اسلام آباد دھرنوں سے ملکی خزانے کو 547 ارب نقصان کا حکومتی دعویٰ
اسلام آباد : حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ شارع دستور پر بائیس روز سے جاری دھرنے اور سیاسی انتشار کے نتیجے میں ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے ، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 547 ارب روپے کا نقصان جبکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق معیشت کو ہونے والے نقصانات میں ایکسچینج ریٹ کی شرح میں 4.3 فیصد کمی، 228 ارب روپے کے اضافی قرضوں کے بوجھ اور اسٹاک ویلیو میں 319 ارب روپے بھی شامل ہیں۔
بدھ کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل کو دھرنوں سے ہونے والے نقصان پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
اس رپورٹ کو ممکنہ طور پر جمعے کو عدالت میں زیربحث لایا جائے گا جب عدالت متعدد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے خلاف دائر درخواست کی سماعت دوبارہ شروع کرے گی۔
رپورٹ کے مطابق مسلسل احتجاج کے باعث ملک میں دہشت گرد حملوں اور سیکیورٹی سے متعلق دیگر خطرات بڑھ گئے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی ورکرز پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے اندر ریاست چلا کر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔
سیاسی غیریقینی کی صورتحال نے ملکی مالیاتی مراکز پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 13.926 ارب ڈالرز سے کم ہوکر 13.52 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں جبکہ اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہوگئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے صرف چالیس سے 45 فیصد ملازمین ہی دفاتر آنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں جس کی وجہ سولہ اگست سے شارع دستور کا بلاک ہونا ہے۔
اس کے علاوہ دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارون کے معمول کے بضت میں اضافی 357 ملین روپوں سے زائد مختص کرنا پڑے، جس میں سے اب تک 226 ملین سے زائد تقسیم کیے جاچکے ہیں جبکہ باقی 130 ملین روپوں کی درخواست 29 اگست کو موصول ہوئی۔
کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ابتدائی تخمینے کے مطابق ریاستی املاک کو احتجاج کے باعث پچاس لاکھ روپے کا نقصان ہوچکا ہے، جبکہ پاکستانی ٹیلی ویژن کے ہیڈکوارٹرز پر حملے کے دوران متعدد آلات کو نقصان پہنچا جبکہ کافی کچھ چوری بھی کرلیا گیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اب تک تین افراد ہلاک جبکہ 717 زخمی ہوئے ہیں، جن میں دو سو دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، پولیس کی ایک گاڑی کو جلایا گیا اور سترہ دیگر گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
تاجر ایسوسی ایشن اسلام آباد کے تخمینے کے مطابق تاجروں اور کاروباری افراد کو دس ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے، جبکہ فاقی سیکرٹریٹ تاحال بند ہے، فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کو 422 تعلیمی اداروں کی موسم گرما کی تعطیلات دو ستمبر تک بڑھانا پڑی جو گیارہ اگست کو ختم ہوگئی تھیں، جس کے نتیجے میں دو لاکھ طالبعلم بروقت اپنی تعلیمی سلسلہ شروع نہیں کرسکے۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے پاکستان کے بین الاقوامی چہرے کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور متعدد سربراہان مملکت اور وفود سمیت اہم ایونٹس کو منسوخ یا غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرنا پڑا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اپنے احتجاج کے دوران پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے رہنماءاپنی تقریروں کے دوران متعدد دھمکیاں دے چکے ہیں، جیسے ملک کو مفلوج کرنا، حکومتی مشینری کو کام نہ کرنے دینا، حکومت کے خلاف بغاوت اور اپنے حامیوں کو تشدد کے لیے اکسانا وغیرہ، مگر حکومت تحمل سے کام لے رہی ہے حالانکہ احتجاجی جماعتوں نے اسلام آباد انتظامیہ کے اس این او سی کی خلاف ورزی کی ہے جس میں انہوں نے ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ احتجاج غیرقانونی ہے، جبکہ عام شہریوں اور مظاہرین کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے 27 ہزار کے قریب سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب تک لگ بھگ تیرہ ایف آئی آرز درج کی جاچکی ہیں اور ان پر متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی جاری ہے۔