نقطہ نظر

پاکستانی ڈراموں کی کامیابی کے فارمولے

شوبز کی دنیا میں سب ہی چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور اس کیلئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔

کامیابی کسے پسند نہیں ہوتی خاص طور پر شوبز کی دنیا میں سب ہی چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں بھی اب ایسا ہی رواج پروان چڑھ رہا ہے۔

موجودہ دور میں پاکستانی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز نے اپنے ڈراموں کی کامیابی کے لیے پانچ خفیہ فارمولے اختیار کر لیے ہیں، جن کے ذریعے وہ زیادہ ٹی آر پی ریٹنگ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لیے بہت زیادہ سر درد اور سرمائے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

ہوسکتا ہے کہ آپ ان وجوہات سے اتفاق نہ کریں مگر ہمارے آج کل کے بیشتر ڈراموں میں ان پانچ عناصر کو استعمال کیا جا رہا ہے۔


###آنکھوں میں بس جانے والے ہیروز کو اسکرین پر دکھانا

سب سے پہلی چیز ایک پرکشش اور ہاٹ ہیرو کی اسکرین میں موجودگی جو کسی بیکار ترین ڈرامے کے لیے بھی ناظرین کی دلچسپی بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، اب چاہے ڈائریکٹر اپنا سارا بجٹ فواد خان، احسن خان یا فہد مصطفیٰ کو کاسٹ کرنے پر ہی خرچ کر دے اسے کوئی پروا نہیں ہوتی وہ دیگر اہم شعبوں جیسے لائٹنگ، ایڈیٹنگ اور دیگر پر کم رقم اور معیار کے ساتھ ہی کام چلا کر بس اداکار کے نام پر ڈرامے کو ہٹ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کی مثال نم کی بھی دی جاسکتی ہے جس میں فواد خان کی موجودگی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، درحقیقت انتہائی بیزار کن ڈرامہ تھا تاہم فواد کے باعث وہ اوسط درجے کا قرار پایا۔


###تکلیف بے چارگی جتنی زیادہ ہو بہتر ہے

سوتیلی ماں اور مظلوم بچے ہمارے ڈراموں میں بار بار دوہرایا جانے والا موضوع ہے، پی ٹی وی کا کلاسیک ڈرامہ 'آغوش' اس سلسلے میں سب سے بہترین تھا، جس کے بعد اس کے ری میک آغوش، من کے موتی، ٹوٹے ہوئے تارے، سوتیلی سمیت متعدد ڈراموں میں اس موضوع کو دوہرایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ظالم رشتے دار اور ماں یا باپ سے محروم بچوں پر مظالم کی انتہا، دو بیویاں اور ایک شوہر کی کشمکش، جبکہ بہنوں کے درمیان رقابت ہمارے ڈراموں میں بہت زیادہ استعمال کیا جانے والا خیال ہے، جس میں ایک بہن ولن اور دوسری مشکلات کا شکار ہو کر آخر میں کامیابی پالیتی ہے ۔


###ناولوں پر ڈرامے بنانا

پاکستانی پروڈکشن ہاﺅسز کا ایک اور حربہ ناولوں پر ڈرامے بنانا ہے جو کہ بہت کامیاب بھی ثابت ہو رہا ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے ایک ناول جو پہلے ہی عوام میں مقبول ہو تو اس کی مقبولیت کو اپنے لیے استعمال کرنا بہت آسان ہوتا ہے، جیسے میری ذات ذرہ بے نشاں، ہمسفر اور دیگر، درحقیقت متعدد ناولوں پر بہت اچھے ڈرامے بھی بنے ہیں مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جس کی ڈرامائی تشکیل نے اسے پڑھنے والوں کو بری طرح مایوس کیا ہے اور یہ فہرست کافی لمبی ہے۔


###مقبول ترین کاسٹنگ

بڑی تعداد میں ناظرین کو اپنے ڈرامے کی جانب کھیچنے کا ایک اچھا طریقہ مقبول ترین چہروں کی کاسٹنگ ہے، پروڈکشن ہاﺅسز بار بار مخصوص چہروں کوایک ہی جیسے کرداروں میں دوہرائے چلے جاتے ہیں کیونکہ ناظرین انہیں دیکھ کر اس طرح کے کرداروں میں پسند قرار دے چکے ہوتے ہیں، تاہم یہ درحقیقت کسی اداکار کے ساتھ ناانصافی اور اس کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

مثال کے طور پر عائزہ خان آج کے دور کی مقبول ترین اداکار ہیں مگر آپ کو نہیں لگتا ہے کہ 'پیارے افضل' کو چھوڑ کر وہ ہر ڈرامے میں بیچاری مظلوم لڑکی کے ہی کردار کو دوہرائے چلی جا رہی ہے؟ اسی طرح سجل علی نے ایک ہی طرح کے کردار 'آسمانوں پہ لکھا اور گوہر نایاب میں' میں نظر آئی۔


###دیسی معاشرے کی ساس بہو

پاکستانی ڈراموں کی کمرشل کامیابی کے لیے ایک اور فارمولا معاشرے کی روایتی ساس بہو کشمکش کو نمایاں کرنا بھی ہے، اس کے علاوہ ایک اداکار شادی شدہ ہوتے ہوئے دوسری شادی کر کے بیویوں کو مظلومیت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔

اس کی ایک مثال آسمانوں پہ لکھا، کی دی جاسکتی ہے جس میں ایک غریب لڑکی کی ایک امیر ترین لڑکے سے شادی ہو جاتی ہے، یہ موضوع متعدد ہندوستانی سوپ ڈراموں میں دوہرایا جا چکا ہے۔

تاہم ان فارمولوں سے ہٹ کر بات کی جائے تو پاکستانی ڈرامہ ہندوستان سے بہت آگے ہے اس میں ایسی خوبیاں ہیں جو اسے منفرد بناتی ہیں جو ہمارے خیال میں کچھ اس طرح ہیں۔‬


###حقیقت سے قریب تر

کچھ ڈرامے ایسے بھی ہیں جو اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کی وجہ سے پاکستانی ڈراموں میں آنے والی ’میچورٹی‘ اور حقیقی پن کو نمایاں کرتے ہیں۔ پاکستانی ڈرامے حقیقت کے قریب تر ہوتے ہیں اگرچہ لوگ بولی وڈ فلمیں دیکھنے کے بہت زیادہ شوقین ہوتے ہیں لیکن پاکستانی ڈراموں کا نہ صرف معیار بلند ہے بلکہ حقیقت کے قریب تر بھی ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ٹیلی ویژن پر ابتدائی دور سے ہی ایسے ڈرامے پیش کئے جاتے رہے ہیں جن کی شہرت اور مقبولیت نے سرحدوں سے نکل کر پوری دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑے اور آج تک ان ڈراموں کے اداکاروں کو لوگ ان کے اصل ناموں سے زیادہ ان کے کردار کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔

پاکستانی ڈرامے آج بھی پڑوسی ملک کی فلم اور ڈرامہ اکیڈمیوں میں اداکاری کے جوہر سیکھانے کے لئے دکھائے جا رہے ہیں، پاکستانی ڈراموں کا ذکر ہو تو مرینہ خان، شہناز شیخ، جمشید انصاری، بشریٰ انصاری، معین اختر، قوی خان اور شکیل جیسے بڑے ناموں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔


###پرائیوٹ پروڈکشن

کچھ وقت کے لئے ڈرامے جمود کا شکار ہوئے۔ لیکن، پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت کا ایک بار پھر احیا ہوا ’ہمسفر‘ اور ’زندگی گلزار ہے‘ جیسے ڈراموں سے۔ ہمسفر نے جہاں پسندیدگی کے نئے ریکارڈ قائم کئے وہیں ماہرہ خان کو منجھی ہوئی اداکار کی شناخت دی اور فواد خان کو نیا ’ہارٹ تھروب‘ بنا دیا۔

لیکن یہ بھی حقیقت کہ ان ڈراموں کی کہانیوں میں اصل زندگی کی جھلک کم ہی نظر آتی ہے تاہم، کچھ ڈرامے ایسے بھی ہیں جو اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کی وجہ سے پاکستانی ڈراموں میں آنے والی میچورٹی اور حقیقی پن کو نمایاں کرتے ہیں۔

سچ پوچھئے تو ڈرامے کے احیا میں ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ پروڈکشنز نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں درجنوں پروڈکشن ہاؤسز کام کر رہے ہیں اور ان کا کام عوام میں پذیرائی کا سبب ہے۔

سعدیہ امین

سعدیہ امین ڈان ڈاٹ کام کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔