کیا جاوید ہاشمی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 'اجنبی' تھے؟
اسلام آباد : مخدوم جاوید ہاشمی دو ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان سے بغاوت کے بعد پورے قد کے ساتھ نمودار ہوئے تھے اور اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوگئے، مگر کیا وہ اس روز ایوان کے لیے ایک اجنبی تھے؟
تیکنیکی طور پر دیکھا جائے تو یہ بالکل ٹھیک نظر آتا ہے کیونکہ اسپیکر ایاز صادق نے ان کا استعفیٰ اٹھارہ اگست کی تاریخ سے منظور کیا تھا۔
کم از کم اس تاریخ نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے لیے یہ مشکل کھڑی کردی ہے اس باغی لیڈر کی سیاسی طوفان پیدا کرنے والی تقریر کو پارلیمانی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے یا نہیں۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ایک سنیئر عہدیدار نے نام چھپانے کی شرط پر ڈان کو اس بات کی تصدیق کی کہ جاوید ہاشمی کا استعفیٰ سیکرٹریٹ کو اٹھارہ اگست کو موصول ہوگیا تھا اور اسے اسی تاریخ پر قبول کیا گیا۔
متعدد افراد حیران ہیں کہ استعفے کے قبول ہونے کے دو ہفتے بعد پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر کو کیا حیثیت دی جائے۔
جاوید ہاشمی کے قریب ایک ذرائع نے اس بات پر اصرار کیا کہ یہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی غلطی ہے، کیونکہ جاوید ہاشمی سمیت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے 31 اراکین اسمبلی نے سیکرٹریٹ کو اپنے استعفے بائیس اگست جمع کرائے تھے۔
جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران اپنے دستخط کی تصدیق کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ وہ تاحال" پی ٹی آئی کے منتخب صدر ہیں"۔
ذرائع نے بتایا"جب پارٹی نے اپنے اراکین سے استعفے جمع کیے تو ہوسکتا ہے کہ ان پر وہ تاریخ ہی سیکرٹریٹ میں چلی گئی ہو جو انہوں نے پارٹی کو استعفے دیتے ہوئے درج کی تھی"۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ انہوں نے استعفے روکے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی اراکین سے تصدیق کرائی جائے گی۔
انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں استعفے جمع کرانے کے باوجود پی ٹی آئی اراکین کی شرکت پر کیے جانے والے اعتراضات کو بھی مسترد کردیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ استعفوں کے جمع کرانے کی تاریخ سے قطع نظر انہیں اسی تاریخ پر قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی تصدیق کرانا ضروری شرط ہے۔
جاوید ہاشمی کے استعفے کو پرانی تاریخوں میں قبول کیے جانے کے عمل نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے بھی مسائل کھڑے کردیئے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 224(4) کے مطابق قومی یا صوبائی اسمبلی کی خالی نشست پر انتخابات ساٹھ روز کے اندر کرانا ضروری ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ای سی پی کو جاوید ہاشمی کی خالی کردہ نشست این اے 149 پر سترہ اکتوبر سے پہلے انتخابات کرانا ہوں گے، عام طور پر ای سی پی کو پولنگ کے انتظامات کے لیے سات ہفتے درکار ہوتے ہیں، جن میں سے آخری45 دنوں کے اندر کاغذات نامزدگی اور پولنگ کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
ای سی پی ایک سنیئر عہدیدار نے بتایا کہ ضمنی انتخابات کے لیے ضلعی ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کے ناموں کو حتمی شکل دینے کا عمل شروع کردیا گیا ہے" ممکنہ طور پر ضمنی الیکشن کے شیڈول کا اعلان اس ہفتے کے آخر تک کردیا جائے گا"۔
اسی طرح ای سی پی کو ممکنہ طور پر ایک یا دو ہفتوں میں دو درجن سے زائد پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور ہونے کی صورت میں پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے یادگار خطاب میں جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے کسی ایم این اے پارٹی قیادت کو استعفی دینے کے لیے تیار نہیں تھا اور ہمارے ملک میں ایک نظام کام کررہا ہے" انجنیئرز حکومتوں کو بناتے اور ختم کرتے ہیں"۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھیا کیا" حکومت کو پرتشدد احتجاج کے ذریعے نکال باہر کرنے کا منصوبہ پہلے سے طے تھا"۔
انہوں نے عمران خان پر الزام کیا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اس فیصلے کو نظر انداز کردیا جس میں طے کیا گیا تھا کہ وزیراعظم ہاﺅس کی جانب مارچ کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ شامل نہیں ہوں گے، مگر " کسی جانب" سے پیغام ملنے کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ فیصلہ کیا۔
اس دعویٰ کے بعد فوج کی جانب سے فوری ایک بیان آیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے پیچھے نہیں۔