ماحول کو بچانے کے لیے ٹیکس دیں
اپنے آرامدہ گھر کی محفوظ چار دیواری میں بیٹھے ہوئے میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اور ساتھ ساتھ ٹی وی پر ہزاروں لوگوں کے کرپشن اور بے پناہ ٹیکسوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کو بھی دیکھ رہا ہوں۔
کچھ لوگ احتجاج کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھے ہیں، تو کچھ نے عوام سے ٹیکس ادا نا کر کے سول نافرمانی کرنے کی اپیل کی۔ لوگ غصے میں ہیں، طرفداریاں کی جارہی ہیں، اور انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔
حد سے زیادہ سیاسی اور پیچیدہ ہوجانے کی وجہ سے اب کچھ لوگوں کے نزدیک معاملے کا حل مشکل ہے۔ لوگوں نے امیدیں چھوڑ دی ہیں۔ دوسری جانب تباہ کن سیلاب نے ہر جانب افراتفری مچا دی ہے، اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
لیکن مجھے حیرانی اس بات پر ہے، کہ ان مسائل پر ہماری توجہ کتنی کم ہے، جو متنازعہ نہیں ہوتے، لیکن ان کی تباہ کاریاں اتنی ہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک مسئلہ، جو ہمارے معاشی مسائل میں بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ ہے موسمیاتی تبدیلی۔
موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا میں، اور خاص طور پر اس علاقے پر اثر انداز ہو رہی ہیں، پر ان کو ہمارے یہاں فوری خطرے کے بجائے مستقبل کے مسئلے کی طرح لیا جاتا ہے۔
اور اس سے بڑی غلطی کوئی نہیں ہو سکتی۔
پاکستان اپنی کروڑوں کی آبادی کے ساتھ زرعی نقصانات، انفراسٹرکچر کی تباہی، اور جانی و مالی نقصانات کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح سے دوچار ہے۔ اور اس سب کا ہمارے ملک کی ترقی پر، آپ پر، اور مجھ پر، بہت زیادہ بوجھ ہے۔
لیکن آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے میری پریشانی کا موسمیاتی تبدیلی سے کیا لینا دینا ہے؟
اس کا بہت لینا دینا ہے۔
پچھلے تین سالوں میں بار بار کے سیلابوں نے پاکستان کی معیشت کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے، اور اس کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی آدھی ہو کر رہ گئی ہے، جب کہ عالمی بینک کے مطابق آفات کے بعد بحالی کے اقدامات کی وجہ سے ملک پر کئی ارب ڈالر کا بوجھ بڑھ گیا۔
2010، 2011، اور 2012 کے سیلابوں میں پیشگی اطلاع اور حفاظتی اقدامات کی کمی کی وجہ سے صرف ان تین سالوں میں 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
اگر بعد از سیلاب بحالی کے کم اخراجات والے اقدامات کے بجائے قومی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مہنگے اقدامات کر لیے گئے ہوتے، تو جانی اور مالی نقصان کو کم سے کم رکھا جا سکتا تھا۔
مزید پڑھیے: ماضی سے سبق نہیں سیکھا گیا
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔
پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ بجلی کے بحران کا بھی ہے، جس نے کروڑوں پاکستانیوں کو انتہائی پریشان کر رکھا ہے، اور اس کی وجہ سے ملکی معاشی ترقی بھی رکاوٹ کا شکار ہے۔ صنعتوں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ملک کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریباً دو فیصد، اور ایکسپورٹ کی مد میں 1 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے بحران کے معاشی ترقی پر اثرات کی تحقیق کے مطابق اس بحران سے تقریباً چار لاکھ ورکر متاثر ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل اینرجی ایجنسی کی سال 2012 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 38 فیصد لوگوں کے پاس سرے سے بجلی موجود ہی نہیں۔ لیکن اگر بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع کو استعمال کیا جائے، تو اس چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: آفات سے بچاﺅ کی نئی حکمت عملی
گوجرانوالہ شہر میں حکومت کا شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس کا منصوبہ بھی قابل ذکر ہے۔
لیکن اس بحران سے مکمل طور پر باہر آنے کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوا، پانی، بائیو گیس، جیو تھرمل، اور سمندر کی لہروں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو چھوٹے پیمانے پر کامیابی سے آزمایا جا رہا ہے۔ عوامی حمایت کی مدد سے ان پراجیکٹس کو وسیع پیمانے پر شروع کیا جا سکتا ہے، تاکہ ملک بھر میں جاری اس بحران سے نمٹا جاسکے۔
ایسے حالات میں ہمارے لیے ضروری ہے، کہ ہم اپنے سماجی اور معاشی عدم استحکام کی وجوہات کا پتہ لگائیں، اور ان سے نمٹنے کے لیے مضبوط اقدامات کریں۔
مزید پڑھیے: سیاست اور سیلاب -- آئیں متحد ہوجائیں
لیکن ہم میں سے اکثر لوگ یہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مون سون اور سیلاب نے اب تک 200 سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لی ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ قدرتی آفات کی قیمت ہمارے چکانے سے بہت زیادہ ہے۔
ہم اپنے انہی لاپرواہ طور طریقوں کو جاری نہیں رکھ سکتے۔
اس لیے، ٹیکس دیں۔ وہ ٹیکس، جو ہمیں اس زمین کو ہماری غلطیوں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے دینا پڑے گا۔
اس کے علاوہ آپ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف سول نافرمانی بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو گرین اینرجی کے لیے قدم اٹھانے ہوں گے، تاکہ پاکستان کی ترقی جاری رہ سکے۔
عون شہزاد کاظمی ایک ماحولیاتی کارکن ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کلائیمٹ سمٹ میں خطاب کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیسیف، اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ساتھ کام کرنے والے کم عمر ترین شخص ہیں۔ وہ ٹوئیٹر پر aownkaz@ کے نام سے لکھتے ہیں۔ ان سے aownkaz@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔