پاکستان کی بلند ترین چوٹیاں
پاکستان کی بلند ترین چوٹیاں
سعدیہ امین
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ پاکستان کو کتنا جانتے اور کتنا سمجھتے ہیں؟ گرد و پیش دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی۔ یعنی اچھے حوالے کم ہی ہوں گے اور جب آپ اتنے خراب حوالوں کے باوجود پاکستان سے اتنی محبت کر سکتے ہیں تو اچھے حوالے محبت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں گے، جس کی کوئی حد نہیں۔
کیونکہ یہاں دنیا کی سب سے خوبصورت وادی کاغان بھی ہے، نامعلوم گہرائی والی پریوں کی جھیل سیف الملوک بھی، سربہ فلک برف پوش چوٹیاں بھی، پرہیبت صحرا بھی یہاں موجود ہیں اور سرسبز وادیاں بھی، یہ سب کچھ دیکھا ہے آپ نے ؟ اگر نہیں تو ہم نے کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے ایک سیریز میں پاکستان کا وہ خوبصورت چہرہ سامنے لائیں جو میڈیا میں منفی رپورٹنگ کے باعث کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے، جس کا آغاز ہم سربہ فلک برف پوش چوٹیوں سے کر رہے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند صرف چودہ چوٹیاں ہیں، جن میں سے پانچ پاک سرزمین کا حصہ ہیں؟ جن میں کے ٹو، نانگا پربت، گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم ٹو شامل ہیں، جبکہ سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے، جن میں ہم پانچ کا ذکر آگے کریں گے جو ٹاپ ٹین بلند پاکستانی چوٹیوں کا حصہ ہیں۔
###کے ٹو
کے ٹو جسے 'ماﺅنٹ گڈون آسٹن اور شاہ گوری' بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کی سب سے بلند جبکہ ماﺅنٹ ایورسٹ کے بعد پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی بلندی 8611 میٹر ہے اور یہ سلسلہ کوہِ قراقرم میں واقع ہے، اسے دو اطالوی کوہ پیماﺅں نے 31 جولائی 1954 کو سب سے پہلے سر کیا تھا۔
کے ٹو کو ماﺅنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے، کے ٹو پر 246 افراد چڑھ چکے ہیں جبکہ ماﺅنٹ ایورسٹ پر 2238 ۔ رواں برس کے ٹو کو پہلی بار سر کرنے کے ساٹھ سال مکمل ہونے کے موقع پر پہلی بار جولائی میں پاکستانی کوہ پیماﺅں کی ایک ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کو سر کیا۔
اگرچہ اس سے قبل پاکستانی کوہ پیما انفرادی طور پر کے ٹو کی چوٹی سر کر چکے تھے لیکن پہلی مرتبہ بطور ٹیم وہ ایک ہی وقت میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی پر پہنچے۔
###نانگا پربت
نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے، اس کی اونچائی 8125 میٹر ہے اور اسے دنیا کا 'قاتل پہاڑ' بھی کہا جاتا ہے۔ اس پر چڑھنے میں اب تک سب سے زیادہ کوہ پیما مارے گئے ہیں اسے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے سب سے پہلے 3 جولائی 1953 میں سر کیا تھا۔
فیری میڈو یا پریوں کا میدان نانگا پربت کو دیکھنے کی سب سے خوبصورت جگہ ہے، اس جگہ کو یہ نام 1932 کی جرمن امریکی مہم کے سربراہ ولی مرکل نے دیا۔ سیاحوں کی اکثریت فیری میڈو آتی ہے یہ 3300 میٹر بلند ہے۔
کوہ ہمالیہ کے اس پہاڑ کو سر کرنے یا ٹریکنگ کے لیے جانے والے غیر ملکی سیاحوں کی آمد کو گزشتہ برس دہشت گردوں کے ایک حملے کے بعد کافی دھچکا لگا جس میں دس کے قریب غیر ملکی سیاح ہلاک ہوگئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس پہاڑ کو دیکھنے سے خوبصورتی سے زیادہ ہیبت انسان کے دل پر اثر کرتی ہے۔
###گاشر برم ون
گاشر برم ون پاکستان کی تیسری اور دنیا کی گیارہویں سب سے اونچی چوٹی ہے، اسے کے فائیو اور چھپی چوٹی کے ساتھ بلتی زبان میں 'خوبصورت پہاڑ' بھی کہتے ہیں۔ یہ پاکستان کے شمال میں سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے اور اس کی بلندی 8080 میٹر ہے۔
گاشر برم ون کو سب سے پہلے 5 جولائی 1958 میں دو امریکیوں پیٹ شوننگ اور اینڈی کافمان نے سر کیا۔
###بروڈ پیک
بروڈ پیک دنیا کی 12 ویں اور پاکستان کی چوتھی سب سے اونچی چوٹی ہے، یہ قراقرم کے سلسلے میں پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے اور اس کی بلندی 8047 میٹر ہے، اسے سب سے پہلے 9 جون 1957 کو ایک آسٹرین ٹیم نے سر کیا۔
یہ کے ٹو سے 8 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اس کی چوٹی قریباً ڈیڑھ کلو میٹر لمبی ہے۔ اس لیے اس کا نام 'بروڈ پیک' ہے۔ مقامی نام فائے چان کنگری یا پھلچن کنگری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے اس میں ایک نہیں دو چوٹیاں ہیں اور اکثر کوہ پیما اسی باعث غلطی سے 8015 میٹر بلند چوٹی پر رُک کر واپس چلے جاتے ہیں اور 8047 میٹر کی بلندی تک نہ جانے پر کامیاب قرار نہیں پاتے۔
###گاشر برم ٹو
گاشر برم ٹو دنیا کا تیرہواں اور پاکستان کا پانچواں سب سے اونچا پہاڑ پے، یہ قراقرم سلسلے میں واقع ہے اور اس کی بلندی 8035 میٹر ہے۔ یہ پاکستان اور چین کے درمیان واقع ہے۔
اسے سب سے پہلے 1956 میں ایک آسٹریائی ٹیم کے موراویک، لارچ اور ویلن پارٹ نے سر کیا۔
###گاشر برم فور
گاشر برم فور دنیا کا 17 واں جبکہ پاکستان کا چھٹا بلند ترین پہاڑ ہے، جس کی بلندی 7925 میٹر ہے اور یہ پاکستان اور چین کے درمیان گاشر برم کی چوٹیوں میں سے ایک ہے۔
اس پہاڑ کو سب سے پہلے 1928 میں اطالوی کوہ پیماﺅں کی ٹیم نے سر کیا۔
###دستاغل سر
یہ قراقرم کے ایک پہاڑی سلسلے ہسپر موزتاگ کا سب سے بلند پہاڑ ہے جو کہ شمالی علاقہ جات میں گوجل کے علاقے میں واقع ہے، یہ دنیا کا 19 واں جبکہ پاکستان کا ساتواں بڑا پہاڑ ہے جس کی بلندی 7885 میٹر ہے۔
اس پہاڑ کی خاص بات اس کی پانچ کلو میٹر طویل ڈھلوانی اونچائی ہے اور 7400 میٹر سے اوپر اس میں تین چوٹیاں ہیں، جن میں سے شمالی چوٹی 7885 میٹر، وسطی 7760 میٹر اور جنوب مشرقی 7535 میٹر بلند ہے۔
اسے سب سے پہلے 1960 میں آسٹرین کوہ پیماﺅں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
###کیونانگ چیش
یہ ہسپر موزتاگ کے سلسلے کی دوسری بلند ترین پہاڑی ہے جس کی بلندی ہے 7823 میٹر ہے، اسے دنیا کا اکیسواں جبکہ پاکستان کا آٹھواں بلند ترین پہاڑ کہا جاتا ہے۔
اسے سب سے پہلے 1971 میں ایک پولش ٹیم نے سر کیا تھا اور اس کے بعد یہ صرف مزید ایک بار 1988 میں ہی سر ہو سکی، جس کے بعد سے اب تک یہاں جانے والے کوہ پیماﺅں کے ہاتھ ناکامی کے سوا کچھ نہیں آیا۔
###ماشربرم
ماشربرم جسے 'کے ون' بھی کہا جاتا ہے، گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے میں واقع ہے یہ 7881 میٹر بلند ہے اور دنیا کا 22 واں بلند ترین جبکہ پاکستان کا نواں بلند ترین پہاڑ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماشربرم نام کا مطلب ہی واضح نہیں، تاہم اندازہ ہے کہ یہ ماشادار (لوڈ گن) اور برم (پہاڑ) سے مل کر بنا ہے کیونکہ اس کی دوہری چوٹی کسی بھری ہوئی بندوق جیسی لگتی ہے، تاہم ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ماشا مقامی زبان میں ملکہ کو کہا جاتا ہے اور درحقیقت اس کا نام چوٹیوں کی ملکہ' ہے۔'
اسے سب سے پہلے 1960 میں امریکی اور پاکستانی کوہ پیماﺅں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔
###بتورا سر
بتورا سر جسے 'بتورا ون' بھی کہا جاتا ہے، دنیا کا 25 واں جبکہ پاکستان کا دس واں بلند ترین پہاڑ ہے، جس کی بلندی 7795 میٹر ہے۔
راکا پوشی کے قریب واقع یہ پہاڑ زیادہ مشہور نہیں کیونکہ یہ ہنزہ وادی کے آخری کونے میں واقع ہونے کے باعث کوہ پیماﺅں کی نظروں سے دور ہی رہتا ہے۔
اس پہاڑ کو 1967 میں سب سے پہلے سر کیا گیا تھا۔
تصاویر: بشکریہ وکی میڈیا کامنز