نقطہ نظر

کراچی میں فرقہ ورانہ دہشتگردی

کراچی ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ دہشت گردی کی زد میں ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی بے گناہ سنی یا شیعہ اپنی جان گنوا رہا ہے۔

فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ یوں تو آج کل بہت سے ملکوں کا مسئلہ ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ آگ سویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے بعد زیادہ شدت سے پھیلی۔ افغان جہاد اور انقلابِ ایران کے ثمرات سمیٹنے میں ہم نے ذرا دیر نہ لگائی۔

مدارس سے وابستہ طلباء نے افغانستان کا رخ کیا اور تربیتی کیمپوں میں عربوں سے عسکری اور فکری تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے برانڈ کا اسلام نافذ کرنے کے لیے ایک نئی سوچ لیکر واپس آئے، اور رواداری کی اسلامی روایتوں کو پسِ پشت ڈال کر دوسرے مسالک اور فرقوں کو فتح کرنے کی جنگ شروع کردی۔ اسی وقت شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے شدت پسند گروپس بھی تشکیل پانےلگے۔

لشکرجھنگوی اور سپاہ محمد جیسی انتہائی تربیت یافتہ تنظیموں نے ہائی پروفائل شخصیات کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا۔ علماء، ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلاء، شاعر، تاجر، اور سیاستدان سب ان کے نشانے پر تھے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی صورت میں دونوں گروپس کے دہشتگردوں کو چھپنے کے لیے ہمدرد ہمسایہ ممالک میں ٹھکانے بھی باآسانی دستیاب تھے۔

لشکرجھنگوی نے کابل اور بعدازاں خوست میں اپنے تربیتی مراکز قائم کرلیے جہاں ریاض بسرا اور قاری اسد اس کے ذمہ دار تھے جبکہ پارہ چنار میں ایک شیعہ تربیتی کیمپ کا اس وقت انکشاف ہوا جب 2001 میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ گروپ کے چند لڑکے دورانِ تربیت دستی بم پھٹنےسےشدید زخمی ہوئے اور ان میں سے دو لڑکے بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔

زخمی ہونے والے 3 لڑکوں کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ پارہ چنار میں شیعہ شدت پسند گروپس کافی عرصے سے عسکری تربیت حاصل کررہے ہیں جس کے بعد کراچی سے پولیس کی ایک خصوصی ٹیم تفتیش کے لیے پارہ چنار گئی اور اہم معلومات حاصل کیں۔

ملک بھر کی تمام خفیہ ایجنسیاں اور تفتیشی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں گروپوں کو کسی نہ کسی حوالے سے مختلف ادوار میں غیر ملکی شہہ بھی ملتی رہی ہے جس کی بناء پر خون کی ہولی کھیلنے کےبعد یہ لوگ اپنے محفوظ ٹھکانوں کے لیے ان ہی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

کراچی شہر ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ دہشت گردی کی زد میں ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی بے گناہ سنی یا شیعہ اپنی جان گنوا رہا ہے۔ علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے اور مفتی نعیم کے داماد کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد یہ آگ بہت شدت پکڑتی نظر آرہی ہے۔ دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر چن چن کر محض فرقہ کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

ڈاکٹرز،انجینئرز، وکلاء، علماء، پولیس افسران اور سیاسی شخصیات ان کے اولین اہداف ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد القاعدہ، طالبان، لشکرِ جھنگوی اور دیگر جنگجو گروپس نے افغانستان میں پناہ لینے کے بعد اب ردِعمل کے طور پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی کی کاروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں لشکرِجھنگوی کو کراچی گرم کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی طور پر صورت حال تیزی سے گمبھیر ہوتی جارہی ہے اور عراق وشام میں شیعہ سنی تقسیم کے بعد اب ایک نیا نظریہ زور پکڑتا جارہا ہے جس میں ملکوں کے درمیان سرحدیں اب ثانوی حیثیت اختیارکر چکی ہیں۔ ایک ملک کے جنگجو کے لیے دوسرے ملک میں جاکر اپنے ناپسندیدہ فرقے کے لوگوں کا شکار کرنے کے لیے میدان کھلا پڑا ہے۔

عراق وشام میں داعش نے دنیا بھر سے اپنے ہم مسلک جنگجو جمع کرکے جس طرح اپنے مخالف مسلک اور فرقے کے لوگوں کا قتلِ عام کیا اس سے مختلف مسلم ممالک میں سرگرم فرقہ وارانہ تنظیموں کو ایک بہت بڑی قوت میسر آئی ہے اور افغانستان کے بعد اب ان تمام گروپس کی طاقت کا مرکز اب عراق وشام ہیں، جہاں داعش کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے دنیا بھرکے جنگجو اور تنظیمیں ان کی قوت بڑھاتی ہیں۔

کراچی سے 2012 میں گرفتار ہونے والے لشکرِجھنگوی کے کراچی کے امیرحافظ قاسم رشید، جس پر 100 سے زائد افراد کے قتل کا الزام تھا، نے پولیس کی پریس کانفرنس میں سینکڑوں صحافیوں کی موجودگی میں ٹی وی چینلز پر براہِ راست اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا اور بتایا کہ اس کی گرفتاری سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور اس کے ساتھی جہاد جاری رکھیں گے۔

اور ہوا بھی ایسا ہی، کیونکہ لشکرِجھنگوی نے اپنے عسکری کمانڈر کی گرفتاری کے باوجود اپنی کاروائیاں کم نہیں کیں بلکہ کانٹا سو پر رکھدیا۔ اس گروپ کا مرکزی امیر عطاءالرحمان عرف نعیم بخاری ہے جو کہ ملک بھر میں درجنوں خودکش حملوں کے علاوہ بم دھماکوں کے ذریعے سیکڑوں معصوم پاکستانیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس کا خصوصی ہدف پولیس اور رینجرز کے علاوہ خفیہ اداروں کے دفاتر اور ان کے اہلکار ہیں۔


مزید پڑھیے: سات سالوں میں 2090 فرقہ وارانہ ہلاکتیں


نعیم بخاری نے کئی سال جیلوں میں گزارے ہیں جبکہ مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں بھی رہا ہے جس سے اس کا کچھ بھی نہیں بگڑا ہے بلکہ یہ خطرناک دہشتگرد رہائی کے بعد پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور سفّاک ثابت ہوا ہے۔ نظریاتی طور پر القاعدہ اور تحریکِ طالبان کے بہت زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے اس نے لشکرجھنگوی کو جہاں وزیرستان میں مضبوط گڑھ فراہم کیا وہیں پر یہ تنظیم پاکستان کے شہری علاقوں میں القاعدہ اور طالبان کے لیے ہتھیار کا کام کرنے لگی۔

کراچی، لاہور، کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں لشکرجھنگوی کی کئی ایسی کاروائیاں ہیں جن کی ذمہ داری القاعدہ اور طالبان نے قبول کی۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ازبک جنگجوؤں نے کیا، لیکن تفتیش کاروں کے مطابق پلاننگ اور سہولیات کی فراہمی لشکرِجھنگوی نے کی۔ اور ابھی حالیہ ڈاکیارڈ حملے کے پیچھے بھی لشکرجھنگوی کا کردار سامنےآنے سے اس خطرناک گروپ کی القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے لیے اھمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے ارکانِ اسمبلی اور دفاتر کو بھی اس ہی گروپ نے نشانہ بنایا۔ کراچی میں ہونے والی حالیہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لاتعداد وارداتوں کی ذمہ داری بھی لشکرجھنگوی کے نعیم بخاری گروپ پر عائد ہوتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے گروپس کراچی کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔ اورنگی ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن اور کورنگی اس کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔

ایس ایس پی چوہدری اسلم پر خودکش حملہ بھی لشکرجھنگوی اور سواتی طالبان کی مشترکہ کاروائی قرار دی جاتی ہے۔

اسی طرح لشکرجھنگوی کا ایک اور گروپ بھی ملک بھر میں سرگرم ہے جس کا امیر آصف چھوٹو ہے جس کے ساتھ بلوچستان میں پچھلے کئی سالوں سے جاری فرقہ ورانہ قتلِ عام کا ذمہ دار اور مرکزی ملزم عثمان کرد بھی قریبی روابط رکھتا ہے۔

گو کہ وزیرستان میں جاری آپریشن کی وجہ سے یہ تمام گروپ دربدر ہوگئے ہیں اور اپنے محفوظ ٹھکانوں سے انہیں بھاگنا پڑا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا نیٹ ورک ابھی تک کام کر رہا ہے، اور یہ گروپ بھی کراچی میں جاری فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ میں حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے۔

آصف چھوٹو کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ افغانستان فرار ہوچکا ہے اور کنٹر میں موجود ہے اور وہیں سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہے، لیکن کچھ اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ میران شاہ سے فرار کے بعد آصف چھوٹو چلاس اور گلگت کے گردونواح میں روپوش ہے، جبکہ عثمان کرد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ابھی بھی بلوچستان میں ہی ہے۔

لشکر جھنگوی کی سب سے بڑی قوت جیلوں میں قید اس کے کارکن ہیں جو جیلوں سے مختلف منظم گروہ کنٹرول کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پارہے۔ فنڈ ریزنگ ،برین واشنگ، ہٹ لسٹوں کی ترتیب، ٹارگٹ کلر گروپس کو منظم کرنا، یہ سب جیلوں میں قید لشکرِجھنگوی کے دہشتگردوں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شدت پسند گروپس کے قیدیوں کے مسئلے مسائل حل کروانا بھی لشکرجھنگوی کی ہی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کی شدت تنظیوں کی ماں کہلانے والی اس تنظیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


مزید پڑھیے: فرقہ واریت کا عفریت


اس وقت حکومت کے لیے کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ دہشتگردی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مسئلے پر قابو پانے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ کراچی پولیس کے ترجمان عتیق احمد شیخ کے مطابق اس سال گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ہرقسم کی ٹارگٹ کلنگ بہت کم ہوئی ہے، سوائے فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کے۔ کراچی پولیس اپنی ہرممکن کوشش کے باوجود ابھی تک اس پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

جیلوں سے کنٹرول ہونے والے گروپس کا قلع قمع کرنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی نظرآتے ہیں۔ جیل حکام بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں اب تک ایک درجن سے زائد جیل پولیس کے افسران واہلکار ان کا نشانہ بن چکے ہیں۔

حافظ قاسم رشید نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے چار سےزائد جیل اہلکاروں کو اپنا نشانہ بنایا ہے اور مزید جیل اہلکار بھی اس کے نشانے پرہیں۔ بدقسمتی سے حافظ قاسم رشید کے کھلم کھلا اعتراف کے باوجود کوئی جیل افسر یا اہلکار اس کے خلاف مدعی یا گواہ بننے کے لیے تیار نہیں ہوا اور اتنے سنگین جرائم کے باوجود ان مقدمات میں چالان تک نہ ہوسکا۔

جیل میں عدالتی سماعت کے دوران ان دہشتگردوں کے خوف سے ان کے خلاف مقدمات کے مدعی اور گواہ سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ اب تک درجنوں پولیس افسران واہلکار ان کے خلاف کام کرنے کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

حکومت کی طرف سے اگر کوئی بہت بڑی کاروائی بھی کی جائے تو وہ ہوتی ہے ان دہشتگردوں کی مختلف جیلوں میں منتقلی، جس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور کچھ عرصے کے بعد تمام دہشتگرد دوبارہ واپس انھی جیلوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور ان کا نیٹ ورک اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ان دہشتگردوں کو جیل کے بعض بدعنوان عناصر کی مکمل مدد میسر ہوتی ہے جو پیسوں کے عوض ہر کام کے لیے ہر وقت تیار ہوتے ہیں، جبکہ بعض اہلکار ان دہشتگردوں کے خوف سےچشم پوشی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

جیل پولیس کےایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان دہشت گردوں کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی جیل اہلکار ان کے خلاف کاروائی کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ جیلوں میں موبائل فون وغیرہ کا استعمال بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔اگرچے کہ جیلوں میں موبائل فون جیمرز بھی نصب ہیں لیکن اس کے باوجود جیل سے یا پھرعدالتی پیشی کے موقع پر موبائل فون کا استعمال دہشتگردوں کے لیے ابھی بھی مشکل نہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو باہر کے مقابلے میں جیل میں زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔

فیّاض خان

لکھاری کاؤنٹر ٹیررازم ایکسپرٹ اور سابق ایس ایس پی، سی آئی ڈی ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔