نقطہ نظر

گورننس کے 3 مسائل جن پر بات نہیں ہورہی

ہم اہم مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اور پھر پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں تیز رفتار ترقی کیوں نہیں ہو رہی۔

گیم پلان اب سب کے سامنے ہے۔

اس دفعہ خفیہ طاقتوں کی جرات و جسارت واقعی قابل تعریف ہے۔ اس دفعہ نا ہی اصلاحات کا بہانا بنایا گیا، نا ہی سسٹم کی صفائی کا۔

بلکہ اب کی بار یہ حکمران جماعت کو اس کے بانیوں سے محروم کرنے کی کوشش تھی۔ یہ قابل شرم بات ہے، کہ اس موقع پر دیرپا اثرات والی اصلاحات کے بجائے ہم لیڈرشپ کی تبدیلی جیسے غیر اہم معاملے پر الجھے ہوئے ہیں۔

ہمیں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ جس طرح سسٹم چل رہا ہے، یہ ٹھیک طریقہ نہیں ہے، اور نمائیشی تبدیلیاں اسے مزید قائم نہیں رکھ سکتیں۔

اسٹیبلشمینٹ کے کچھ عناصر کی جانب سے کاروباری اور بیوروکریٹک مفادات کے لیے اٹھائے جانے والے اس طوفان میں اصلاحات کا مسئلہ پوری طرح دب کر رہ گیا ہے، اور یہ انکے نقطہ نظر سے ٹھیک ہے، کیوںکہ طویل مدت میں انہیں کسی سیاست دان کے بجائے اصلاحات ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچائیں گی۔

تو وہ کون سی اصلاحات ہیں، جن پر ہمیں بات کرنی چاہیے تھی، اور انہیں سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا؟


1۔ گورننس اصلاحات، عوام کے پاس مزید اختیارات۔


سب سے پہلے تو ہمیں گورننس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر بلدیاتی نظام (لوکل باڈیز سسٹم) میں، جو تقریباً سات سالوں سے سرد خانے کی نذر ہے۔ سسٹم کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے، کہ یہاں ایوانوں تک رسائی کسی قدر مشکل ہے۔ 19 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو ملا کر بمشکل 1000 لوگ ہی سیاسی طاقت حاصل کر سکتے ہیں۔

زیادہ تر لوگ عرصے سے ان نشستوں پر براجمان ہیں۔ نئے لوگ جو کبھی طاقت کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں، وہ یہ دیکھ کر مضطرب ہیں کہ نئے لوگوں کا داخلہ کتنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔

موجودہ سسٹم میں طاقت بہت زیادہ مجتمع ہے۔ بلدیاتی نظام سیاست میں مزید لوگوں کے حصہ لینے کو یقینی بنائے گا، جس سے سسٹم میں شراکت داری بڑھے گی۔ سسٹم میں جب مختلف سطحوں پر ہزاروں لوگ موجود ہوں گے، تو اسے بچانا آسان ہوگا، بہ نسبت تب جب صرف ایک ہزار لوگ ہوں۔

لوکل باڈیز سسٹم کا ایک اور فائدہ یہ ہو گا، کہ اقتدار عام لوگوں کے قریب ہو گا۔ حکومت کو آپ ڈیلیوری سروس کی طرح سمجھیں۔ جتنا زیادہ یہ صارف کے قریب ہو گی، اتنی ہی زیادہ آسانی سے یہ صارف کو دستیاب ہو گی۔ ضلعی سطح کی ڈیلیوری سروس بہرحال صوبائی سطح کی ڈیلیوری سروس سے بہتر ہوگی۔

بدقسمتی سے طویل مدتی اصلاحات کا مسئلہ مخصوص حلقوں میں دھاندلی کے مسئلے میں دب کر رہ گیا ہے، جس کے سسٹم پر کوئی واضح اثرات بھی نہیں ہوں گے۔


2۔ سول سروس اصلاحات: صحیح لوگوں کو مزید اختیار۔


پاکستان میں سول سروس میں بھرتی، اس کے اسٹرکچر، اور اس کے قاعدوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس شعبے نے کئی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کی کوششوں کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔

ڈاکٹر عشرت حسین، جو اب آئی بی اے کراچی میں ہوتے ہیں، کی سربراہی میں نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارم (NCGR) نے مشرف دور میں اصلاحات کی سفارشات تیار کی تھیں۔ ان کی اصلاحات کا مقصد سسٹم کو مزید شفاف بنانا، اور سول سروس کے ترجیحی گروپس ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ (DMG) وغیرہ کی خصوصی اہمیت کو ختم کرنا تھا۔

ان اصلاحات کے پیچھے کی وجوہات سمجھنے کے لیے پیمرا (PEMRA) کا اسٹرکچر ملاحظہ کریں۔ پیمرا کے بورڈ میں کم از کم دو ایسے افسران ہیں، جو بنیادی طور پر پولیس سروس سے تعلق رکھتے ہیں۔

ذرا سوچیے، پولیس والے پیمرا میں آخر کر کیا رہے ہیں، اور وہ وہاں تک پہنچے ہی کیسے؟ اگر ایک محکمے کی مہارت رکھنے والے افسر کو اس محکمے میں تعینات کردیا جائے، جس کا اسے کوئی تجربہ نہیں، تو سسٹم کیسے چلے گا؟

ڈاکٹر عشرت حسین کی سفارش کردہ اصلاحات مفصل ہیں، اور انہیں سالوں پہلے نافذ کردینا چاہیے تھا۔ لیکن سادہ ترین اصلاحات جن پر سب کا اتفاق ہے، مثلاً ڈیپوٹیشن کا خاتمہ، اور مختلف سروسز میں سول سروس امتحان کے بجائے براہ راست بھرتیاں، کا بھی نفاذ نہیں کیا جا سکا۔

زیادہ تر ممالک میں بجائے اس کے کہ ایک جنرل امتحان لے کر میرٹ اور ترجیح کی بنیاد پر ڈیپارٹمینٹ میں ایلوکیشن کا انتظار کرایا جائے، ایسا ہوتا ہے کہ ہر ڈیپارٹمنٹ کے لیے مخصوص ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔

اس طرح ہر سروس اور محکمے میں وہی لوگ بھرتی ہوتے ہیں، جنہیں اس محکمے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ڈیپوٹیشن کے خاتمے سے وہ امیدوار، جو ایک محکمے میں بھرتی ہو کر کسی اور مزید فائدہ مند محکمے میں جگہ بنانا چاہیں، اپنے اصل محکمے میں ہی کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

یہ حیرت انگیز ہے کہ ہم لوگ بیوروکریسی میں اتنی سادہ اصلاحات بھی نہیں کر پائے ہیں، اور پھر بھی حیرت سے سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ڈیلیوری بہتر کیوں نہیں ہو رہی۔


3۔ مزید صوبے، طاقت کا توازن۔


میرا آخری پوائنٹ یہ ہے، کہ پاکستان کو مزید صوبوں کی ضرورت ہے۔ یہ وہ بحث ہے، جو ہمیں کرنی چاہیے، لیکن یہ غیر ضروری مطالبات میں دب کر رہ جاتی ہے۔

ہم سب کو معلوم ہے، کہ پاکستان کا مسئلہ کیا ہے۔ 60 فیصد پاکستانی پنجاب میں رہتے ہیں، اور اس لیے اگر کوئی پارٹی پنجاب سے جیت جائے، تو اسے حکومت بنانے کے لیے کسی اور جگہ سے جیتنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور جب ایسا ہوتا ہے، تو باقی صوبوں کو اپنا بندوبست خود کرنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے۔

اصل مقابلہ ہمیشہ پنجاب سے جیتنے کے لیے ہوتا ہے، اور اسی لیے کچھ طاقتیں اس حکومت کو گرانا چاہتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں 371 میں سے 312 ممبران ن لیگ کے ہیں، جبکہ قومی اسمبلی میں مقابلے کی 272 نشستوں میں سے 147 نشستیں پنجاب میں ہیں۔

تو جو بھی پارٹی پنجاب سے جیتے، وہی ملک چلائے، کیا یہ انصاف ہے؟

یہ کیسی فیڈریشن ہے، جہاں ایک صوبے کا فاتح باقی تمام صوبوں پر حکمران بن جاتا ہے۔

میری رائے میں پاکستان کو مزید 4 صوبوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں طاقت کے بہتر توازن کی ضرورت ہے، تاکہ ایک صوبہ دوسرے پر حکومت نا کر سکے۔

مزید صوبوں کے قیام سے حکومت گرانے کی کوششیں بھی کم ہوجائیں گی۔ مانیں یا نا مانیں، یہ حالیہ کوشش مکمل طور پر ان مسائل کے بارے میں ہے، جن کی جڑ پنجاب میں ہے۔ پورے ملک کو صرف اس لیے یرغمال بنایا گیا ہے کیوںکہ پنجاب میں موجود کچھ طاقتور لوگ پنجاب کے دوسرے طاقتور لوگوں کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتے، جو اس وقت وفاقی حکومت بھی چلا رہے ہیں۔

مزید صوبوں کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے، کہ ایک فیڈریشن میں چھوٹی اکائیاں گورننس کو بہتر بناتی ہیں۔ زیادہ صوبوں کا مطلب ہے اقتدار میں موجود لوگوں اور عوام کے درمیان کم فاصلہ۔

حکومت کا کام ہے، کہ وہ سروس کی ڈیلیوری، اور طاقت تک رسائی کو بہتر بنائے۔ بلدیاتی انتخابات اور مزید صوبے اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ سول سروس میں اصلاحات سے سسٹم بہتر اور مؤثر طریقے سے چل پائے گا، کیوںکہ اس سے صرف وہی لوگ سروس میں رہیں گے، جو کام کرنا چاہتے ہیں، اور مہارت رکھتے ہیں۔

اسلام آباد میں جاری مکمل نان سینس کے بجائے اوپر دیے گئے موضوعات کو زیر بحث لانا چاہیے تھا۔

لیکن یہ سارے مسائل چٹ پٹے نہیں ہیں، ان کو ٹی وی ریٹنگ نہیں ملتیں، اور ان کے بعد پنجاب میں ایک طاقتور گروہ کے بعد دوسرا طاقتور گروہ نہیں آسکے گا۔

اور سب سے زیادہ نان سینس بات یہ ہے، کہ ہم اہم مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اور پھر پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں تیز رفتار ترقی کیوں نہیں ہو رہی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

عدنان رسول

لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔