لائف اسٹائل

حمزہ عباسی کا 'پیارے افضل سے کمبخت' تک کا سفر

اگر لوگ دو گھنٹے کی فلم کے ایک تہائی وقت تک بھی سینما میں قہقہے لگائیں گے تو یہ میرے لیے کافی ہوگا۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ سال حمزہ علی عباسی کے لیے بہت اچھا رہا تو یہ اتنا بھی زیادہ ٹھیک نہیں، آخر 'میں ہوں شاہد آفریدی اور وار' جیسی باکسآفس پر سپر ہٹ فلموں، ٹی وی پر رواں سال کا سب سے ہٹ ڈرامہ 'پیارے افضل' اور متعدد اشتہاری معاہدے انہیں ہماری ٹی وی اسکرینوں میں بار بار نظر آنے والا چہرہ بنا چکے ہیں اور اب وہ ستمبر کے وسط میں بطور ڈائریکٹر بھی ڈیبیو کر رہے ہیں، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کا ستارہ ابھر نہیں رہا بلکہ وہ ابھر چکا ہے۔

مگر احتشام کے پرستاروں سے معذرت کے ساتھ یعنی فلم 'وار' میں حمزہ کا کردار بہت اچھا تھا مگر وہ مارا جاتا ہے اور وہ اس کے سیکوئل میں کسی گمشدہ جڑواں بھائی کی شکل میں واپس نہیں آرہا، مگر وہ جلد قریبی سینما اسکرینوں میں ضرور نظر آنے والے ہیں مگر اس بار وہ بالکل مختلف روپ میں نظر آئیں گے۔

ان کے بقول "لوگ توقع کرتے ہیں کہ آپ ایک ہیرو ہیں، آپ نوجوان ہیں اور مخصوص نظر سے دیکھتے ہیں اور لوگ بھی آپ کو مخصوص نظریے سے دیکھتے ہیں اور آپ ٹائپ کردار میں ڈھل جاتے ہیں، مگر میں ایسا نہیں چاہتا۔ ایک ہیرو کے طور پر اداکاری کا موقع نہیں ملتا، مجھے چیلنجنگ کردار کرنے سے محبت ہے، میں ایک ہیرو نہیں بلکہ اداکار ہوں، 'کمبخت' میں، میں دانستہ طور پر بدصورت اور غیر مہذب کردار ادا کر رہا ہوں"۔

فلم 'کمبخت' کے ذریعے حمزہ علی عباسی فلمی ڈائریکٹر کی حیثیت سے ڈیبیو کر رہے ہیں، اگرچہ ان کے پرستار انہیں ٹیلیویژن اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ اپنی پہلی محبت یعنی ڈائریکشن کی جانب لوٹ رہے ہیں، ہوسکتا ہے ان کے پرستاروں کو معلوم نہ ہو مگر فلم 'وار' میں ان کا کردار حادثاتی طور پر حمزہ کے حصے پر آیا تھا، کیونکہ ابتدائی طور پر حمزہ نے بلال لاشاری کے اسسٹنٹ کے طور پر پراجیکٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

اسی طرح 'کمبخت' میں بھی ان کا کردار ابتدائی منصوبے کا حصہ نہیں تھا، تاہم وقت نہ ہونے کے باعث احسن خان کو مرکزی کردار نہیں دیا گیا اور آخری منٹ میں حمزہ علی عباسی کو فلم میں شامل ہونا پڑا۔

حمزہ کے مطابق "میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے زیادہ بہتر کام کرسکتا تھا، کیمرے کے پیچھے کام پورا وقت مانگتا ہے اور کمیرے کے آگے بھی اداکاری مکمل وقت کا تقاضا کرتی ہے، اب میں نے مستقبل میں اپنی ڈائریکٹ کی گئی کسی فلم میں خود اداکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے"۔

حمزہ علی عباسی نے 'کمبخت' کے سیٹ پر پہلے دن قدم رکھا تو اس سے پہلے انہیں کبھی ریڈ کیمرہ آپریٹ کرنے کا موقع نہیں ملا تھا "میں نے سمجھ لیا تھا کہ کوئی آئیڈیل اسکرپٹ یا آئیڈیل پروڈیوسر نہیں ہوتا، تو میں نے اس کہانی کو ہی فلمانے کا فیصلہ کرلیا، اس فلم کو بنانا کسی فلم اسکول کی طرح تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کا خیال مجھے شہریار منور سے بات چیت کے دوران آیا تھا"۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تھکا دینے والا کام تھا، اس کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا پڑا مگر آخر میں یہ ایک زبردست تجربہ ثابت ہوا کیونکہ یہ دوستوں کاایک گروپ تھا جس نے اکھٹے ہوکر ایک فلم بنانے کا فیصلہ کیا تھا"۔

وہ تسلیم کرتے ہیں "پروڈکشن کے اعتبار سے یہ فلم ایک بھیانک خواب ہے، میں کبھی بھی اپنے لیے فلم پروڈیوس کرنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا، سیٹ کے لیے لاجسٹک انتظامات، فلائٹس بکنگ، ٹرانسپورٹ اور فوڈ کا انتظام، ایک موقع پر مجھے ایک شاٹ روکنا پڑا کیونکہ باتھ روم ناکارہ تھے اور لوگ شکایات کر رہے تھے، اس کے بعد سے پروڈکشن ہاﺅس کہانی فلم نے فلمسازی کے انتظامات پر مکمل توجہ دی"۔

اس فلم کو حمزہ پرجوش پراجیکٹ قرار دیتے ہیں جس میں متعدد روایات کو توڑنے کی کوشش کی ہے، اس وقت جب دیگر فلمساز اور اداکار ایکشن فلموں کو ترجیح دے رہے ہیں، حمزہ علی عباسی نے بالکل مختلف موضوع چنا ہے جو کہ ایک سینما لَور کی حیثیت سے ان کے دل کے قریب ہے۔

ان کا کہنا ہے "یہ ایک مزاحیہ فلم ہے، میں نے دانستہ طور پر کامیڈی فلم کو منتخب کیا کیونکہ میں لوگوں کو ہنسانا چاہتا ہوں، اگر لوگ دو گھنٹےکی فلم کے ایک تہائی وقت تک بھی سینما میں قہقہے لگائیں گے تو یہ میرے لیے کافی ہوگا"۔

ان کی پسندیدہ کامیڈی فلموں نے بطور ڈائریکٹر ان پر کس حد تک اثر ڈالا ہے، اس سوال پر حمزہ نے ہنستے ہوئے کہا "میرا دل ہی اسے جان سکتا ہے، میرے خیال میں یہ ان سے بالکل مختلف کامیڈی ہے جو میں پہلے دیکھ چکا ہوں، میں بطور فلمساز بہت زیادہ دانشور نہیں، میں نے فاریسٹ گومپ کو متعدد بار دیکھا ہے جس کو دیکھتے ہوئے پورا وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے، جو کہ میرے خیال میں اس فلم کا سب سے بہترین پہلو ہے، 'ہیرا پھیری' بھی زبردست فلم ہے، 'نامعلوم افراد' نے مجھے ہیرا پھیری کو یاد دلا دیا اور یہی وجہ ہے کہ میں اسے دیکھنے کے لیے پُرجوش ہوں، مجھے اس کا ٹریلر بہت پسندی آیا اور میں اس کے اوپننگ ڈے پر سینما میں ہوں گا"۔

نامعلوم افراد ہی واحد فلم نہیں جسے حمزہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں "جلیبی ایک اور فلم ہے جسے میں دیکھنا چاہوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ تفریح کا باعث ہوگی، تمنا تیکنیکی طور پر زبردست تھی مگر سینما جانے والے فرد کی حیثیت سے وہ میری توجہ حاصل نہیں کرسکی، سیڈلنگ بھی زبردست فلم تھی مگر وہ لوگوں کو سینما میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی، ہمیں کامیڈی فلموں کی ضرورت ہے، فلم بنانے کا پہلا مقصد تفریح کی فراہمی ہوتا ہے"۔

ان کا کہنا تھا "یہ کچھ پریشانی کی بات ہے کہ لوگ 'کمبخت' سے کافی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، جب اے آر وائی اس فلم کا حصہ بنا اور کاسٹ کے کچھ چہرے مقبول ہوگئے تو اس سے دباﺅ بڑھ گیا، یہ ایک سادہ فلم ہے، پاکستان میں اب لوگوں نے 'وار' کے بعد سے نئی فلموں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں، مگر یہ استثنیٰ ہے، فلمیں جیسے 'آپریشن 021' وار کے بعد پرانی ہوگئی ہیں"۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ فلموں سے انہیں کسی قسم کی توقعات نہیں "میں ایک پاکستانی ہوں اور میں پاکستانی سینما پر فخر کرنا چاہتا ہوں، کالج کےدنوں میں، میں اور میرے دوست فلموں کے دیوانے تھے اور فلمساز بنانا چاہتے ہیں، ہم راتوں کو فلمیں دیکھتے تھے، ہر ایک اپنے اپنے ممالک کی فلمیں لاتا تھا مگر میں کچھ بھی نہیں لاپاتا تھا"۔

انہوں نے مزید بتایا "میں نے انہیں 'رام چند پاکستانی' دکھائی اور بس، ہمارے سینما کے پاس کچھ اور دکھانے کے لیے تھا ہی نہیں، میں سب کچھ تنہاتبدیل نہیں کرسکتا، مگر میں تبدیلی کا حصہ بننا پسند کروں گا، 'کمبخت' میرے لیے ڈائریکشن کا آغاز ہے"۔

اس آغاز کے ساتھ حمزہ سینما گھروں کی جانب لانا چاہتے ہیں "بدقسمتی سے پاکستانی فلمسازوں میں یہ رجحان جڑ پکڑ رہا ہے کہ وہ فلمیں فیسٹیولز کے لیے بنا رہے ہیں، میں کسی ایوارڈ کو جیتنے کے لیے فلم نہیں بنا رہا، پرستار اسے پسند کریں یا نہ کریں، میں چاہتا ہوں کہ وہ اسے دیکھیں، ہم متوازی سینما میں جانے سے پہلے انہیں سائن پلیکس میں لانا چاہتے ہیں، یہ فلمی صنعت کی بحالی کا موقع ہے اور اس کے لیے ہمیں عام لوگوں کے لیے فلمیں بنانا ہوں گی تاکہ سینما کی نشستوں کو بھرا جاسکے"۔

تاہم ان کا کہنا تھا "میرے اوپر یہ دباﺅ ہے کہ ایک آئٹم نمبر فلم میں ڈالوں، جب لوگوں کو دینے کی بات آتی ہے تو میرا نہیں خیال کہ تفریح کےلیے فحاشی کو شامل کیا جائے، ہم نہیں چاہتے کہ لوگ اسے سراہیں، میں لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے لیے اپنی فلم میں کسی نیم برہنہ عورت کو رقص نہیں کراسکتا، میرے خیال میں یہ تفریح کی بہت گھٹیا قسم ہے"۔

حمزہ اس بات سے اتفاق نہٰیں کرتے کہ پاکستانی فلموں میں خواتین کا ہیجان خیز رقص سینما انڈسٹری میں طویل عرصے سے دکھایا جا رہا ہے"لوگوں کو اب پاکستانی سینما صنعت کو لولی وڈ اور بولی وڈ کی کامیابیوں سے موازنہ روک دینا چاہئے، اب یہاں کوئی لولی وڈ نہیں، لاہور میں بس چند اسٹوڈیوز ہی مخصوص فلمیں بنا رہے ہیں، آخر ہم بولی وڈ کی مثالوں پر چلنے کے اتنے شوقین کیوں ہیں؟ ہمیں اپنی شناخت خود بنانی چاہئے، ہمارے پاس ابھی اس کا چانس ہے"۔

وہ اس بات سے متفق ہیں کہ بولی وڈ کی کامیابی کا طریقہ موجود ہے مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ پاکستانی صنعت کے لئے کام بھی کرے "میں اس صنعت کا حصہ ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ 'میں ہوں شاہد آفریدی' بولی وڈ فلم کی طرح تھی، مگر 'وار' نے تاریخ بنائی ہے، وہ پاکستان کی سب سے بڑی کمرشل فلم ثابت ہوئی حالانکہ اس میں ایک گانا تک شامل نہیں تھا، اگر بولی وڈ فارمولا کسی فلم کو کامیاب بناتا ہے تو 'میں ہوں شاہد آفریدی' وار سے زیادہ بڑی ہٹ ہوتی"۔

یہ فلم حمزہ علی عباسی کی بطور ڈائریکٹر سفر کا پہلا زینہ ہے اور انہیں توقع ہے کہ ایک دن وہ ذوالفقار علی بھٹو پر فلم بناسکیں گے"میں کچھ ایسابنانا چاہتا ہوں جس سے میں تیس برس پیچھے جا کر دیکھ سکوں اور ایک فنکار کی حیثیت سے فخر کرسکوں"۔

'کمبخت' باکس آفس پر کامیاب ہوتی ہے یا نہیں حمزہ علی عباسی دوبارہ ڈائریکٹر بننے سے ڈریں گے یا نہیں، بلکہ انہوں نے تو اگلے منصوبے پر کام بھی شروع کردیا ہے جسے انہوں نے "دیسی ٹومب رائیڈر" قرار دیا ہے۔

ان کے بقول "میں اپنی اگلی فلم کو آئی ایس پی آر کے اشتراک سے بنانے کی مںصوبہ بندی کر رہا ہوں، اس میں مرکزی کردار میں مضبوط اداکار کا کردار ہوگا، کوئی ایسی خاتون جو اس کردار میں زبردست لگ سکے، آئی ایس پی آر اس حوالے سے بھی آن بورڈ آیا ہے، ہمیں فوجی تعاون اور لاجسٹک کی ضرورت ہوگی"۔

'کمبخت' ستمبر کے وسط میں ریلیز ہوگی اور اس میں حمزہ علی عباسی، شہریار منور صدیقی، ہمایوں سعید، شفقت چیمہ، سوہا علی ابڑو، صبا قمر اور یوسف بشیر قریشی شامل ہیں۔