنرل تعینات تھے۔ وہ والد صاحب کے مہربان تھے۔ 56-1955ء میں جب وہ کروڑ لعل عیسن (لیہ) میں پٹواری تعینات تھے تو عتیق الرحمن وہاں اپنی زمینوں کے مسائل کے سلسلے میں ان کے پاس جاتے تھے۔ اکثر ان کی بیگم مسز نسیم عتیق الرحمن (دختر بیگم شاہنوازتحریک پاکستان فیم) بھی جاتی تھیں۔ اس وقت سے ان کے ساتھ واسطہ تھا۔
اس واقعہ کے بعد والد صاحب کسی کام کے سلسلے میں ان کے گھر راولپنڈی گئے تو بیگم صاحبہ نے دہائی دی کہ تمہارے خلاف اعلیٰ ترین سطح پر انکوائری ہو رہی ہے۔ تم ہمارے ساتھ اپنا تعلق ختم سمجھو ورنہ ہمیں بھی لے ڈوبو گے۔
بریگیڈیئر مظفر آف جھاٹلہ کچھ عرصے بعد والد صاحب کواتفاقاً ملے تو پوچھا "جوان تم نے ابھی تک کوئی قتل نہیں کیا؟"۔ انہوں نے کہا نہیں جناب میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔ بریگیڈیئر صاحب نے کہا "پاگل تو نہیں ہو لیکن ہمارے لیے تو تم نے زلزلہ برپا کر دیا تھا۔ تمہیں کیا خبر کہ بات کہاں تک گئی اور کس کس نے بھگتی؟"۔
ماضی کا یہ قصہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی ہو یا حال ، اربابِ اختیار و اقتدار کی رشوت اور بدعنوانی کے خلاف کھوکھلی بڑھکوں کی حیثیت محض لطیفوں سے زیادہ نہیں۔ یہ لوگ جتنے بھی کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں ان کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی لغویات کہا جا سکتا ہے۔ کل بھی ان کا یہی وطیرہ تھا، آج بھی ان کا یہی چلن ہے۔ پٹواری ہی ان کے جلسوں اور شکاروں کا انتظام کرتے ہیں اور پٹواری ہی ان کے جلسوں کے لیے لوگ اور شکار گاہوں کے لیے تیتر اکھٹے کرتے ہیں۔ یہ لوگ پٹواریوں کا حرام مال کھاتے ہیں اور پھر ڈھٹائی سے رشوت کو جڑ سے اکھاڑنے کی باتیں کر تے ہیں۔ پٹواریوں سے اوپر کوئی نہیں دیکھتا جبکہ خود پیٹ کے بل چاند پر پہنچ گئے ہیں۔
ملک کو بیچ کر کھا جائیں گے تو ڈکار تک نہیں مارتے اور کرپشن ختم کرنے پر آتے ہیں تو کلرکوں اور پٹواریوں کی۔ کلر ک کی رشوت والا پانچ سو کا نوٹ تو اینٹی کرپشن کا انسپکٹر با آسانی پکڑ لیتا ہے، مگر ان کو ثبوت نہیں ملتا تو چینی بلیک کرنے والوں کا، سراغ نہیں ملتا تو آٹا سمگل کرنے والوں کا، ثابت نہیں ہوتے تو موٹروے کا کمیشن، اور منی لانڈرنگ کے کیس۔ انہیں سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس کا بھی سراغ نہیں ملتا اور سرے محل کا بھی۔ یہ کوآپریٹو سکینڈل سے بھی بے خبر ہیں اور قرضے معاف کرانے والوں سے بھی۔ یہ کمیشن مافیا کے سامنے بھی بے بس ہیں اورجعلی ادویات بنانے والوں کے آگے بھی لاچار۔
یہ ٹارگٹ کلرز کے سرپرستوں سے بھی لا علم ہیں اور خود کش بمباروں کی کمین گاہیں بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ NRO کے تعفن سے اٹھنے والے کھربوں کو زمین نگل گئی اور "قرض اتارو، ملک سنوارو" جیسی مہمات کے بطن سے جنم لینے والے اربوں کو بھی آسمان نگل گیا۔ یہ نچلی سطح کی کرپشن مسخروں کی طرح اچھل اچھل کر ختم کرنے کی بڑھکیں مارتے ہیں، لیکن انہیں کچھ خبر نہیں کہ جہاد افغانستان کے ڈالر اور آئی جے آئی بنوانے کے کروڑوں کہاں غائب ہوئے اور رینٹل پاور اور سٹیل ملز جیسے سکینڈلز کی رقوم کس نے ہضم کیں۔
اپنی بارہ ارب روپے یومیہ کی کرپشن اور ٹیکس چوری کی رپورٹوں پر ان کا استحقاق اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے مگر پٹواریوں کی بد عنوانیوں پر خطاب کرتے ہوئے اربابِ اختیار کی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں۔ ہمارے والد ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں میں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ تھوڑی سی جدی بارانی زمین اور سفید پوشی کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں مگر پچھتاوا بھی کوئی نہیں۔ دکھ ہے تو حبیب جالب والا کہ؛
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔